السلام و علیکم
ایک ملحد مفکر نے اپنی ویب سائٹ پر یہ تبصرہ کیا ہے۔ آپ کی اس ضمن میں کیا رائے ہے؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ خدا کے نام پر کچھ لوگوں نے دوسروں پر اپنی اجاراداری قائم کرنے کے لیے ان مذاہب /ادیان کو خود ہی تشکیل دے دیا ہے؟ ورنہ خدا کو ان بے فائدہ اعمال سے کیا حاصل جن پر مذہب کے ٹھیکیدار دوسروں کو عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ اور انکار کی صورت میں مرتد و کافر ٹہرا کر خدا کے دشمن اور واجب القتل قرار دے جاتے ہیں ، آخر خدا کو کیا حاصل ہوگا اپنے مقابلہ میں ایک نہایت کمزور مخلوق کو دنیا میں اسکی خوشیوں سے اور بالآخر اسکی زندگی ہی سے اسے محروم کر کے اور آخرت میں مسلسل و دائمی سزا دے کر؟‘‘
عبد الروؤف
دبئی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی کی شریعت بہت ہی مختصر اور سادہ ہے جبکہ مذہبی راہنماؤں کے جاری کردہ احکام نہایت ہی تفصیلی اور مشکل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں قرآن مجید میں ’’اصر‘‘ اور ’’اغلال‘‘ سے تعبیر کیا ہے یعنی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں۔ اس وجہ سے اس کی تحقیق بہت ضروری ہے کہ کونسا حکم اللہ تعالی کا ہے اور کونسا کسی کا اجتہاد۔
جب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ شریعت کے نام پر ہمارے سامنے جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے، وہ واقعی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی کی شریعت میں ایسا کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو انسان کو تکلیف اور مشکل میں ڈالے۔ باقی مذہبی اجارہ داروں کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ نماز اللہ تعالی کی شریعت ہے اور اس کا طریقہ بھی نہایت ہی سادہ ہے۔ اب اسے اس درجے میں ریچوئلائز کر دیا گیا ہے کہ پاؤں کی انگلیوں تک کے لیے طے شدہ پروسیجرز مقرر کر دیے گئے ہیں۔ سجدے میں دس کی دس انگلیاں مڑ کر زمین پر لگنا ضروری ہیں۔ نماز میں دونوں ہاتھوں کی معمولی جنبش سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے جب ان تمام پروسیجرز پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ میرے محلے کی ہر مسجد کے امام صاحب کسی نہ کسی حکم کی خلاف ورزی کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک پر “مکروہ تحریمی واجب الاعادہ” کا فتوی موجود تھا۔ دوسری جانب جماعت کی نماز بھی واجب تھی۔ چنانچہ میں روزانہ دس نمازیں پڑھنے لگا۔ پانچ جماعت کے ساتھ اور پھر گھر واپس آ کر انہیں دوھرانا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز، اس کے برعکس بہت ہی لائیو اینڈ آرگینک ہوا کرتی تھی۔ اس میں حسب ضرورت دعاؤں اور اللہ تعالی سے مکالمات کا اضافہ بھی ہو جاتا تھا۔ ضرورت کے مطابق نفلی نمازوں کی رکعتیں کم و بیش ہو جاتی تھیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں تہجد کے ابواب دیکھ لیجیے۔
بعد میں جب فقہ پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ابتدائی مسلمانوں کے ہاں ، ہر چیز میں اتنی سافسٹک نہیں تھی۔ یہ متاخرین کے ہاں پیدا ہوئی ہے۔ ابتدائی مسلمانوں کے ہاں یہ سختی نہ تھی۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کسی کو عربی نہ آئے، وہ اپنی مادری زبان میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
ملحدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان جزوی تفصیلات کو دیکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر عذاب دے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی کا حکم کیا ہے اور علماء کی اجتہادی آراء کیا ہیں؟ ملحدین میں چونکہ اللہ تعالی سے محبت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، اس وجہ سے انہیں نماز، روزہ جیسی عبادات بھی بوجھ لگتی ہیں۔ حالانکہ اسلام میں یہ چیزیں پابندیاں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی کی محبت میں انسان خود ان پابندیوں کو اختیار کرتا ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.