السلام علیکم مبشر بھائی۔ کیسے ہیں آپ؟
چند دنوں پہلے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا زکوٰۃ پر آرٹیکل پڑھا جس میں انہوں بینک وغیرہ میں جمع شدہ کرنسی پر زکوٰۃ کے لئے نصاب کا سٹینڈرڈ سونے کو قرار دیا اس زمانے میں جبکہ ساڑھے ساتھ تولے سونے اور ساڑھے باون تولے۔ چاندی کی قیمت میں لاکھوں کا فرق ہو چکا ہے۔
میرا اس پر یہ سوال ہے۔
حدیث
The Prophet (ﷺ) said: “When you possess 200 dirhams and one year passes on them, 5 dirhams are payable. Nothing is incumbent on you, that is, on gold, till it reaches 20 dinars. When you possess 20 dinars and one year passes on them, half a dinar (0.5) is payable. Whatever exceeds, that will be reckoned properly.”
(Sunan Abi Dawud 1573)
پہلی حدیث میں صرف چاندی کا ذکر ہے۔ اور دوسری میں جہاں سونے کا ذکر ہے وہاں درہم یعنی چاندی کا ذکر بھی ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ چاندی ہی اصل ہے اور نصاب چاندی سے طے ہوگا۔ رسول اللہ کی زبان سے دین کے معاملات میں جو کچھ نکلتا تھا وہ اللہ ہی کے مطابق ہوتا تھا۔ تو اگر صرف چاندی کا ذکر اکیلا کیا گیا اس کی کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
اگر یہ وحی تھی اور الفاظ رسول اللہ کے تھے تب بھی ان الفاظ میں سونے کا لفظ نہیں ہے تو کوئی وجہ ہوگی جبکہ اس وقت ساڑھے ساتھ تولے کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہی تھی۔ ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ نے یہاں صرف چاندی کا ذکر کسی خاص وجہ کے بغیر کردیا؟ لیکن یہ بھی ہے کہ اگر چاندی ہی اصل تھی تو وہ اس بات کو کھلے طریقے سے کر دیتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں اللہ کی جانب سے سونے اور چاندی دونوں کا بتا دیا گیا ہو اور چونکہ اس وقت ساڑھے باون تولے کی قیمت ساڑھے ساتھ تولے کے برابر تھی اس لئے ان کے صرف چاندی کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
ثمامہ فہیم، کراچی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھائی
کیا حال ہے اور کیسی طبیعت ہے؟ آپ کا دینی اسٹڈیز کا سلسلہ کیسا جا رہا ہے؟ الحمد للہ۔ تاخیر میں معذرت کہ کل مصروف تھا۔ الحمدللہ میں خیریت سے ہوں۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اپنی اسٹڈیز کو ضرور شیئر کیا کریں۔ آپ کے ارشادات کا جواب نیچے حاضر خدمت ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کرنسی کی شکل یہی تھی کہ سونا اور چاندی کے سکے پر زکوۃ لی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ لوگوں کے ایسٹس پر بھی زکوۃ لی جاتی تھی مثلاً جانور وغیرہ۔ اس کے بعد بہت طویل عرصے بعد حکومت کے کاغذ کرنسی شروع ہوئی تو اس وقت علماء میں اجتہاد کیا کہ اس کاغذ کرنسی کی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسے سونے کی طرح زکوۃ لیں یا چاندی میں؟
ظاہر ہے کہ یہ اجتہاد ہے کہ حکومتی کرنسی کو سونے کے حساب سے زکوۃ لیں یا چاندی کے حساب سے۔ اس میں زبیر صاحب نے اپنا اجتہاد پیش کیا ہے اور آپ خود بھی اجتہاد کر سکتے ہیں۔ سونا ہو یا چاندی، اس میں 2.5% زکوۃ بنتی ہے۔ نصاب کا فرق تب پیدا ہوتا ہے کہ کم از کم کتنا سونا یا چاندی ہو تو زکوۃ ہو گی۔ اس سے کم ہوا تو پھر زکوۃ نہیں ہو گی۔ اس میں میرا اجتہاد یہی ہے کہ نصاب کے لیے چاندی ہی کو زکوۃ کا نصاب ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کی خدمت زیادہ کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ سونا کو نصاب بنایا جائے تو پھر بہت امیر لوگ بھی زکوۃ سے استثنا بن جاتے ہیں۔ اس لیے چاندی کا نصاب ہی زیادہ درست ہے۔ اس میں آپ میرے لیکچرز اور کتاب میں اجتہادات کی تفصیل مل جائے گی۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
اکنامکس اور فائنانس(Economics & Finance)
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ پیپر کرنسی، پرائز بانڈز، کاپی رائٹس، انٹیل کچوئل رائٹس، رباء النسیئہ اور رباء الفضل
FQ45-Paper Money, Prize Bonds, Intellectual Property Rights & Interest
FQ46-Economics & Financial Transactions – Agricultural Transactions & Heela Trick to Avoid
سونے کو نصاب بنانے کی مجھے یہ وجوہات سمجھ میں آئی ہیں۔ نصاب کا معنی ہے کہ وہ معمولی سا کیش جس میں زکوۃ لازم نہیں ہوتی ہے۔ اسے آپ ایگزمپشن کہہ سکتے ہیں۔
نصاب کی ضرورت تب ہی پیدا ہوتی ہے کہ کسی شخص کے پاس ایسٹس بہت کم ہوں کہ اس پر زکوۃ یا ٹیکس نہ دیا جائے بلکہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کیش کی شکل یہی تھی کہ لوگوں کے پاس سونا یا چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ اب جن لوگوں کے پاس بہت کم کیش ہی ہوتا تو ان سے زکوۃ کا ایگزمپشن کر دیا جاتا اور اس سے زکوۃ نہ لی جاتی۔ اسی طرح خواتین جو زیور پہنتی تھیں تو ان پر بھی زکوۃ نہیں دی گئی۔ اسی طرح مردوں کے لیے سواری کے جانوروں پر زکوۃ نہیں لی جاتی تھی۔ سب کے رہنے والے گھر کی قیمت پر زکوۃ نہیں لی جاتی تھی۔
آپ نے تولہ اور اس نوعیت کا جو فرمایا ہے، اس میں بعد کی صدیوں میں فقہاء نے حساب کیا ہے۔ انہوں نے جب اپنے ملک میں ٹیکس یا زکوۃ کا قانون بنانا پڑا تو انہوں نے ایگزمپشن کے طور پر تولہ کا حساب لگایا۔ انہوں نے احادیث میں دینار اور درہم کے سکے کا حساب لگایا کہ اتنے تولا کے برابر ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عہد رسالت میں دینار سونے کے سکے ہوتے تھے اور چاندی کے سکے کو درہم کہا جاتا تھا۔ یہ فقہاء کی قانون سازی ہے جس میں نصاب انہوں نے بنایا ہے۔ اس کے لیے آپ یہ حدیث دیکھ سکتے ہیں۔
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بیس دینار سونا میں آدھا دینار اور چالیس دیناروں میں سے ایک دینار بطور زکوٰۃ وصول کرتے۔(رواه ابو داؤد، نیل الاوطار، باب زکاة الذھب والفضة جض ۲ص:۱۵۶)
کیا وجہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس حدیث میں اکیلا چاندی کا ذکر کیا وہاں سونے کا نہیں کیا؟ اس زمانے میں ساڑھے ساتھ تولے سونے کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر تھی اس لئے ان میں سے کسی ایک کا نصاب بتا دینا مسئلے کی بات نہیں ہے۔ اور پھر چاندی ہی اصل سٹینڈرڈ ہے تو یہ بات رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کھل کر کردیتے۔ یہ بات کہ چاندی اصل سٹینڈرڈ ہے رسول اللہ کے کسی ارشاد سے ثابت ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے دونوں کا نصاب وحی کیا ہو اور رسول اللہ نے صرف ایک کا ذکر اسلئے کیا کہ پھر وہی بات اس وقت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ساڑھے ساتھ تولے سونے کی قیمت کے برابر تھی۔
فقہاء نے اپنے ملک اور ٹائم میں جو قانون سازی کی تھی، ان سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ حدیث میں تو سونا یا چاندی کا جو ذکر کیا ہے، اس کا تعلق بالعموم سکوں سے متعلق ہے۔ آج آپ کے پاس جتنا سونا ہو یا چاندی ہو تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ اگر وہ خواتین کے زیورات ہیں جو وہ روزانہ استعمال کرتی ہیں تو اس میں زکوۃ کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر زیورات سنبھال کر محض رکھا ہوا ہے تو اس پر مکمل ہی زکوۃ دینی ہے۔ کئی حضرات نے زیورات کی بجائے سونا کو بسکٹ کی شکل میں رکھ لیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جب بیٹی کی شادی کریں گے تو اس وقت زیورات بنائیں گے تو یہ ان کا ایسٹ ہے اور اس پر زکوۃ دینی ہو گی۔ اب یہ بسکٹ سونا میں ہے تو اس کی قیمت کے حساب سے ہی زکوۃ ہو گی۔ اگر چاندی کا بسکٹ ہے تو اس پر زکوۃ ہو گی اور اس میں نصاب وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کر دیا تھا۔
آپ کے سوال کا تعلق اس سے پیدا ہوتا ہے کہ جتنا کیش روپے کی شکل میں رکھا ہوا ہے تو اس پر کتنی زکوۃ دیں۔ اس کے لیے فقہاء نے ایگزمپشن کے طور پر چاندی کا نصاب ہی بنایا ہے کہ جن پر زکوۃ لازم نہیں ہے۔ اب فقہاء نے کیش کا نصاب چاندی پر اس لیے کیا ہے کہ لوگ سونے کی بنیاد پر زکوۃ سے جان نہ چھڑانا چاہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ نصاب یہ ہے کہ اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔ اب آپ سوچ لیجیے اگر کیش کو سونے کے برابر سمجھا جائے تو بہت بڑی رقم تک زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔ اس لیے جن کی نیت خراب ہو اور وہ زکوۃ نہ دینا چاہتے ہوں تو وہ جان چھڑا سکتے ہیں۔
اس میں آپ کسی انسان کی نیت خود سمجھ سکتے ہیں۔ آپ نے رمضان میں زکوۃ دینی ہے تو اس وقت آپ کے پاس جتنا ہی کیش ہے، اس میں ایک انسان زکوۃ سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا زکوۃ دینا چاہتا ہے؟
آپ کی نیت کا مجھے علم ہے کہ آپ اللہ تعالی کے حضور زکوۃ دینا ہی چاہتے ہیں اور آپ کی نیت بالکل درست ہے۔ اس لیے آپ کے پاس فرض کیجیے کہ آپ کے پاس صرف10,000 روپے ہی ہوں تو اس میں تب بھی زکوۃ 250 روپے دینا ہی چاہیے اور نصاب پر غور ہی نہیں کرنا چاہیے ۔ نصاب کا حساب تو تب ضرورت پڑتی ہے جب آپ کے پاس 1,000,000روپے ہوں۔ تب جا کر آپ کو سوچنے کی ضرورت پڑے گی کہ کس حد تک زکوۃ کا نصاب سونا پر حساب کریں یا چاندی پر۔ اس کے لیے چاندی کا نصاب ہی محسوس ہوتا ہے۔
سوال: اب سونا اور چاندی کا نصاب کیسے طے کیا جائے؟
محمد عرفان سرگودھا
جواب: اب نصاب کی گفتگو ہے کہ نصاب کی وجہ کیا ہے؟ ٹیکس غریب لوگوں سے نہیں لیا جاتا ہے اور اسے ایگزمپشن کہا جاتا ہے کیونکہ غریب آدمی کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے، اس لیے حکومتیں ٹیکس نہیں لیتی ہیں، بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے غریب بندوں پر بھی زکوۃ نہیں دی۔
اب عہد رسالت میں یہ ہوتا تھا کہ غریب بندوں کی آمدنی چاندی کے سکوں میں ہوتی تھی جسے درہم کہتے تھے، اس لیے ان کا نصاب 595 گرام تک ہوتا یعنی جن کے پاس اتنا سا کیش ہوتا تو زکوۃ نہیں لی جاتی تھی جس کا معنی یہ ہوا کہ ان کی بچت 595 گرام سے کم ہوتی تو اس سے کنفرم ہوتا تھا کہ وہ غریب آدمی ہے۔
امیر لوگوں کی آمدنی سونے کے سکوں میں ہوتی تھی جسے دینار کہتے تھے لیکن ان کی بچت کو بھی 85 گرام یا اس سے کم ہوتی تو اس سے یہ معلوم ہوتا کہ وہ امیر آدمی نہیں ہے بلکہ متوسط انسان کی آمدنی ہے۔
قدیم زمانے میں سونا اور چاندی کے سکوں کی قیمت میں فرق تو تھا لیکن بہت زیادہ فرق نہیں تھا۔ ہاں کسی ملک میں سونا بہت ہی کم ہوتا تو وہ زیادہ مہنگی قیمت ہوتی ورنہ کم ہی ہوتی تھی۔ اب موجودہ زمانے میں پیپر کرنسی بن گئی ہے اور ہر ملک کی اکنامکس کے لحاظ سے ان کی کرنسی کی ویلیو ہوتی ہے۔ پوری دنیا پر امریکی ڈالر کو گلوبل کرنسی بنا لیا ہے جبکہ پاکستان یا دیگر ممالک کی کرنسی کی ویلیو بہت کم ہے۔
اب آپ کے سوال میں خود اجتہاد کر لیجیے کہ 595 گرام چاندی کی ویلیو کیا ہے اور 85 گرام سونا کی ویلیو کیا ہے۔ میں ابھی اس کی ویلیو پاکستان روپے میں یکم رمضان 2023 میں دیکھ رہا ہوں تو یہ ہے۔
Silver 1 Gram = PKR 999 so 595 Gram = PKR 594,405
Gold 1 Gram = Rs 18,647 so 85 Gram = PKR 1,584,995
https://www.livepriceofgold.com/silver-price/pakistan.html
https://en.dailypakistan.com.pk/19-Apr-2023/today-s-gold-rates-in-pakistan-19-april-2023
اس لحاظ سے آپ دیکھ لیجیے کہ چاندی کے ویلیو کے لحاظ سے جس کی پورے سال کی بچت چھ لاکھ روپے سے کم ہے تو پھر وہ غریب آدمی ہو گا ۔ اگر آپ سونے کی ویلیو کے لحاظ سے سوچیں گے تو پھر 16 لاکھ روپے سے کم بچت والا آدمی غریب ہو گا۔ آمدنی تو زیادہ ہوتی ہے لیکن نارمل لائف میں ہر انسان کو پوری فیملی کو زندہ رکھنے کے لیے اخراجات کرنے پڑتے ہیں تو تب جا کر بچت پیدا ہوتی ہے۔ اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ کس شخص کو غریب آدمی کہیں گے جسے اتنے لاکھ روپے والی بچت کو غریب کہیں گے؟
اب یہ اجتہاد کرتے ہوئے ہر انسان میں فرق آئے گا۔ میرے اجتہاد میں تو 6 لاکھ والی بچت کرنے والا آدمی غریب ہو سکتا ہے کیونکہ کسی وقت فیملی کو ہاسپٹل لیجانا پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی یہی مان گئی ہے اور انہوں نے چھ لاکھ سے زیادہ آمدنی ہو تو تب وہ ٹیکس لیتے ہیں ورنہ نہیں لیتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر کوئی شخص اجتہاد کر کے 16 لاکھ سے کم بچت کرنے والے کو غریب سمجھے گا تو وہ اس پر زکوۃ نہیں دے گا۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ جو شخص پاکستان میں 16 لاکھ روپے تک بچت کر سکتا ہے تو کیا وہ غریب آدمی ہو گا؟ نارمل حالات میں انسان کی فیملی کو اگر ہاسپٹل لیجانا بھی پڑے گا تو تب بھی اس میں سے بچت ہو سکتی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کی نیت درست نہیں ہے۔اس طرح اگر 16 لاکھ روپے میں کئی سال تک بچت کرتا رہے تو پھر کروڑوں میں اس کی بچت جائے گی۔
ہاں فرض کیجیے کہ اس انسان نے آج تک 16 لاکھ روپے بچت کر لی ہے اور اسے عین لگ رہا ہے کہ اس کے بچے کو ہاسپٹل لیجانا ہے اور وہاں 50 لاکھ کا آپریشن ہو گا تو پھر اسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نیت درست ہے۔ لیکن ایسا نہ ہو تو پھر اس کی نیت درست نہیں ہو گی۔ اگر نیت درست ہے تو پھر امید ہے کہ اللہ تعالی معاف کر دے گا انشاء اللہ۔ لیکن نیت خراب ہے تو پھر اسے معاف نہیں کرے گا۔ اب نیت ہر انسان ہی اپنی نیت سمجھ سکتا ہے۔
ویب سائٹ میں قیمت تو مختلف ٹائم اور مختلف شہروں میں فرق ہوتا ہے کہ روزانہ ہی ہر صبح ، دوپہر اور شام میں فرق ہوتا رہتا ہے۔ آپ سرگودھا میں رہتے ہیں تو وہاں جیولری والی دکان س پرائس پوچھ لیجیے تو وہی قیمت کو کیلوکیلٹ کر لیجیے گا۔ زیادہ احتیاط کرنی ہے تو جیولری کی سرافہ مین مارکیٹ میں جا کر وہاں تین چار دکانوں سے پوچھ لیجیے گا۔ اس سے آپ کو صحیح مارکیٹ کی قیمت سامنے آ جائے گی۔ ہاں یہ ضرور اہم ہے کہ چاندی اور سونا دونوں کی کوالٹی کے لحاظ سے فرق آتا ہے۔ جیسا کہ اس ویب سائٹ میں تین قسمیں بیان ہوئی ہیں، آپ تینوں ہی کی قیمت پوچھ لیجیے گا۔
Fine Silver (999), Sterling Silver (925), Jewelry (800) Silver, and more
The price of a single tola of 24-karat gold in Pakistan is Rs 217,500 on Wednesday. The price of 10 grams of 24k gold was recorded at Rs186,470.
جیولری میں سونا یا چاندی کی قیمت کم ہوتی ہےلیکن پھر وہ اپنی محنت کی قیمت بنا کر دیتے ہیں جبکہ وہ سونا اور چاندی کے اندر کھوٹ بھی ڈال چکے ہوتے ہیں تاکہ انہیں فائدہ حاصل ہوں۔ جب آپ اس جیولری کو بیچتے ہیں تو وہ خود اپنی لیبارٹری میں چیک کرتے ہیں اور اس میں کھوٹ کی قیمت کو زیرو کر دیتے ہیں ، سنار نے اپنی محنت کی رقم لی تھی، وہ بھی زیرو کر دیتے ہیں اور اصل سونا یا چاندی کی قیمت بتا دیتے ہیں۔ اس لیے جب بھی آپ جیولری کو بیچتے ہیں تو اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔
سونے میں سب سے بہترین قیمت 24 کیرٹ کی ہوتی ہے اور اس میں آپ خاص طور پر سوئزرلینڈ والے سونے کا پوچھیں تو تب بالکل صحیح قیمت ہوتی ہے کیونکہ پوری دنیا میں سب سے اچھی کوالٹی کا سونا سوئزرلینڈ سے ملتا ہے۔ اگر آپ سوئزر لینڈ سونے کا بسکٹ خرید لیں، اس میں کوئی جیولری نہ بنائیں تو کئی سالوں بعد جب بھی بیچیں گے تو اس میں کبھی نقصان نہیں ملے گا۔
اب آپ تو زکوۃ کے نصاب کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں بادشاہ ہی جب سکہ بناتے تھے تو وہ اصل میں جیولری جیسے سکے ہی بنتے تھے تو ہر بادشاہ کے جو بھی سنار ہوتے تھے، ان کی اپنی نیت کے حساب سے کوالٹی میں چوری بھی کر دیتے ہوں گے۔ اب ہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرب علاقے میں سکے میں سونا یا چاندی کی کوالٹی کیا ہوتی ہو گی؟ لیکن جتنی بھی اس زمانے میں ہوتی تھی تو اسی میں نصاب میں غربت کی بنیاد پر نصاب قائم فرمایا تاکہ غریب لوگوں سے زکوۃ نہ لی جائے۔
سب سے زیادہ احتیاط یہی ہے کہ ان گرامز کے حساب سے آپ اچھی ترین کوالٹی والے سونا یا چاندی کے نصاب کو قائم کیجیے جس میں اپنی نیت درست ہو۔ آپ مارکیٹ میں جا کر سرگودھا کی مارکیٹ میں سوئزرلینڈ سونے کی قیمت پوچھیے گا اور ایسی ہی اچھی کوالٹی کا چاندی پر پوچھ لیجیے گا۔
اس اکسرسائز میں یہ بھی فائدہ ہے کہ آپ کو جو پرائس معلوم ہو گی، اس میں اس ویب سائٹ کی کوالٹی بھی دیکھ لیجیے گا کہ ان کی ویب سائٹ میں رزلٹ کس حد تک درست ہے؟ دیکھیے میں یہ نکالا ہے جو 10 Gram کی قیمت سرگودھا میں یہ لکھی ہے۔ مجھے بھی بتا دیجیے گا تاکہ یہ معلوم ہو کہ اس ویب سائٹ میں حقیقتاً صحیح قیمت لکھی ہے یا نہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Send your questions in email to mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com