اسلام علیکم
میرا سوال یہ ہے کہ اللہ کی جناب سے وحی پر غور و فکر کی اجازت جس چیز میں ہے، وہ کیا ہے؟ کیا شریعت کے احکام میں بھی عقل استعمال کرنے کی اجازت ہے؟ عقل کی حدود کیا ہیں؟ مجھے آپ کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ہمیں صرف اللہ تعالی کے وجود، صفات، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا عقلی ثبوت کرنا ہوتا ہے، باقی باتوں کو آنکھیں بند کر کے ماننا ہوتا ہے، جن کا حکم قرآن و سنت میں موجود ہو۔
آپ نے کہا ہے کہ دینی احکام کی عقلی توجیہ دعوتی نقطہ نظر سے ہے خاص کر غیر مسلموں کو دعوت دیتے وقت۔ مگر اس میں میں یہ سوال کروں گی کہ اسلام کی جن چیزوں کی تبلیغ کرنی ہوتی ہے، وہ تین ہیں جن کو عقل سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہم مسلمان کسی دوسرے کو اسلام کا پورا پیکج تو نہیں تھما رہے کہ اس میں یہ یہ عقلی باتیں موجود ہیں۔ ہم تو انہیں اسلام کے بنیادی عقائد بتا رہے ہیں، پھر ان احکام کی عقلی توجیہ کی کیا ضرورت ہے؟
اسلام میں اس بات پر کسی عقلی بحث کی گنجائش نہیں ہے کہ پانچ وقت کی نماز کیوں فرض کی ہے؟ وقت تبدیل کیوں نہیں ہو سکتا؟ نماز اسی طریقے سے کیوں پڑھی جائے۔ یہ سب باتیں جیسا ہیں، ویسے ہی قبول کرنا ہوں گی کیونکہ مسلم تو اللہ کا بندہ یعنی غلام ہوتا ہے۔ جیسا اللہ نے کہا، ویسا اس کو کرنا ہے۔ مگر میں یہ بھی نہیں کہہ رہی کہ اسلام کسی بھی قسم کی فکری یا نفسیاتی یا کوئی اور غلامی کی طرف لاتا ہے جس میں انسان دوسرے کا غلام ہو۔
ایک بہن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اچھا کیا کہ اپنا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کر دیا۔ برائےکرم اگر اردو میں لکھنا ہو تو اردو ہی میں ٹائپ کر لیا کیجیے کیونکہ رومن اردو پڑھتے ہوئے میرے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ آپ چونکہ علوم دینیہ کا مطالعہ کر رہی ہیں تو اپنے کمپیوٹر میں اردو اور عربی این ایبل کر لیجیے۔
آپ نے بالکل صحیح فرمایا کہ ہمارے اللہ نے ہمیں جو حکم دیا، ہمیں اسے بلا چون و چرا ماننا ہے کیونکہ مسلم کا مطلب ہی فرمانبردار ہے۔ البتہ اس بات سے میں اتفاق نہیں کر سکتا ہوں کہ اسلام کے احکام میں غور و فکر نہ کیا جائے۔ دین کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو عقل کے خلاف ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اپنی دعوت کا مخاطب انسانی عقل کو بنایا ہے۔ اگر ایک جانب عقل کو مخاطب بنایا جائے اور دوسری طرف ایسی باتیں کہی جائیں جو صریحا اس کے خلاف ہوں تو پھر دین میں خود ہی داخلی تضاد پیدا ہو جائے گا۔
ہماری طویل علمی روایت میں یہ بات رہی ہے کہ علماء نے دینی احکام کی حکمتوں اور وجوہات (علت) پر تفصیلی غور و خوض کیا ہے اور ان پر قیاس کرتے ہوئے مزید احکام اخذ کیے ہیں۔ ابوحنیفہ، شافعی، شاطبی، غزالی، آمدی، رازی، شاہ ولی اللہ اور ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اسی کو موضوع بنا کر کتابیں لکھی ہیں۔ اس معاملے میں امت کے جلیل القدر علماء میں کبھی اختلاف نہیں رہا ہے کہ دینی احکام میں غور نہ کیا جائے۔
آپ کی بیان کردہ نماز کی مثال سے مجھے اتفاق ہے۔ عبادات کے معاملے میں بہت غور و خوض کی ضرورت اس وجہ سے نہیں ہےکہ عبادت اللہ تعالی کی کی جانی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اسی طریقے سے ہو، جو اللہ تعالی نے مقرر فرما دیا ہے۔ عبادات کا کوئی طریقہ تو مقرر ہونا ہی تھا۔ اس وجہ سے جو طریقہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتا دیا، وہی عقل کا تقاضا ہے۔ اس میں یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ یہی طریقہ کیوں، کوئی اور کیوں نہیں؟
زیادہ غور و فکر کی ضرورت ان احکام میں پڑتی ہے جن کا تعلق عملی زندگی جیسے نکاح و طلاق، معیشت، سیاست، حدود و تعزیرات، بین الاقوامی قانون اور اس قسم کے امور سے ہے۔ ان میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکم کسی خاص صورتحال کے لیے دیا گیا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کوئی عالم اس صورتحال اور حکم کے سیاق و سباق کو کلیتاً نظر انداز کر دیتے ہیں اور حکم کو خاص سے عام جنرل بنا دیتے ہیں۔ اس طرح سے جس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص موقع کے لیے رکھا تھا، وہ اسے اٹھا کر عام کر دیتے ہیں، اور کبھی اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں جو غلامی سے متعلق اپنی کتاب لکھتے ہوئے میرے سامنے آئی۔ عہد رسالت میں غلامی موجود تھی اور غلاموں کی آزادی کی ایک زبردست تحریک چلائی گئی۔ تاہم جو غلام موجود تھے، ان سے متعلق کچھ احکام بھی دیے گئے۔ ایک حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے: جس نے کوئی غلام بیچا اور اس کے پاس مال تھا، تو وہ مال بیچنے والے ہی کا ہو گا۔ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ اس کی بنیاد پر فقہاء نے یہ قانون اخذ کیا کہ غلام، اپنے مال کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ سارا دن محنت مزدوری کر کے اگر کچھ تھوڑی بہت رقم کمائے تو یہ مال اس کے مالک کی ملکیت میں خود بخود چلا جائے گا۔ وہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر اپنے کمائے ہوئے مال سے استفادہ نہیں کر سکتا ہے۔ اس اصول نے میرے دماغ میں ہیجان برپا کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جنہیں اللہ تعالی نے رحمۃ للعالمین کہا ہے، ایسی بات کیسے فرما سکتے ہیں کہ درد سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔
جب میں نے اس حدیث پر غور کرنے کے لیے اس کے دیگر روایتیں اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ بات کچھ اور تھی۔ احادیث میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی حدیث کو مختلف لوگوں نے بیان کیا ہوتا ہے۔ ایک شخص بات کو مختصراً بیان کر دیتا ہے اور دوسرا کچھ تفصیل سے۔ ایک فقیہ جس کی نظر مختصر حدیث پر پڑتی ہے، اسے اٹھا کر جنرلائز کر دیتا ہے۔
سنن بیہقی میں بیان کردہ اسی حدیث سے متعلق تفصیل مل گئی جس سے معلوم ہوا کہ بات بالکل مختلف تھی اور وہ یہ تھی عہد رسالت میں لوگ اپنے غلاموں کو کاروبار کے لیے رقم دیتے تھے جس سے وہ کاروبار کرتے اور غلام کی تنخواہ نکالنے کے بعد نفع مالک کا ہوتا۔ ایسے کسی غلام کو بیچا گیا اور اس کاروبار کے مال کا ذکر نہ ہوا۔ اس سے سابقہ اور موجودہ مالک میں یہ اختلاف پیدا ہوا کہ اس کاروبار کا مال کس کی ملکیت ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمہ کا فیصلہ یہ فرمایا کہ یہ مال، اس کے پرانے مالک ہی کا ہو گا۔
آپ اس تحقیق کی تفصیل اس لنک پر دیکھ سکتی ہیں، کبھی وقت ملے تو تفصیل سے اس کتاب کو پڑھیے گا۔
اسی طرح نکاح و طلاق اور بعض دیگر امور میں ایسے بہت سے مسائل سامنے آئے جس میں فقہاء کی بات پر یقین کر لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک جانب عدل و انصاف کا حکم دیا ہے جبکہ ان احکام میں صریح ناانصافی موجود ہے۔ اس پر بہت سے جدید فقہاء کو ان احکام پر از سر نو غور کرنا پڑا۔ حال ہی میں ایک بہن نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا اسلام شوہر کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی کو چار ماہ کے لیے خود سے دور کر دے؟ انہوں نے معلوم نہیں کہ کس عالم سے یہ بات سن رکھی تھی۔ اب اگر میں انہیں غور و فکر کے بغیر اسی بات کو اندھا دھند ماننے کا مشورہ دیتا تو پھر دین کی کیا کریڈیبلٹی ان کی نظر میں رہ جاتی۔
غیر مسلموں کو یقیناً ہم دعوت، دین کی بنیادی باتوں کی دیں گے لیکن وہ فوراً یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جناب آپ کے دین میں تو اس قسم کے تضادات موجود ہیں تو پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور ان کا لایا ہوا دین، واقعتاً اللہ تعالی ہی کا دین ہے اور قرآن واقعی اللہ کی کتاب ہے۔ اس کے بعد وہ مثال کے طور پر انہی امور کو پیش کرتے ہیں اور یہ مسائل زیادہ تر پریکٹیکل احکام ہی سے متعلق ہیں۔
امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو گئی ہو کہ دینی احکام میں خاص کر پریکٹیکل لائف سے متعلق معاملات میں غور و فکر کتنا ضروری ہے۔ عبادات کے معاملے میں مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ان میں زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم بعض مسائل ایسے ہیں جن میں غور کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ جیسے دوران سفر سواری پر نماز کا مسئلہ ہے، یا سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔ تمام مسالک کے معقول علماء ان پر غور کرتے ہیں اور ان کا حل پیش کرتے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.
https://mubashirnazir.org/2022/11/21/%d8%a7%d8%b5%d9%88%d9%84-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab/