مبشر بھائی جان
السلام علیکم
آپ کا میل ملا، پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ کو میرا میسج ملا اور آپ نے اس کا جواب دیا۔
سوال ۱: میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ “دنیا مسلمانوں کے لیے قید خانہ ہے اور کافروں کے لیے جنت ہے۔” تو میرا سوال یہ ہے کہ مسلمان اس دنیا میں کون سے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ اور کافروں نے کونسا اچھا کام کیا ہے ؟
سوال ۲: کہا جاتا ہے کہ جب تک مسلمان سنتوں اور قرآن کی پیروی نہیں کریں گے تب تک ان کے حالات سدھریں گے نہیں۔ تو میرا سوال ہے کہ آج کو قمیں اچھے حالات میں ہیں، وہ کسی سنت اور قرآن پر عمل نہیں کرتیں۔ پھر ان کے حالات کیسے اچھے ہیں؟
دعا کی درخواست ہے۔
والسلام
محمد مدثر، انڈیا
ڈئیر مدثر بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے سوالات دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ دینی معاملات میں غور کرتے ہیں۔ جوابات یہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ صحیح حدیث ہے جو مسلم میں روایت ہوئی ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔ آپ کے ذہن میں جو سوال پیدا ہوا ہے، وہ اس حدیث کو اس کے ظاہری معنی میں لینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ دنیا واقعتاً کوئی قید خانہ ہے جس میں کسی جرم کی سزا دینے کے لیے مسلمان کو ڈال دیا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ حدیث میں محض ایک تشبیہ بیان ہوئی ہے۔ ہر زبان میں یہ عام معمول ہے کہ مشابہت کی بنیاد پر ایک چیز کو دوسری سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔ یہ محض زبان کا اسلوب ہوتا ہے جس میں کسی بات پر زور دینے کے لیے اسے اس انداز میں بیان کر دیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے آپ میری کتاب “قرآنی عربی پروگرام لیول ۵” میں تشبیہ کا باب دیکھ سکتے ہیں۔
دنیا کو قید خانہ سے تشبیہ اس اعتبار سے دی گئی ہے کہ جیسے قید خانہ کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، اس میں قیدی کا دل نہیں لگتا بلکہ اس کا دل اسی جانب لگا رہتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا میں جائے، بالکل اسی طرح ایک صاحب ایمان کا دل اصل میں آخرت کی جانب لگا رہتا ہے اور وہ دنیا کے قیام کو بس عارضی ہی سمجھتا ہے۔ اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ دنیا میں اپنی ضروریات پوری کرے یا اس کی نعمتوں کو انجوائے کرے۔
اس کے برعکس ایسا شخص جو اللہ تعالی یا آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، اس کے لئے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے جس کے ایک ایک لمحے سے وہ اپنے لیے مزہ کشید کرنا چاہتا ہے۔ اہل ایمان اس وقت کو آخرت کی تیاری پر لگاتے ہیں جسے وہ اپنی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ ہے جس کی جانب حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے اور دنیا کو قید خانہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ اس سوال کا بہترین جواب تجزیہ تاریخ کے ماہرین ابن خلدون، ایڈورڈ گبن اور مارک ٹوئن بی نے دیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق قوموں کا عروج و زوال بنیادی طور پر دو باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک علم اور دوسرے اخلاق۔ جو قوم دوسری قوموں کی نسبت علم اور اخلاق میں بہتر مقام پر کھڑی ہوتی ہے، اسے عروج مل جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ آئیڈیل اخلاق کی مالک ہو، بس اتنا ضروری ہے کہ وہ دوسری قوموں سے بہتر اخلاق رکھتی ہو۔
قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی دعوت ہی علم اور اخلاق کی دعوت ہے۔ اللہ تعالی کا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے کیریکٹر کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ اس پر جب ہم عمل کریں گے تو ہمیں عروج حاصل ہو جائے گا۔
موجودہ دور کی غیر مسلم قومیں اسی قانون کے تحت عروج پر ہیں۔ وہ اگرچہ قرآن و سنت کو نہیں مانتے مگر علم اور اخلاق کے معاملے میں ان کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل کرتے ہیں۔ علمی اعتبار سے دیکھیے تو وہ ہم سے کہیں آگے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم ہم ان سے سیکھتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے دوسری قوموں کے لئے تو وہ بہت اچھے نہیں ہیں مگر اپنی قوم کے لیے کم از کم ہم سے زیادہ اچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا بہترین ٹیلنٹ ان کے ممالک کی نیشنلٹی لینا چاہتا ہے۔
اس سے پہلے تاریخ میں مسلمان دوسری قوموں سے علم و اخلاق میں بہتر تھے تو دنیا میں ان کا عروج تھا اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم افراد کا ٹیلنٹ سمٹ سمٹ کر غرناطہ، بغداد، دہلی اور قاہرہ کا رخ کرتا تھا۔ اگر ہم اس صورتحال کو بہتر بنا لیں تو ہمارا عروج شروع ہو جائے گا۔ یہی قرآن و سنت کی دعوت ہے جس کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔
امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.