یہ بھی مسلم تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ان کے ہاں جب دین سے انحراف پیدا ہوا تو ان کے بادشاہ عیاشی کی طرف مائل ہوتے چلے گئے۔ اس عیاشی کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے حرم تعمیر کرنا شروع کر دیے۔ یہ سلسلہ صرف ان بادشاہوں تک ہی محدود نہ رہا بلکہ آہستہ آہستہ اشرافیہ کے پورے طبقے نے اسے قبول کر لیا۔ مسلمانوں نے اس ضمن میں اپنے دین سے جو انحرافات کئے، وہ یہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایک فرد نے سینکڑوں ہزاروں کنیزوں کو اپنے حرم میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔ آزاد خواتین اور بچیوں کو قافلوں پر حملے کر کے لونڈی بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔ مسلم ممالک میں لونڈیوں کی اس بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے نیتجے میں غیر مسلم ممالک میں آزاد خواتین کو لونڈی بنانے کو فروغ نصیب ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔ لونڈیوں کو اپنے جسم کے ذریعے مرد کو تسخیر کرنے کی تربیت دینے کے لئے باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے۔
یہ سب سلسلے یقیناً دین اسلام کی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ جس طرح کسی عیسائی بادشاہ کی بدکاریوں کا ذمہ دار عیسائی مذہب کو قرار نہیں دیا جا سکتا، بدھ بادشاہ کی بدفعلیوں کا ذمہ دار بدھ مذہب نہیں ہو سکتا اور ہندو بادشاہ کے ظلم کا ذمہ دار ہندو مذہب نہیں ہو سکتا، بالکل اسی طرح کسی مسلمان بادشاہ کے افعال کا ذمہ دار اسلام کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہاں یہ ضروری ہے کہ اس ظلم کے لئے اسلام کے مقدس نام کو جس طریقے سے استعمال کیا گیا ہے، اس کی تفصیلات بھی بیان کر دی جائیں۔ اسلام نے کسی خاتون سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صرف دو صورتوں کو جائز قرار دیا تھا۔ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی خاتون اپنی مرضی سے قانونی طریقے سے کسی مرد کے ساتھ نکاح کا رشتہ قائم کرے۔
دوسری صورت یہ تھی کہ کوئی خاتون لونڈی کی حیثیت سے مسلم معاشرے میں موجود ہو یا کسی بھی ایسی جنگ میں، جو ایک قانونی جہاد ہو (نہ کہ محض دولت اور زمین کے لالچ میں کی جانے والی جنگ ہو)، دشمن کی کوئی فوجی خاتون گرفتار ہو کر مسلم معاشرے میں آ جائے۔ اگر اس خاتون کو فدیہ لے کر یا احساناً رہا کرنے کی بھی کوئی صورت موجود نہ ہوتی تو اس خاتون کو مسلم معاشرے کا حصہ بنا دینے کے لئے حکومت اس کا رشتہ ایک نسبتاً کم درجے کی بیوی کے کسی مسلم مرد سے قائم کر دیا جاتا تھا۔ ہم باب 9 میں اس رشتے کے ایک ایک پہلو کو لے کر تفصیل سے یہ بیان کر چکے ہیں کہ اس رشتے میں اس خاتون کو کم و بیش وہی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے جو کہ آزاد بیوی کو حاصل ہوتے ہیں۔
فدیہ یا بطور احسان رہا نہ کرنے کی صورت بھی اسی وقت پیش آتی تھی جب اس خاتون کا خاوند، باپ یا بھائی میدان جنگ میں مارا گیا ہوتا تھا ورنہ اس دور میں دنیا کی ہر قوم اپنی خواتین کے معاملے میں بہت حساس تھی۔
اس مرد کو دین نے یہی حکم دیا تھا کہ وہ اس خاتون کو اچھی تعلیم و تربیت کے بعد اسے مکمل آزاد کر کے اس سے اس کی مرضی نکاح کر لے۔ جب تک وہ خاتون ‘ملک یمین’ کی حیثیت سے اس مرد کے پاس ہے، وہ اس کی اجازت سے اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ بچہ ہونے کی صورت میں وہ خاتون خود بخود آزاد ہو جاتی تھی۔ اگر اس خاتون کو اپنا آقا پسند نہ آتا تو وہ فوری طور پر مکاتبت کے ذریعے اس سے نجات حاصل کر سکتی تھی۔ اسلام میں کسی اور طریقے سے کسی بھی خاتون کو لونڈی نہیں بنایا جا سکتا تھا۔
ایک کم عقل شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ آقا اور لونڈی کے اس رشتے کا مقصد یہی تھا کہ دشمن فوج کی بے سہارا فوجی خواتین کو ایک سہارا دے دیا جائے اور انہیں معاشرے میں جذب کر کے کچھ عرصے میں ایک آزاد خاتون کا درجہ دے دیا جائے۔ اگر اس طریقے پر عمل نہ کیا جاتا تو پھر اس خاتون کے پاس طوائف بننے کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہوتا جس کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں طوائفوں کا ایک بہت بڑا طبقہ وجود میں آ جاتا۔
دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے لوگ رہے ہیں جو اپنے مذہب کے کسی بھی حکم کے اصل مقصد کو نظر انداز کر کے اس اجازت کا غلط استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ دین میں شادی اور طلاق کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بدکاری کرنے کے لئے شام کو ایک خاتون سے نکاح کرتے ہیں اور صبح اسے طلاق دے دیتے ہیں۔
اسلام میں یہ قانون موجود ہے کہ جو مال ایک سال تک کسی شخص کے پاس موجود رہے، وہ اس پر زکوۃ ادا کرے۔ بہت سے لوگ اس سے بچنے کے لئے گیارہویں مہینے، اس مال کو اپنی بیوی کے حوالے کر دیتے ہیں جو گیارہ ماہ کے بعد اسے واپس شوہر کو دے دیتی ہے۔ ایسے لوگ ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس ضمن میں جو کچھ بھی کیا، وہ دین کی ایک اجازت کا غلط استعمال تھا، جس کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ اسلام پر ایسے لوگوں کی بدفعلیوں کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بدفعلیوں کے لئے اللہ تعالی کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔
اب آخری سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام نے مسلم مردوں کو ایک سے زائد خواتین کے ساتھ قانونی ازدواجی تعلق رکھنے کی اجازت ہی کیوں دی ہے اور خواتین کو ایسی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ ظاہر ہے کہ ایسے دور میں جب جنگیں بکثرت ہوں اور ان جنگوں میں عام طور پر مرد ہی مارے جاتے ہوں، خواتین کی کفالت اور ان کی ازدواجی ضروریات کو پورا کرنے کا اس کے سوا اور کیا طریقہ ممکن تھا کہ مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عصمت فروشی کا ایک بہت بڑا ادارہ وجود میں آ جاتا۔
موجودہ دور میں بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بدکاری کے پھیلنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اہل مغرب کے ہاں دوسری شادی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بدکاری صرف انہی خواتین تک محدود نہ رہی بلکہ موجودہ دور میں دو نسلوں کے بعد بھی ان کے ہاں سیکس سے متعلق جو غیر معتدل رویہ پایا جاتا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دوسری شادی کے خلاف تو ان کے ہاں ایک بہت بڑی تحریک پائی جاتی ہے مگر غیر قانونی ازدواجی تعلقات، جو اب ان کے ہاں عام معمول ہیں، وہ ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہیں۔
اسلام نے دوسری شادی کا کہیں حکم نہیں دیا ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ اس سے منع نہیں فرمایا۔ یہ بھی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ شخص ان خواتین کے ساتھ مکمل انصاف کا سلوک کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ آخرت میں بھی جواب دہ ہو گا اور دنیا میں بھی قانون اس کے خلاف کاروائی کر سکتا ہے۔
رہی یہ بات کہ خواتین کو ایک سے زائد مردوں سے ازدواجی تعلقات کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ اس کا جواب تو بہت واضح ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنگوں کے باعث مرد خواتین کی نسبت پہلے ہی تعداد کی کمی کا شکار تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خاتون کے ایسا کرنے کی صورت میں بچے کے باپ، اس کی کفالت اور وراثت کے مسائل کو کس طرح طے کیا جائے گا۔ اگر کسی خاتون کا شوہر اس کے ازدواجی حقوق پورا نہیں کرتا، تو اس کے لئے راستہ کھلا ہے کہ وہ جب چاہے خلع لے کر دوسری شادی کر لے۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.