اس موضوع پر تفصیلی بحث ہم نے باب 14 اور 15 میں کی ہے۔ مختصراً یہاں ہم اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔
یہ ہماری تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کا ادارہ صرف تیس سال اور اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ پچاس سال تک قائم رہا۔ اس کے برعکس سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت راشدہ کا سلسلہ کم و بیش ساڑھے تین سو برس تک جاری رہا تھا۔ بعد کے ادوار میں خلافت راشدہ کی جگہ کاٹ کھانے والی اور جبر کرنے والی بادشاہتوں نے لے لی تھی۔ خلافت کس طریقے سے ظلم کرنے والی حکومتوں میں تبدیل ہوئی، یہ ایک مستقل موضوع ہے اور اس تحریر کے اسکوپ سے باہر ہے۔
بنو امیہ کے بادشاہ ایک مفاد پرست طبقہ تھا۔ جب تک دین ان کے کسی مفاد کی راہ میں حائل نہ ہوتا تو یہ پکے دیندار لوگ تھے لیکن جہاں ان کے مفادات میں دین حائل ہوتا، یہ اس کی مختلف حیلے بہانوں سے خلاف ورزی کیا کرتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے اپنے ایک نیک فرزند عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے جب خلافت راشدہ کا احیاء کرنا چاہا تو انہوں نے زہر دے کر انہیں بھی شہید کر دیا۔
بنو امیہ کے پورے دور میں دین دار افراد کی جانب سے بے شمار مسلح بغاوتیں ان کے خلاف ہوئیں جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کمزور ہوگئی اور ان کی جگہ بنو عباس سلطنت پر قابض ہو گئے۔ چند نسبتاً بہتر بادشاہوں کو چھوڑ کر یہ خاندان بھی نہایت ہی کرپٹ تھا۔
جیسا کہ ہم نے باب 12 میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اسلام کی اصلاحات کے نتیجے میں مسلم دنیا میں غلامی کے ادارے کا بڑی حد تک خاتمہ ہو چکا تھا۔ غلاموں کی کمی کے باعث ان کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ عباسی سلطنت میں چند ایسے حکومتی ادارے وجود پذیر ہوئے جن کی بدولت غلاموں کی ڈیمانڈ میں یک لخت بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ وہ ادارے یہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔ غلاموں پر مشتمل افواج
۔۔۔۔۔۔ بادشاہوں اور امراء کے حرم
۔۔۔۔۔۔ مخنث غلاموں پر مشتمل پولیس
غلاموں کی اس بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے انہیں غیر مسلم دنیا سے امپورٹ کرنے کو باقاعدہ ادارے کی شکل دی گئی۔ اس طریقے سے مسلمان بردہ فروش، غیر مسلم دنیا کے بردہ فروشوں کے بزنس پارٹنر بن کر اس تجارت سے نفع کمانے لگے۔
عباسی دور میں بادشاہ کو باقاعدہ خدا کا نائب قرار دے کر اسے مقدس قرار دیا گیا۔ اس کے لئے جو زبردست پراپیگنڈا کیا گیا، اس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں غلامانہ ذہنیت پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقے میں اندھی تقلید اور پیر و مرید کے نئے تعلقات کے ایسے سماجی ادارے وجود پذیر ہوئے جس نے کم و بیش پوری مسلم دنیا میں غلامانہ ذہنیت کو فروغ دیا۔
مسلم معاشروں میں ان پے در پے تبدیلیوں کے بعد کوئی معجزہ ہی رونما ہو سکتا تھا جس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں آزادی فکر رواج پاتی جس کے نتیجے میں غلامی سے نجات ملتی۔ جو قارئین اس موضوع پر تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں، وہ باب 14 اور 15 میں اس تبدیلی کی تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.