سوال: اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت ہے۔ اس کے مطابق اس زندگی کے بعد بھی ایک زندگی ہے۔ کیا اس عقیدے کی کوئی عقلی و منطقی توجیہ کی جاسکتی ہے۔؟
جواب: اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہماری اس زندگی میں کئی خلا موجود ہیں۔ ہماری یہ زندگی بڑی عجیب سی ہے۔ اس زندگی میں کسی کو مکمل اطمینان حاصل نہیں۔ افریقہ کے کسی قحط زدہ ملک کے کسی غریب سے غریب شخص سے لے کر امریکہ کے متمول ترین شخص تک کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے زندگی میں کبھی کوئی تکلیف پیش نہیں آئی اور اس کی ہر خواہش پوری ہوئی ہے۔ یہاں وسائل محدود اور خواہشات لامحدود ہیں۔ یہاں سب سے بڑی تکلیف موت کی ہے جو انسان سے اس کے تمام وسائل کو چھین لیتی ہے۔ موت کے وقت غریب و امیر کا فرق مٹ جاتا ہے اور ہر انسان ایک ہی مقام پر جا کھڑا ہوتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ اس زندگی میں انصاف کا کامل صورت میں موجود نہ ہونا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نالائق افراد بعض اوقات اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں جبکہ کئی قابل اور ذہین ترین افراد محض جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا۔ بڑے بڑے مجرم بسا اوقات چھوڑ دیے جاتے ہیں اور بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ کسی طور سے بھی یہ زندگی کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔
ایک آئیڈیل زندگی کی خواہش ہر انسان کے لاشعور میں موجود ہے۔ ایک ایسی زندگی جہاں کوئی تکلیف نہ ہو حتی کہ موت کا خوف بھی زندگی کی آسائشوں سے محروم کرنے کے لئے موجود نہ ہو۔ ارسطو سے لے کر کارل مارکس تک بڑے بڑے فلسفیوں نے ایسے تخلیق کئے ہیں لیکن ان کے آئیڈیل شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ اس زندگی کے مسائل کو اگر مختصرا بیان کیا جائے تو یہ دو چیزوں پر مبنی ہے ایک ماضی کے پچھتاوے اور دوسرے مستقبل کے اندیشے۔
انسان کی آئیڈیل زندگی کی یہ خواہش یہ تقاضا کرتی ہے کہ ایسی زندگی ہونی چاہیے لیکن کیا ایسی زندگی واقعتہً موجود ہے، یہ انسان نہیں جان سکتا۔ اس کا جواب تو اس کا خالق ہی دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے بہت تفصیل سے بیان کردیا ہے کہ ایسی ابدی زندگی موجود ہے اور وہ جنت کی زندگی ہے لیکن اس میں داخلہ اسی کو ملے گا جس نے اپنی دنیا کی زندگی اللہ کا بندہ بن کر گزاری ہوگی۔ یہی آخرت کا عقیدہ ہے جو تمام الہامی مذاہب میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات کو محض اپنی کتابوں میں بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسی آخرت اور جزا سزا کے تصور کو عملی طور پر دنیا میں بطور نمونہ برپا کرکے بھی دکھا دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے چند اقوام کا انتخاب کیا اور انہیں اپنے رسولوں کے ذریعے خبردار کیا کہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق گزارو ورنہ تم پر اسی دنیا میں اس کا عذاب آئے گا۔ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی بات مان لی، ان پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیامیں سرفرازعطا کی اور انہیں اس دنیا میں سپر پاور کا درجہ عطا کیا۔ ان اقوام میں سیدنا موسیٰ، سلیمان اور عیسیٰ اور محمد علیہم الصلوۃ السلام کے پیروکار شامل ہیں۔ اس کے برعکس جن اقوام نے انکار کی روش اختیار کی، ان کو دنیا میں سزا دی گئی۔ ان کی مثال سیدنا نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم الصلوۃ السلام کی اقوام ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آخرت کے تصور کو بیان کرنے کے لئے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کو آخرت کے تصور کا زندہ نمونہ بنا دیا ہے۔ اولاد ابراہیم کی دو شاخوں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے ساتھ بحیثیت قوم دنیا میں وہ معاملہ کیا گیا جو وہ سب کے ساتھ آخرت میں بحیثیت فرد کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے بنی اسرائیل کا انتخاب کیا ۔ جب تک بنی اسرائیل اس کے احکام پر چلتے رہے وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت بن کر رہے۔ تمام اقوام ان کے زیر نگیں رہیں۔ جب انہوں نے برائی کی راہ اختیار کی ان کو دنیا میں بھرپور سزا ملی۔ ان پر ایسے حملہ آور مسلط کئے گئے جنہوں نے ان کے مردوں کا قتل عام کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا ڈالا۔ یہی معاملہ بنی اسماعیل کے ساتھ ہوا۔ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور محض پندرہ بیس سال کے عرصے میں انہیں بلوچستان سے لے کر مراکش تک کے علاقے کی سلطنت عطا کی گئی۔ لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو ان پر تاتاریوں، صلیبیوں اور پھر مغربی اقوام کو مسلط کر دیا گیا اور انہیں غلامی کی سزا دی گئی۔ کئی مرتبہ ان پر ایک دوسرے کی تلواروں کے ذریعے قتل عام کی سزا مسلط کی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کی تاریخ کو بھی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں ذرائع سے محفوظ کردیا ہے۔ جو چاہے ان اقوام کی تاریخ سے یہ سمجھ لے کہ جزا و سزا کا یہ معاملہ اس کے ساتھ بھی ہونے والا ہے اور جو چاہے اس سے منہ موڑ کر آخری فیصلے کا انتظار کرے۔
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.