سوال: مشکوٰۃ المصابیح میں تین فصلیں ہیں جن میں سے پہلی دو ہی قابلِ اعتماد ہیں۔ تیسری فصل میں تحقیق و تنقید کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ سنداً صحیح احادیث (تاریخی)کو بھی درایتاً دیکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کیامیں درست سمجھا ہوں؟
طلحہ خضر، لاہور
جواب: آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ مشکوۃ ایک چھوٹی سی اسکول کی کتاب ہے جو مدرسہ میں اسٹوڈنٹس کو احادیث کو پڑھنے کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس میں انہوں نے تحقیق و تنقید نہیں کی تھی یا کی بھی ہو تو انہوں نے تحقیق کی تفصیل بیان نہیں کی۔ اب مدارس کے اسٹوڈنٹس کو صرف مشکوۃ ہی پڑھائی جاتی ہے اور بچے اسی کو پڑھ کر تحقیق و تنقید کیے بغیر تقریر کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ بخاری اور مسلم کی کتابیں مدارس میں نہیں پڑھاتے اور کوئی پڑھا بھی دیں تو وہ بس چند احادیث شیخ الحدیث صاحب بیان کر دیتے ہیں۔ جانچ پڑتال کو پڑھایا ہی نہیں جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہن بند رہتے ہیں اور تقریروں میں بس جذباتی کہانیاں ہی بولتے ہیں۔
محمد مبشر نذیر
سوال: مطالعہ ٔ حدیث کے دوران صحیح مسلم کی روایت ِ کساء نظر سے گزری ہے ۔ جس میں حضرات علی ، فاطمہ، حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اہلِ بیت شمار کیا گیا ہے۔
جواب: یہ بات درست ہے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کی پرورش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں ہوئی تھی۔ پھر جوانی کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے سسر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دے کر سیدنا علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی کروا دی تھی۔ میں نے مسجد نبوی کے قریب ہی دیکھا کہ حجرات میں علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا گھر یا کمرہ موجود ہے، جو صفہ کے قریب ہی ہے۔
باقی کمرے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے تھے۔ یہ پورا علاقہ کو ایک کنال سے بھی کم ہے۔ چونکہ ان تمام کی فیملی کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھی، اس لیے ان تمام پر زکوۃ وصول کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس زمانے میں کیش کی شکل کھجور ہی ہوتی تھی کہ لوگ زکوۃ میں کھجوریں ہی دیتے تھےلہذا ان اہل بیت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
سوال: سیدہ اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کو کس وجہ سےچادر مبارک میں شامل نہیں کیا گیا تھا؟ کیا ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں؟ کیا یہ کسی فرقے کی محض عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دشمنی کی وجہ سے ایسا بیان ہوا ہے؟
جواب: چادر مبارک کی حیثیت بس یہی تھی کہ اپنی فیملی کی تربیت کے لیے محبت کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دینی اخلاقیات سکھائی تھی۔ یہ ممکن ہے کہ کئی مرتبہ ایسا کیا گیا ہو۔ لیکن معاملہ آپ کے گھر کے اندر ہی تھا، اس لیے اس کی روایات زیادہ نہیں ہیں۔ اس میں تعصب بھی ہو سکتا ہے کہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ اپنی فیملی کی تربیت کے لیے سب ہی کو شامل کیا گیا ہو گا۔
سوال: بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات خود چل کر آئے جبکہ بعض کے مطابق ان کو بلایا گیا۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے سیدہ اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کو کیوں یاد نہیں فرمایا؟ کیاصرف اس نقطہ سے اس روایت کی قلعی نہیں کھل جاتی کہ یہ جعلی روایت ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اہل بیتِ نبی صرف اورصرف امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ الاحزاب آیت 28-34 میں بیان ہوا ہے۔اس روایت کے بعض طرق ملاحظہ فرمائے جائیں، جن میں صاف طور پرامہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی بجائےعلی ، فاطمہ، حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اہلِ بیت کہا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ دیگر حضرات اسی روایت کو آیت ِ تطہیر کی تفسیر کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ سیاق و سباق اور نظمِ قرآن کے بالکل خلاف ہے۔ اس بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
جواب: یہ وہی تعصب ہے جوسامنے آ رہا ہے۔ آپ خود اپنا تجربہ کر لیجیے کہ کیا آپ اپنی فیملی کی تربیت کے لیے کیا کچھ ممبرز کو چھوڑ کر صرف چند خاص کی ہی تربیت کریں گے یا پوری فیملی کے تمام ممبرز کی تربیت کریں گے؟۔ ویسے بھی امہات المومنین رضی اللہ عنہن ہی تو سورۃ الاحزاب کا موضوع ہیں۔
اس تعصب کی وجہ بھی ہمیں تاریخ میں سے معلوم ہوجاتی ہے کہ صرف حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو امام بنایا گیا۔ اب حسین رضی اللہ عنہ کے بچے جب بڑے ہوئے تو عالم بنے اور ساری عمر صرف تعلیم و تربیت ہی کرتے رہے ، انہوں نے سیاست میں کچھ نہیں کیا۔ اس لیے دیگر حضرات سیاست میں کچھ نہیں کر سکے تھے کیونکہ ان کے اساتذہ جو حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کے علماء تھے، انہوں نے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھی۔ آخر کار یہی ہوا کہ بڑے عالم حسن عسکری رحمتہ اللہ علیہ کے ڈھائی سالہ بچے محمد رحمتہ اللہ علیہ 260 ہجری فوت ہو گئے۔
اس کے کافی عرصے بعد دیگر حضرات نے یہ آئیڈیا ایجاد کر لیا اور غائب امام کا تصور پیش کر دیا اور انہیں امام مہدی قرار دے کر کہہ دیا کہ وہ قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے یہی فرقہ زیادہ پھیل گیا۔ اسی وجہ سے وہ جمعہ کی نماز ادا نہیں کرتے ہیں اور زکوۃ نہیں دیتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ صرف امام ہی کو زکوۃ دے سکتے ہیں اور جمعہ بھی وہی ادا کریں گے۔ اب غائب امام خفیہ ہیں، اس لیے جب ظاہر ہو جائیں گے تو تب جمعہ ہو گا اور زکوۃ ادا کریں گے۔
ابھی 1979 میں یہ آئیڈیا خمینی صاحب نے پیش کیا کہ جب تک غائب امام ظاہر نہیں ہوتے ہیں، اس وقت تک فقیہ ہی حکومت چلا سکتے ہیں۔ چنانچہ ایران میں یہی نقطہ نظر پھیل گیا ہے۔ جو دیگر حضرات ان سے اختلاف کرتے ہیں، ان میں زیدی حضرات ہیں جو یمن میں رہتے ہیں۔
دیگر حضرات میں جب یہ اختلاف ہواتو دوسرے بڑے فرقے نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی نسل کو امام قرار دے دیا۔ چوتھی صدی ہجری میں سب سے بڑا عروج انہی کو حاصل ہوا اور ان کو افریقہ اور سندھ میں حکومت مل گئی تھی۔ ان سب کی تاریخ تو آپ پڑھ چکے ہوں گے جسے میں نے انہی تینوں فرقوں کے علماء کی تاریخ کو اکٹھا کر دیا ہے۔
سوال: اس کے علاوہ اس روایت میں مزید سقم ہے کہ اس چادر مبارک میں سیدہ اُم کلثوم بنت محمد ﷺ اور سیدہ زینب بنت محمد ﷺ کی اولاد سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور سیدنا علی بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ ایساکیوں؟
جواب: اس لیے کہ ان کے ناموں سے اس فرقے کو سیاسی فائدہ حاصل ہوا۔ چنانچہ ان کو انہوں نے اپنی روایات میں ظاہر نہیں کیا۔ آج کل ہمارے ہاں بھی مذہبی سیاست چل رہی ہے، اس میں ایک لیڈر کا نام تو زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور انہی کے متعلق کرامتوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جبکہ اسی پارٹی کے دیگر لیڈرز کے نام غائب ہو جاتے ہیں خواہ وہ بڑے عالم ہی کیوں نہ ہوں۔ اس میں آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سیاست کے لیے دین کو ایسے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صرف کچھ حضرات ہی نہیں بلکہ کئی فرقوں میں بھی آپ ایسی کرامتیں سن سکتے ہیں جو ان کی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں ہوتی ہیں۔ تفصیل آپ نے پڑھنا ہو تو میری ان کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: مؤرخ ،احمد بن یعقوب نے 17 ہجری میں خلافت ِفاروقی کے احوال میں لکھا ہے۔
وَفِي ہٰذِہِ السَّنَۃِ خَطَبَ عُمَرُ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، وَأُمُّہَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّہَا صَغِیرَۃٌ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ یَقُولُ : ’کُلُّ نَسَبٍ وَّسَبَبٍ یَّنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي وَصِہْرِي، فَأَرَدْتُّ أَنْ یَّکُونَ لِي سَبَبٌ وَّصِہْرٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ، فَتَزَوَّجَہَا وَأَمْہَرَہَا عَشْرَۃَ آلاَفِ دِینَارٍ۔
اسی سال سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کے لئے پیغامِ نکاح بھیجا۔یاد رہے کہ یہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لخت ِجگر تھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(میں یہ رشتہ صرف اس لیے طلب کر رہا ہوں کہ)میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:روز ِقیامت تمام نسب اور سبب منقطع ہو جائیں گے، سوائے میرے تعلق،نسب اور سسرالی رشتہ کے۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور سسرالی رشتہ ہو۔اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ دس ہزار دینار حق مہر کے عوض اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی۔ ‘‘(تاریخ الیعقوبي : 149/2، 150)
جواب: اب اس روایت میں یہ کنفرم ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہما کے اہل بیت بن گئے۔ اگر یہ روایت قابل اعتماد ہے تو پھر یہ روایت لٹیا ہی ڈبو دیتی ہے جنہوں نے اہل بیت اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں امامت کا تصور پیدا کیا تھا۔
سوال: سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ مختلف روایات کے مطابق سیدہ کی پیدائش 6 تا 10 ہجری کے دوران واقع ہوئی ہے۔ اگر پیدائش 10 ہجری میں ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےان کا نکاح کم از کم سات سال کی عمر میں واقع ہوتا ہے۔ اگر یہی واقعہ تھا تو پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں۔ جبکہ مشہور روایات(موضوع) کے مطابق نبیﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے محض چھ سال کی عمر میں نکاح کیا تھا۔ لہذا اس بات کا علم سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یقیناً ہو گا۔ اگر وہ لاعلم تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو اس واقعہ کا حوالہ ضرور دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جواب: یہ سب کہانیاں پھر اس لیے ایجاد کرنی پڑیں جو آپ نے بیان کیا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں جب مناظرات کا سلسلہ جاری تھا، تو پھر ایک شخص کوئی ایک کہانی ایجاد کرتا، تو اس کی تنقید کے لیے دوسرا آدمی جواب میں نئی کہانی ایجاد کر دیتا۔میں ذاتی طور پر ان تمام روایتوں کو جعلی کہانیاں ہی کہہ سکتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بچی تھیں تو عمر رضی اللہ عنہ کو شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب ان کی حکومت بنی تھی تووہ بڑھاپے میں تھے تو پھر بچی سے شادی کرنا کیا معقول عمل ہو سکتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی بھی بچپن میں نہیں ہوئی بلکہ جوانی میں ہی ہوئی تھی۔ اس لیے یہ سب پروپیگنڈاکے لئے اور مناظرہ جیتنے کے لیے کہانیاں ایجاد کی گئیں۔ ہمارے ہاں پروپیگنڈا، مناظرہ اور تعصب سے بچوں کو دور رکھناچاہیے تاکہ وہ ان کے سائیڈ ایفیکٹس سےبچ سکیں۔
پھر تاریخ لکھنے والوں نے بھی علوم الحدیث کے طریقے پر ریسرچ کر کے کتابیں نہیں لکھیں بلکہ قابل اعتماد اور جعلی روایات دونوں کو اکٹھا کر دیا۔ اس وقت اگر وہ خیال کرتے تو شاید پھر تاریخ کچھ معقول ہو جاتی۔ تاریخ میں کم ہی لوگوں نے یہ کام کیا کہ وہ جانچ پڑتال کر کے تاریخ پر کتابیں لکھیں۔ دور جدید میں یہ کاوش میں نے بھی کر دی ہے۔ آپ میری کتابوں پر بھی لاجیکل طریقے سے جانچ پڑتال کر کے تنقید کریں۔
سوال: اس کے علاوہ سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما کو بھی چادر مبارک میں داخلے سے محروم رکھا گیا جن کی پیدائش 5 ہجری میں ہوئی تھی۔اس لیے یہی بات معقول لگتی ہے کہ سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما چھ ہجری میں پیدا ہوئیں تھیں۔
سیدناعلی بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق امام ابن عساکر فرماتے ہیں۔
ذهب بعض أهل العلم بالنسب أنه قتل يوم اليرموك ( تاریخ دمشق: 43/8)
اہل نسب میں سے بعض نے کہا کہ آپ (علی بن ابی العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ )کو جنگِ یرموک کے دن شہید کیا گیا۔
اس کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان سے اولاد بھی ہوئی جن کے نام زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے زید بن عمر کے متعلق بہت ہی پتے کی بات بتائی ہے کہ
ذكر ذلك الزبير وغيره فهذا يدل على أن زيدا ولد في عهد النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلم فيكون من هذا القسم۔ (الإصابة في تمييز الصحابة:2/519)
زبیر وغیرہ نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زید نبی ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ اسی طبقے سے ہوں گے۔
لہذا زید بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ تابعی نہیں بلکہ صحابی ہیں۔
سیدنا ابو النورعبد اللہ بن عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہما
نام: عبد اللہ بن عثمان بن عفان
کنیت: ابو النور
لقب: شرف الدین
اولاد: امام زین العابدین
ان کی اولاد آج بھی ضلع مظفر آباداور بالائی ضلع ہزارہ میں لاکھوں کی تعداد میں رہائش پزیر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں سیدنا عبد اللہ بن عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہما کی وفات محض ایک افسانہ ہے جو چند فرقوں کی ریشہ دوانی ہے جس کے دام تزویر میں بلکہ دیگر فرقوں کے علماء بھی آ گئے ہیں۔ یہ سب کاروائی صرف اولاد علی کو آگے لانے کے لیے کی گئی ہے تاکہ پنج تن پاک فارمولا بھی دہراتے رہیں۔اس تحقیق کی روشنی میں مندرجہ ذیل افراد کو اہلِ بیت النبیﷺ ہونے کے شرف سے محروم رکھا گیا۔
- سیدہ امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما
- سیدنا علی بن ابی العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما
- سیدنا زید بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہما
- سیدنا ابو النور عبد اللہ بن عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہما
- سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما
- سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما
آپ کا اس متعلق کیا کہنا ہے؟
جواب: آپ کی تنقید بہت شاندر ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے اولاد کی حیثیت ہو تو پھر حضرت ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کی اولاد کا سٹیٹس بھی وہی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کی نسل کی ہے۔
اس میں صرف کچھ حضرات ہی کی غلطی نہیں ہے بلکہ مختلف فرقوں کے حضرات کے کئی فرقوں میں ایسی غلطیاں نظر آئیں گی۔ اس لیے رزلٹ یہ ہے کہ کسی ایک روایت کو بھی فوراً قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر روایت میں کوئی دینی اعتبار سے کوئی اہم بات ہے، تو پھر محدثین کے طریقہ کار پر ریسرچ کر کے ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔
اس لیے میں نے عام آدمی کے لیے یہ کتابیں اور لیکچرز بھی کر دیے ہیں تاکہ وہ خود جانچ پڑتال کرنے کی عادت پیدا کریں تاکہ وہ آسانی سے چیک کرکے ہی کسی انسان کی بات پر ایمان لائیں یا نہ لائیں۔
اگر دین سے متعلق کوئی بات نہیں ہے بلکہ کوئی کسی واقعہ پر بات ہے اور راویوں کا نام نہیں ہے تو اس واقعہ کو لاجیکل طریقے سے سوچ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ معقول ہے یا نہیں۔ اس کی مثال ہے کہ کسی شخص نے ایک خاص وادی میں شدید جنگ کی بات کہ جس میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے۔ اب آپ اس وادی کو گوگل میپ میں چیک کر لیں کہ اس وادی میں دس لاکھ لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ اگر ہو سکتے ہیں تو پھر یہ جنگ ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ پھر سچ مچ یہ جنگ ممکن ہو تو پھر چیک کر لیں کہ اس واقعے پر ہزاروں لوگوں کو بیان کرنا چاہیے لیکن کوئی ایک شخص ہی بات کرے تو لاجیکل نہیں ہے۔
میں نے انہی تاریخی اصول پر تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں۔ اس میں آپ کو چاہیے کہ آپ میری کتابوں پر کریٹیکل تجزیہ کیجیے اور دیکھیے کہ میں نے اس پر عمل نہیں کیا تو تنقید کر دیجیے تاکہ اسے ٹھیک کرو ادوں۔
Your question answers in mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com