سوال: السلام علیکم! مبشر بھائی
کیا حال ہے؟ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔ مبشر بھائی! میں احساس کمتری کا بہت زیادہ شکار ہوں۔ میرے والد بہت سخت مزاج کے ہیں۔ ہر وقت ڈانٹنا ، گالیاں دینا، بلاوجہ روک ٹوک کرنا ان کا معمول ہے۔ میرے بھائی اور سسٹر اس احساس کمتری کا شکار ہیں۔ کوئی مہمان آ جائے تو ہم سے بات نہیں ہوتی۔ میری امی بھی اس چیز کی شکار ہیں۔ اللہ سے دعا ہے اور آپ سے التجا ہے کہ اللہ کے لئے اس کا کوئی حل بتا دیں۔ میں ساری عمر آپ کا احسان نہیں بھولوں گا۔ مجھے ای میل ضرور کریں۔ اللہ آپ کی عمر لمبی کرے اور آپ ساری زندگی خوش رہیں۔ آمین۔
جواب: محترم بھائی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی آپ کے مسائل حل کرے۔ اس قسم کا مزاج بالعموم اس وقت بنتا ہے جب کسی شخص کو ایسے تجربات سے گزرنا پڑے جو اس کی نفسیات پر برا اثر ڈالیں۔ عین ممکن ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں آپ کے والد محترم کو کچھ ایسے حالات سے گزرنا پڑا ہو گا۔
اگر آپ کچھ تفصیل بتا سکیں تو شاید میں کچھ مشورہ دے سکوں۔ آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ آپ سب کی عمریں کیا ہیں؟ آپ کے والد صاحب ہی گھر کے واحد کفیل ہیں یا ان کے علاوہ کوئی اور بھی کماتا ہے؟ والدہ محترمہ کا گھر میں اثر و رسوخ کتنا ہے؟ کیا آپ کے دادا دادی حیات ہیں؟
آپ سب گھر والوں کو مل کر اپنے والد محترم کو نفسیاتی طور پر ٹریٹ کرنا ہو گا۔ اس کے لئے آپ سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ ان سوالات کے جوابات دیجیے تو میں آپ کی خدمت میں کچھ حل پیش کروں گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
سوال: السلام علیکم! مبشر بھائی
کیا حال ہے؟ آپ کی ای میل آئی بہت شکریہ۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ صرف دادی حیات ہیں۔ دادا فوت ہو گئے ہیں۔ گھر میں میرے والد صاحب کماتے ہیں۔ میں بھی کام کرتا ہوں۔ والد صاحب دادی کے پاس بہت بیٹھتے ہیں اور دادی ہماری ان کے کان بھرتی رہتی ہیں۔ والد صاحب مجھے نہیں یاد کہ میری والدہ سے کبھی پیار سے بات کی ہو اور نہ ہم سے۔ میں سب بھائیوں میں بڑا ہوں۔ بچپن سے لے کر آج تک میں نے کبھی ان کو مجھ سے پیار سے بات کرتے ہوئے نہیں پایا۔ دادی ہماری میری امی کے خلاف باتیں کرتی رہتی ہیں، جس سے میرے والد کی والدہ سے لڑائی ہو جاتی ہے، میرے والد کی چھ بہنیں ہیں مگر ان کی اپنے شوہروں سے کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور کبھی اگر ہو بھی جائے تو ہمیں خبر نہیں ہوئی۔ مگر ہمارے یہاں والد صاحب میری امی سے لڑائی کرتے ہیں تو سارا محلہ سنتا ہے۔ خاندان میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ کوئٰ ہمارے پاس نہیں بیٹھتا۔ میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ آپ نے تفصیل مانگی، تو میں نے بتا دی۔ میں آپ کی ای میل کا انتظار کروں گا۔ ایک بار پھر بہت مہربانی۔ تھینک یو ویری مچ۔
محترم بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے حالات جان کر افسوس ہوا۔ آپ کی صورتحال کی دو ممکنہ وجوہات سمجھ میں آتی ہیں، اسی اعتبار سے اس کے تین حل ممکن ہیں۔ میں خاصی سیدھی بات کر رہا ہوں، امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے:
۔۔۔۔۔۔۔ آپ، آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کے بہن بھائی والد محترم کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ ممکن ہے کہ آپ ان کی خواہشات کا احترام نہ کرتے ہوں۔ جس کی وجہ سے وہ غصے میں آ کر آپ سب سے لڑتے ہوں۔ کسی وقت تنہائی میں بیٹھ کر ایک کاغذ اور پنسل لیجیے اور ان لڑائیوں کا تفصیلی جائزہ لیجیے۔ اس میں جھگڑے کی وجہ پر غور کیجیے۔ اگر آپ آخری دس جھگڑوں پر غور کریں گے تو ان کی مشترکہ وجہ سمجھ میں آ جائے گی۔ اسے دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ انشاء اللہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس وجہ کا بہت بڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے والد صاحب یہ توقع رکھتے ہوں کہ آپ مسکرا کر ان کا استقبال کریں گے، جب انہیں کھانے کی ضرورت ہو گی تو وقت پر کھانا ملے گا، کپڑے استری ملیں گے وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ آپ کے والد محترم کی نفسیات میں کوئی مسئلہ ہو۔ جب انسان طویل وقت مالی اور نفسیاتی پریشر میں گزارتا ہے تو یہ مسائل عام طور پر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ کو انہیں نفسیاتی طور پر ٹریٹ کرنا ہو گا۔ اگر آپ افورڈ کر سکتے ہوں تو کسی ماہر نفسیات یا سائکاٹرسٹ سے رجوع کر لیجیے۔ وہ ایسی میڈیسن سے انہیں ٹریٹ کریں گے جن سے ان کے غصے کی شدت میں کمی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی طرح بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر آخری حل یہ ہے کہ آپ جارحانہ قدم اٹھائیں۔ ایسی صورت میں آپ والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ الگ ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوگا کہ آپ والد صاحب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں بلکہ اس کے نتیجے میں انہیں ایک نفسیاتی جھٹکا پہنچانا مقصود ہو گا تاکہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی پر تیار ہو سکیں۔ جب انہیں چند ماہ بیوی بچوں کے بغیر رہنا پڑے گا تو ان کے رویے میں واضح تبدیلی آئے گی۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ مالی اعتبار سے اس پوزیشن میں ہوں کہ گھر کا خرچ اٹھا سکیں۔ اگر آپ اس پوزیشن میں نہ ہوں اور آپ کی والدہ یا کوئی بھائی کام کرنے پر تیار ہو تو آپ کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے۔ مجھے آپ کے تعلیمی معیار اور تجربے کا علم نہیں ہے ورنہ اس بارے میں کچھ مشورہ دیتا۔
اگر آپ کی اپنی آمدنی بہت ہی کم ہے تو پھر اپنی تعلیمی قابلیت کو بہتر بنانے کی کوشش کیجیے یا کوئی ہنر سیکھ لیجیے۔ جہاں اتنا برداشت کیا ہے وہاں کچھ عرصہ اور والد صاحب کی سختی کو برداشت کیجیے۔ جیسے ہی آپ کے ہاتھ میں ڈگری یا ہنر آئے اور بہتر ملازمت ملے، آّپ یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔
اپنی صورتحال کو آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور ان میں سے کوئی حل اختیار کر سکتے ہیں۔ آپ کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر غور کیجیے کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہی کچھ دیا ہے جو دوسرے سب انسانوں کو حاصل ہے: ایک دماغ، دو ہاتھ، دو پاؤں ۔۔۔۔ رہے حالات تو بہت سے لوگ ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔ یہ زندگی کا ایک عارضی وقت ہوتا ہے، انشاء اللہ گزر جائے گا۔
احساس کمتری کے بارے میں اس تحریر کا مطالعہ مفید رہے گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.