سوال: بھائی مجھےاولاد کی تربیت کے حوالے کچھ رہنمائی درکار ہے۔مثلاً دو بیٹیوں کے باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کس طرح کرنی چاہئے کہ ان میں دین سے محبت پیدا ہو اور وہ بڑی ہو کر وہ دین کے راستے پر چلیں، اسلام کے مطابق اپنے آپ کو بنائیں اور باپردہ با حیا بنیں، اور کبھی گمراہ نہ ہوسکیں؟ آج کل ہر طرف فتنے، انتشار اور بدامنی ہے اور میڈیا کے ذریعے پیش کئے جانے والے ڈراموں، پروگراموں اورموبائل فونز سے ذہنوں و دلوں کو آلودہ کیا جا رہا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے آگے پتہ نہیں کیا کیا فتنے رونما ہو جائیں، ایسی صورت میں جب کہ ماں کا رجحان بھی دین کی طرف نہ ہو اور دنیا داری سے ہی لگاؤہو، پھر والد کو اپنا کردار کیسے ادا کرنا چاہیے ؟ اپنے اردگرد کے معاشرے کو دیکھ کر مستقبل کی بہت مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے، اب تو یہاں پر اسلام کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ،نئی جنریشن تو بالکل ہی الگ تہذیب کی لگتی ہے۔ ایسے حالات میں اپنی اولادوں کی تربیت کیسے کریں کہ وہ احساس کمتری میں بھی مبتلا نہ ہوں اور دین سے بھی محبت کرنے والی اور نمازیں، عبادتیں کرنے والی ہو؟بہت شکریہ
عرفان رشید، سیالکوٹ
جواب: موجودہ زمانے میں انفارمیشن ایج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے زمانے میں والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو قابو کر لیتے تھے اور بچوں کو دینی تعلیم زبردستی بھی دے لیتے تھے۔ اس کا رزلٹ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا کہ بچوں میں اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی تھی اور ان میں زبردستی دینی رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لہذا بچے جوان ہو کر والدین اور اساتذہ کے سامنے منافق بن جاتے تھے۔ وہ جو کچھ کرنے کی خواہش رکھتے، وہ خاموشی سے باہر نکل کر عیاشی کر لیتے تھے اور والدین و اساتذہ کے سامنے نماز بھی پڑ لیتے تھے۔ ہاں جن بچوں میں دین کا شوق پیدا ہوجاتا تھا تو وہ خلوص کے ساتھ دین پر عمل کرتے رہتے تھے۔
اب فرق صرف اتنا آیا ہے کہ بچے جوان ہو کر کھلے عام ہی جو خواہش ہوتی ہے، وہ کر لیتے ہیں۔ اب فرق صرف یہی آیا ہے اولاد اور شاگرد منافق نہیں بنتے ہیں بلکہ دین میں شوق ہے تو دین پر عمل کر لیتے ہیں، ورنہ نہیں کرتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ دین کی خواہش جس میں پیدا ہو، وہی بچے اور شاگرد عمل پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جن میں دین کی خواہش ہی نہ ہو بلکہ دنیا پرستی کا شوق ہو، وہ دین پر عمل نہیں کرتے ہیں اور پہلے زمانے میں وہ منافق ہی بنتے تھے۔ اب وہ کھلے عام ہی گناہ کرنا چاہیں تو کر لیتے ہیں جب کہ پہلے گناہ کو خفیہ طریقے سے کر لیتے تھے۔
اب موجودہ زمانے میں حل وہی ہے جو پہلے زمانے میں بھی تھا۔ اس میں کچھ ٹپس حاضر خدمت ہیں۔
۔۔۔۔۔ بچوں خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں، ان پر کبھی مذہبی جبر مسلط نہ کریں۔ بلکہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں میں رہتے ہوئے خود عمل کر کے دکھاتے رہیں اور ساتھ ہی بچوں میں بھی خوشی خوشی یہ کام کروانے کی کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔ ڈانٹ ڈپٹ اور چلانا وغیرہ بالکل نہیں کرنا چاہیے، اس سے پھر لڑکیوں میں منافقت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں منافقت کی بہت سی مثالیں میں نے خود دیکھی ہیں۔ وہ والدین اور اساتذہ کے سامنے بظاہر دیندار ہوتے تھے اور باہر نکل کر فحاشی اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں بھی کرتے رہتے تھے۔
۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالی سے محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس کا رزلٹ نہ بھی ہو، تب بھی دس پندرہ سال تک کوشش کرتے رہیں۔ اس میں صرف محبت پیدا کرنےکی خواہش ہی کرتے جائیں او رخود عمل کرتے دکھاتے رہیں۔ اس کے لیے میڈیا میں جو اچھے ڈرامے اور دینی شاعری کے گانے کو بھی گھر میں لگا دیں۔ اس میں بچیوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اچھے گانے کی مثال جیسے حمد و ثنا کا گانا، عمدہ نعت جس میں کوئی مشرکانہ شاعری نہ ہو، اخلاقیات کی شاعری کا گانا وغیرہ۔
۔۔۔۔۔ ہر نماز کے اندر ہی اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ بھی میری اولاد کو ہدایت پر قائم رکھے۔
۔۔۔۔۔ اس کے بعد اولاد کے رزلٹ کو اللہ تعالی کے حضور چھوڑ دیجیے۔ حقیقت یہی ہے کہ جوانی تک رزلٹ بہت کم بچوں میں پہنچتا ہے۔ اس وقت تک لڑکیوں میں دین کا شوق اور اللہ تعالی سے محبت کچھ خاص پیدا نہیں ہوتی ۔ ہاں 35-40 سال کی عمر تک ان میں اللہ سے محبت اور دین کے شوق کا کچھ رزلٹ نظر آتا ہے۔ اس لیے طویل عرصے تک انتظار ہی کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔ بچوں میں گمراہی اور گناہ پیدا ہوں تو ان کے دشمن بالکل نہیں بننا چاہیے۔ اس میں سزا بالکل نہیں دینی چاہیے بلکہ آہستہ آہستہ اسے اس زہر کو دکھانا چاہیے۔ شیطان کے خلاف نفرت پر ضرور ڈسکشن کو جاری رکھیں۔ کبھی خود، کبھی اچھے لیکچرز وغیرہ کے ذریعے یہ کام لیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔ بچوں اور بچیوں میں کھیل کی خواہش ہوتی ہے۔ اس میں انہیں اچھا کھیل کروائیں۔ مثلاً آپ گھر میں بھی ٹریڈمل وغیرہ خرید سکیں تو بچیاں ایکسرسائز کر سکتی ہیں۔ اس سے یہ فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جوانی کی انرجی صحیح راہ میں چل پڑتی ہے۔
ان تجاویز کے علاوہ کچھ آرٹیکلز حاضر خدمت ہیں، ان میں دیکھ لیجیے اور جو کام کے پوائنٹ سامنے آ جائیں تو انہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ ابویحیی بھائی نے اس موضوع پر بہت سے آرٹیکلز “انذار” ویب سائٹ میں لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ یوٹیوب میں مولانا وحید الدین خان صاحب نے والدین ، اولاد اور شاگردوں پر جو کچھ لکھا اور پڑھایا ہے، وہ کافی فائدہ مند ہے۔
اس پوری کوشش کااللہ تعالی ہمیں اجر ضرور دیں گے۔ جوانی میں سب لڑکوں لڑکیوں میں گمراہی اور گناہ تو جاری رہیں گے، پھر 35-45 سال میں سب میں دین کا شوق بھی آ جائے گا۔ آپ کی کاوش کا رزلٹ پھر اس وقت آئے گا۔ تب تک ہمیں صبر ہی کرنا ہے کیونکہ پرانے بزرگ جبر کرتے تھے تو اپنی اولاد اور شاگردوں کو صرف منافق ہی بنا لیتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ بزرگ اپنے آپ کو ڈپریشن ہی میں رکھے رہتے تھے اور کئی بیماریوں میں آ جاتے تھے۔
http://www.inzaar.pk/aulad-aur-khuda-abu-yahya/
http://www.inzaar.pk/mazameene-quran-82-by-abu-yahya/
http://www.inzaar.pk/?s=%D8%A7%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%AF
http://www.inzaar.pk/bachon-ki-zid-wajuhat-aur-ilaaj/
http://www.inzaar.org/the-mother-and-child/
http://www.inzaar.pk/apny-kal-ko-roshan-kijye-by-abu-yahya/
http://www.inzaar.pk/nemat-kyun-musibat-ban-gai-by-abu-yahya/
http://www.inzaar.pk/fahash-sites-aur-hamary-nojawan-by-abu-yahya/
تربیتِ اولاد کے حوالے سے میں ایک کیس اسٹڈی شیئر کرتا ہوں۔ ہمارے بزرگ رشتے دار تھے، جو وہ ایک مدرسہ کے مفتی تھے۔ ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ سارے بچے دیندار بنیں اور عالم دین بنیں۔
انہوں نے بیٹوں کو مدرسہ میں داخل کیا، لیکن دو بیٹے تو جلد ہی چھوڑ کر بھاگ گئے کیونکہ مدرسہ کا کلچر جبر ہی کا تھا۔ والد نے بیٹوں کو مارا بھی اور کوشش کرتے رہے، لیکن دونوں بیٹوں میں شوق پیدا نہیں ہوا۔ مجبوراً انہیں اسکول میں داخل کروایا، تو پھر وہ بیٹے سیٹل ہو گئے۔ تیسرے بیٹے کو حافظ بننے کا شوق تھا، اس لیے وہ حافظ بن گئے لیکن عالم دین بننے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی تو وہ مزیدتعلیم حاصل نہیں کر سکے۔
ایک بیٹی مدرسہ میں داخل ہوئی، لیکن مشکل سے تین سال ہی وہ پڑھ سکیں اور آخر وہ واپس گھر میں آ گئیں۔ والد صاحب نے تینوں بیٹیوں کی اپنے عالمِ دین شاگردوں سے شادی کر دی تاکہ وہ ان کی تربیت کریں۔ اب تینوں کے شوہروں نے کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ایک بیٹی اب 40 سال کی عمر میں دیندار بن گئیں۔لیکن اسے نماز کا ریگولر شوق نہیں ہوا، لیکن روزےاور دعاؤں کا اسےشوق ہے اور وہ کر لیتی ہیں۔ اس کے ساتھ بچوں کی تربیت بھی کرتی رہتی ہیں۔ دوسری بیٹیاں صرف نماز ہی پڑھتی ہیں اور روزہ رکھتی ہیں۔ عالم دین بننے کا انہیں ابھی تک شوق نہیں ہوا ہے۔
اسی طرح سے آپ دیگر دیندار حضرات کی فیملی کے رزلٹس کی کیس اسٹڈیز کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہی عقل ملے گی کہ اولاد کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ مردوں میں، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ MBA کے جو کلاس فیلوز تھے، ان کی اکثریت میں دیندار بننے کا شوق نہیں تھا۔ چند ایک ہی تھے جن میں دیندار عالم بننے کا شوق تھا اور وہ بن گئے۔ باقی سب میں دلچسپی نہیں رہی لیکن اب دیکھا ہے تمام لوگ 50 سال کی عمر میں دیندار بن چکے ہیں اور ریگولر نماز پڑھتے ہیں۔ اکثر کو عالم دین بننے کا شوق ابھی پیدا نہیں ہوا بلکہ محفلوں میں ملاقات ہوتی ہے تو ان کا شوق وہی سیاست کی ڈسکشن والا ہی اب تک جاری ہے۔
اس میں ایک اورتجربے کا اضافہ بھی کرلیجئے کہ ہندوستان میں جو تعلیمی نظام کی تبدیلی آئی تھی تو اس کے اثرات بھی اب تک باقی ہیں۔ مغل حکومت میں ایجوکیشن کا سلسلہ 1707 تک جیسا چلتا تھا، اورنگزیب عالمگیر صاحب کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔ اس کے باوجود کہ 1764 میں بنگال میں انگریزوں کی حکومت بن گئی تھی لیکن تعلیمی نظام میں کوئی تبدیلی نہ لائی گئی تھی۔ انگریزوں کو جس علاقے تک حکومت ملی، انہوں نے پرانے تعلیمی نظام ہی کے انڈین لوگوں کو ملازمت دی، جس کی وجہ سے مسلمان جج اور بیوروکریٹس بنتے رہے۔
جب 1836 میں میکالے صاحب نے مشورہ دیا کہ جدید تعلیم ہونی چاہیے تاکہ انڈین لوگ جسم کی حد تک انڈین، لیکن ذہنی طور پر انگریز بن جائیں، تو پارلیمنٹ نے اس پر اتفاق کر لیا۔ پھر جب 1857 میں پورے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت بن گئی تو اس کے بعدتعلیمی نظام میں تبدیلی کر دی گئی۔
اس کے برعکس مسلمانوں نے پرانی تعلیم کو ہی جاری رکھنا چاہا۔ چنانچہ 1867 میں دیوبند مدرسہ بن گیا اور پھر اس کے بعد پورے ہندوستان میں مدارس کا نیٹ ورک بن گیا۔ یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کا رزلٹ یہ ہے کہ جو لوگ جدید تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، وہ دین سے دور رہتے ہیں۔ جن میں دین کا شوق ہوتا بھی ہے ، ان کے ذہن میں شبہات اور سوالات جاری رہتے ہیں۔
اب ضرورت یہی ہے کہ ہمیں دور جدید کی زبان میں دینی علوم کی خدمت کرنی چاہیےتاکہ تعلیم یافتہ افراد میں دین کا علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ اس کے نتیجے میں جدید تعلیم یافتہ افراد بھی علماء دین بن سکیں گے۔ اس میں چاہیں تو جدید تعلیم یافتہ اسٹوڈنٹس کو عالم دین بنا دیں یا پھر مدارس کے علماء کو دور جدید کی تعلیم دی جا سکے۔ تاکہ عام آدمی کے ذہن میں دین سے متعلق جو شبہات اور سوالات پیدا ہوں، ان کی خدمت ہم کر سکیں۔
اسی ڈیمانڈ کے پیش نظر یہ حقیر کاوش ہم نے کی ہے ۔ آپ سے یہ درخواست ہے کہ آپ اس میں اضافہ فرما دیں تاکہ جن سوالات کا جواب باقی ہے، اس کی خدمت بھی کر دیں۔ اسی طرح جن علوم کی ضرورت ہے اور ہم نے ابھی کام نہیں کیا ہے تو اس کا اضافہ کر سکیں۔ اس میں آپ بھی تعلیمی ٹیکسٹ بکس اور لیکچرز کا اضافہ کر دیجیے تاکہ سب کی خدمت کر سکیں۔
Your Questions in mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com