اس موضوع پر ہم نے تفصیل سے باب 14، باب 18 اور باب 19 میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آزادی فکر کے برعکس لوگوں کو نفسیاتی غلام بنانے کے لئے بہت بڑے مذہبی اور سیاسی ادارے بہت بڑے پیمانے پر کم و بیش ایک ہزار سال سے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے اثرات مسلم معاشروں پر معمولی نہیں ہیں۔ انڈونیشیا سے لے کر ہندوستان، وسطی ایشیا اور افریقہ میں ان اداروں کے اثرات نے بلامبالغہ اربوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں ایک ہزار سال سے یہ بات بڑے پیمانے پر ہے کہ قدیم دور کے اہل علم جو علمی کام کر گئے ہیں، وہ قیامت تک کے لئے کافی ہے۔ اب مزید کسی غور و فکر اور اجتہاد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور نہ ہی موجودہ دور میں ایسے لوگ پیدا ہو سکتے ہیں جو اجتہاد کرنے کے اہل ہوں۔ اس تصور کے باعث علماء کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ قدیم علماء کی کہی ہوئی باتوں کو بغیر کسی تنقیدی سوچ کے دوہراتے رہیں، اسی کی تعلیم دیتے رہیں اور اسی پر عمل کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں قرآن مجید اور حدیث رسول کی تعلیم اگر دی بھی جاتی ہے تو انہی قدیم علماء کی آراء کی روشنی میں دی جاتی ہے۔ دین کے ان بنیادی ماخذوں کو اپنے مسلک اور مکتب فکر کے تعصب کی عینک سے دیکھا جاتا ہے اور ان پر آزادانہ غور و فکر کرنے کی روایت بہت ہی کم موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں پچھلے ایک ہزار سال سے شاگردوں اور مریدوں پر یہ نفسیاتی پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے استاذ یا مرشد کے فکری غلام بنیں۔ استاذ یا مرشد سے اختلاف رائے کرنا ایک ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی ذہین شاگرد علمی دلائل کی بنیاد پر ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کے ارد گرد کا پورا معاشرہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور لعن طعن کے ذریعے اسے اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اختلاف رائے کرنے والوں کو لعن طعن سے آگے بڑھ کر گولی کا نشانہ بھی بنا دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی تحریک کو فروغ دینے کے لئے ایسے طبقے کی اہمیت ناگزیر ہے جو معاشرے میں تحریک پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمارے ہاں یہ حیثیت مذہبی طبقے کو حاصل ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ الا ماشاء اللہ یہ طبقہ انسانی حقوق، آزادی فکر اور آزادی اظہار رائے کے تصورات کو غیر اسلامی اور مغربی تصورات سمجھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں انسان کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں، وہ ہمارے مذہبی طبقے کی تقریروں اور تحریروں کا بہت ہی کم موضوع بنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تصورات کو ہمارے ہاں تقدس حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کو مقدس بنانے کی باقاعدہ مہم بڑے پیمانے پر چلائی جاتی ہے۔ ان راہنماؤں کی باتوں کو خدا کا پیغام قرار دے کر ان سے اختلاف رائے کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور راہنما پر اندھے اعتماد پر زور دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے لوگوں کی برین واشنگ کے وہ تمام طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جو پوری دنیا میں اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل آپ باب 19 میں دیکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں دیگر مذاہب کی طرح یہ تصور پیدا کیا جاتا ہے کہ کسی بندے کو خدا سے تعلق پیدا کرنے کے لئے کسی مذہبی راہنما کو واسطہ بنانا چاہیے۔ اس طرز فکر کی کم از کم اس اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے جو قرآن و حدیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے لیکن اس طرز فکر کو بھرپور طریقے سے مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ قرآن مجید کی جو آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جو احادیث، حکومت کی اطاعت سے متعلق ہیں، انہیں زبردستی استاذ و شاگرد اور پیر و مرید کے تعلق پر چسپاں کیا جاتا ہے تاکہ ذہنی غلامی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس قسم کے دیگر نفسیاتی فنون کو لوگوں کو نفسیاتی غلام بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نفسیاتی غلاموں کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کم عمر بچوں کے ذہن میں بھی نفسیاتی غلامی اتارتے رہیں تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے ہاں ایک طویل عرصے سے جاگیردارانہ نظام قائم ہے۔ اس نظام کے تحت بے شمار افراد غلامی اور نیم غلامی کی کیفیت میں موجود ہیں۔
اس صورتحال میں یہ بات باعث حیرت ہو گی کہ مسلمانوں کے ہاں آزادی فکر کی کوئی روایت پروان چڑھ سکے۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.