مرسل حدیث کا حکم

السلام علیکم

آپ نے یہاں لکھا ہے۔

مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔

حالانکہ میرے علم کی حد تک ۔۔۔۔ امام ابو حنیفہ بغیر کسی شرط کے ، مرسل حدیث کو مطلق قبول کرتے ہیں۔ امام مالک اور امام احمد کی انفرادی آرا کیا ہیں مرسل حدیث کے معاملے میں ؟؟؟

اور حافظ ابن حجر العسقلانی کی کیا رائے ہے مرسل حدیث کے معاملے میں ؟؟ کیا انہوں نے واضح طور پر مرسل حدیث کو مردود کہا ہے ؟؟

والسلام

باذوق، ریاض، سعودی عرب

جواب: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ عبارت دراصل ڈاکٹر محمود طحان کی تیسیر مصطلح الحدیث کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے مرسل حدیث کے بارے میں فقہاء و محدثین کے مختلف نقطہ ہائے نظر بیان کیے ہیں مگر حوالہ نہیں دیا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نقطہ نظر کے بارے میں آپ نے جو فرمایا ہے، کیا اس کا کوئی حوالہ موجود ہے؟ یہ بات میرے علم میں نہیں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر کتاب الرسالہ میں موجود ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا نقطہ نظر ان کی موطا سے ثابت ہے جس میں انہوں نے بکثرت مرسل احادیث روایت کی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں لوگوں نے ان احادیث کی متصل اسناد تلاش کر لی ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا نقطہ نظر تو ابن حجر نے خود نزہتہ النظر میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کوفیوں کا بھی ذکر کیا ہے، ممکن ہے کہ اس سے حنفی مراد ہوں۔

اصل میں یہ اختلاف زمانے کے فرق سے پیدا ہوا ہے۔ امام مالک کے زمانے اور علاقے میں حدیث وضع کرنے کا فتنہ اتنا شدید نہ تھا جس کی وجہ سے یہ حضرات کبار تابعین کی مرسل احادیث قبول کر لیا کرتے تھے۔ اس دور میں اصول حدیث کا فن بھی اتنی ترقی نہ کر سکا تھا۔ جب یہ فتنہ شدید ہوا تو پھر محدثین نے اصول وضع کیے جس میں مرسل کا مسئلہ سامنے آیا۔ اہل مدینہ میں بکثرت مرسل احادیث ملیں کیونکہ وہاں اس معاملے میں زیادہ احتیاط نہ برتی جاتی تھی۔ اس پر محدثین نے ان مرسل احادیث کی دیگر اسناد کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی۔

ذاتی طور پر اس معاملے میں میں امام شافعی کے نقطہ نظر کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہ زیادہ معقول ہے۔

ابن حجر عسقلانی کی عبارت “نزہت النظر” میں یہ ہے۔

والثَّاني: وهو ما سَقَطَ مِن آخِرِهِ مَن بعدَ التَّابعيِّ هو المُرْسَلُ

وصورَتُه أَنْ يقولَ التابعيُّ سواءٌ كانَ كبيراً أو صغيراً قالَ رسولُ الله صلَّى اللهُ عليهِ [ وآلهِ ] وسلَّمَ كذا، أو  فعَلَ كذا، أو فُعِلَ بحضرتِه كذا، أو نحوُ ذلك. وإِنَّما ذُكِرَ في قسمِ المَردودِ للجَهْلِ بحالِ المحذوفِ؛ لأَنَّه يُحْتَمَلُ أَنْ يكونَ صحابيّاً، ويُحْتَمَلُ [ أَنْ يكونَ ] تابعيّاً، وعلى الثَّاني يُحْتَمَلُ [ أَنْ يكونَ ضَعيفاً، ويُحْتَمَلُ أَنْ يكونَ ثقةً، وعلى الثَّاني يُحْتَمَلُ ] أَنْ يكونَ حَمَلَ عن صحابيٍّ، ويُحْتَمَلُ أَنْ يكونَ حَمَلَ عن تابعيٍّ آخَرَ، وعلى الثَّاني فيعودُ الاحتمالُ السَّابقُ، ويتعدَّدُ (( و )) أَمَّا بالتَّجويزِ العقليِّ ، فإِلى ما لا نهايةَ لهُ، وأَمَّا بالاستقراءِ؛ فإِلى ستَّةٍ أَو سبعةٍ، وهو أَكثرُ ما وُجِدَ مِن روايةِ بعضِ التَّابعينَ عن بعضٍ

فإِنْ عُرِفَ مِن عادةِ التَّابعيِّ أَنَّه لا يُرسِلُ إِلاَّ عن ثِقةٍ؛ فذهَبَ جُمهورُ المحُدِّثينَ إِلى التوقُّفِ؛ لبقاءِ الاحتمالِ، وهُو أَحدُ قولَيْ أَحمدَ

وثانيهِما – وهُو [ قولُ ] المالِكيِّينَ والكوفيِّينَ – يُقْبَلُ مُطْلقاً. وقالَ الشَّافِعيُّ [ رضيَ اللهُ عنهُ ]: يُقْبَلُ إِنِ اعْتَضَدَ بمجيئِهِ مِن وجْهٍ آخَرَ يُبايِنُ الطُّرُقَ الأولى مُسْنَداً كانَ أَو مُرْسَلاً؛ ليترجَّحَ احتمالُ كونِ المحذوفِ ثقةً في نفسِ الأمرِ

ونقلَ أَبو بكرٍ الرَّازيُّ مِن الحنفيَّةِ وأبو الوليدِ الباجِيُّ مِن المالِكيَّةِ أَنَّ الرَّاويَ إِذا كانَ يُرْسِلُ عنِ الثِّقاتِ وغيرِهم لا يُقْبَل مُرسَلُه اتِّفاقاً.

والسلام

محمد مبشر نذیر

(نومبر 2009)

نوٹ: جو حضرات اس موضوع پر مزید مطالعہ کرنا چاہیں، وہ اس لنک پر کلک کریں

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

مرسل حدیث کا حکم
Scroll to top