الحمد للہ موجودہ دور میں پوری دنیا میں غلامی کا قانونی خاتمہ ہو چکا ہے۔ پوری دنیا کی حکومتوں نے جنیوا معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت پوری دنیا کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ غلامی کو مکمل طور پر ختم کرنے اور اس کے احیاء کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اس اجماع میں تمام مسلم حکومتیں شامل ہیں۔ اس کے باوجود غیر قانونی غلامی کا سلسلہ دنیا بھر میں موجود ہے۔
بہت سے مغربی صحافیوں کی جانب سے مسلمانوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ غلامی کے دوبارہ احیاء کے قائل ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ مسلمانوں کے بعض انتہا پسند افراد کے بیانات بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ الزام خلاف حقیقت ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں چند لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو غلامی کے دوبارہ احیاء کے قائل ہیں، لیکن ان افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حال ہی میں دنیا کے مشہور سروے کے ادارے گیلپ نے ایک تحقیق کی ہے جس کے نتائج مارچ 2008 میں منظر عام پر آئے ہیں۔ اس سروے کے انچارج مشہور مستشرق جان ایل ایسپوزیٹو تھے۔ نتائج کی تفصیلات یہ ہیں:
اس ہفتے گیلپ ورلڈ پول نے 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے ایک بڑے سروے کی تفصیلات جاری کی ہیں جن سے 35 سے زیادہ ملکوں کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے خیالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سروے کو اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور سب سے جامع مطالعاتی جائزہ کہا گیا ہے۔ چھ سال کے عرصے کے دوران ہونے والے اس سروے میں امریکہ، انتہاپسندی اور جمہوریت کے بارے میں مسلمانوں کے نظریات سے متعلق سوالات کا سلسلہ شامل تھا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگان پر 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کو تقریباً سات سال ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی اس بارے میں ابھی تک کچھ سوالات کے جواب نہیں ملے ہیں کہ مسلمان انتہاپسندوں کے اس گروہ نے اس دن امریکہ کو اپنا ہدف کیوں بنایاتھا۔ان سوالوں میں ایک یہ سوال بھی شامل ہے کہ دوسرے مسلمان دہشت گردی کے موضوع پر کیوں خاموش رہے ہیں۔
جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ اگرچہ جواب دینے والوں کی ایک مختصر تعداد انتہا پسند نظریات کی حامل ہے، تاہم تاہم مسلمانوں کی بڑی اکثریت،یعنی 92 فی صد اعتدال پسند ہے۔
گیلپ کی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جس پر سیاسی انتہا پسند اور اعتدال پسند متفق ہوسکتے ہیں۔سروے میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں واحد اختلاف مسائل کو محسوس کرنے کی شدت کا ہے۔ ڈائیلا مجاہد گیلپ کی سینیئر تحزیہ کار اور مسلم اسٹڈیز کے گیلپ سینٹر کی سربراہ ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام پر الزام عائد کرنا پوری مسلم دنیا کےان اہم سیاسی مسائل اور شکایتوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی نسبت زیادہ آسان ہےجن کی وجہ سے بہت سے مسلمان انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ڈائیلا کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹیکنالوجی، اس کی آزادیِ اظہار اور سخت محنت کے نظام کے قائل ہیں۔تاہم سروے سے ظاہر ہوا کہ امریکی پالیسی کے بارے میں سب کی رائے تقریباً ایک سی تھی۔
جان ایسپو سیٹو کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس پر متفق ہیں کہ مغربی حکومتیں مسلم ثقافت اور مذہب کو دہشت گردی سے الگ کرنے کی بات کرتے ہوئے اپنے لہجے میں نرمی لا کرتعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔ جان ایپوسیٹو اور ڈائیلا دونوں اس پر متفق ہیں کہ امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بڑے بڑے اصلاح پسندوں کو اس بحث میں شریک کیا جائے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پرامن طریقوں اور اعتدال پسندوں کو انتہاپسندوں سے الگ کرنے میں مدد دے کر تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔
(وائس آف امریکہ، 2 مارچ 2008، http://www.voanews.com/urdu/2008-03-02-voa12.cfm )
گیلپ کے اس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا میں اب تبدیلی آ رہی ہے اور مسلمانوں کی 92% تعداد آزادی فکر کی قائل ہو چکی ہے۔ صرف 8% مسلمان انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔ یہ آٹھ فیصد بھی ایک دوسرے سے ہر معاملے میں متفق نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو غلامی کے دوبارہ احیاء کے قائل نہیں ہیں۔ اخوان المسلمون کے بڑے لیڈر سید قطب کو بالعموم مغربی مفکرین موجودہ دور کی انتہا پسندی کا بانی تصور کرتے ہیں۔ غلامی کے دوبارہ احیاء سے متعلق ان کی رائے کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
وقد سبق لنا في مواضع مختلفة من هذه الظلال القول بأنه كان لمواجهة أوضاع عالمية قائمة , وتقاليد في الحرب عامة . ولم يكن ممكنا أن يطبق الإسلام في جميع الحالات النص العام: (فإما منا بعد وإما فداء). . في الوقت الذي يسترق أعداء الإسلام من يأسرونهم من المسلمين . ومن ثم طبقه الرسول [ ص ] في بعض الحالات فأطلق بعض الأسارى منا . وفادى ببعضهم أسرى المسلمين , وفادى بعضهم بالمال . وفي حالات أخرى وقع الاسترقاق لمواجهة حالات قائمة لا تعالج بغير هذا الإجراء . فإذا حدث أن اتفقت المعسكرات كلها على عدم استرقاق الأسرى , فإن الإسلام يرجع حينئذ إلى قاعدته الإيجابية الوحيدة وهي: (فإما منا بعد وإما فداء) لانقضاء الأوضاع التي كانت تقضي بالاسترقاق . فليس الاسترقاق حتميا , وليس قاعدة من قواعد معاملة الأسرى في الإسلام . (سيد قطب، تفسير فی ظلال القرآن؛ سورة محمد 47:4)
ہماری اس تفسیر ظلال میں مختلف مقامات پر یہ بحث گزر چکی ہے کہ (عہد رسالت اور خلفاء راشدین کے دور میں) غلام بنائے جانے کا معاملہ بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت تھا۔ ہر قسم کے حالات میں اس عام صریح حکم کہ قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو پر عمل کرنا ناممکن تھا۔ (خاص طور پر) اس دور میں جب اسلام کے دشمن مسلمان قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض حالات میں بعض قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ بعض قیدیوں کو مسلمان قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا اور بعض قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ بعض ایسے حالات میں غلام بھی بنائے گئے جس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔
اس کے بعد دنیا بھر کی افواج (اور حکومتیں) اس بات پر متفق ہو گئی ہیں کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنایا جائے گا تو مسلمان بھی اپنے اصل قانون کی طرف لوٹ جائیں گے کہ قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب وہ حالات ہی ختم ہو چکے ہیں جن میں غلام بنائے جاتے تھے۔ اب غلام بنائے جانے کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور غلام بنا لیا جانا اسلام کا قانون نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آٹھ فیصد مسلمانوں، جنہیں گیلپ سروے نے انتہا پسند قرار دیا ہے، میں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو غلامی کے دوبارہ احیاء کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے حضرات دنیا کے بہت سے ممالک میں جنگ میں مصروف ہیں اور ان جنگوں میں انہوں نے بہت سے لوگوں کو قید بھی کیا ہے لیکن انہوں نے کسی قیدی کو غلام بنا لیا ہو، یہ بات پچھلے پچاس برس کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آئی۔
ہماری رائے یہ ہے کہ گیلپ یا کسی اور سروے کے ادارے کو اس بات پر ایک وسیع تحقیق کرنی چاہیے کہ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا اور بالخصوص مذہبی طبقات میں غلامی اور آزادی اظہار سے متعلق کیا رویہ موجود ہے۔ اس ریسرچ کے ڈیزائن، سیمپل کی نوعیت اور سوالناموں کی تیاری میں اگر انہیں مدد درکار ہو تو ہم اپنی خدمات بغیر کسی معاوضے کے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
مغربی صحافی اکثر اوقات بعض مسلم علماء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا حوالہ دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام میں غلامی ایک لازمی امر ہے۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور اس کے ساتھ غلامی باقی رہے گی۔ اگر ہم غلامی سے متعلق قرآن و سنت کی تعلیمات کا اجمالی سا جائزہ بھی لے لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات دین اسلام کے اصل مآخذ کے خلاف ہے۔ یہ نظریہ صرف ایک معمولی اقلیت کا نظریہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت اس بات کے خلاف ہے۔ اس موضوع پر فقہی و قانونی بحث ہم فقہی سوالات کے ضمن میں پیش کر رہے ہیں۔
جو حضرات یہ غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی خواہش کے مطابق دنیا میں غلامی کے ادارے کا احیاء کر بھی دیا جائے تو بھی دوسروں کو غلام بنانے کی ان کی حسرت پوری نہ ہو سکے گی بلکہ دنیا میں طاقت کے موجودہ توازن کے مطابق خود مسلمان ہی غلام بنیں گے اور ان کی بہنیں اور بیٹیاں امریکہ، یورپ اور چین کے بازاروں میں نیلام ہوں گی۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.