سوال: ایک شخص کروڑوں روپے کا مالک ہے لیکن وہ ان پیسوں کی زکوۃ دینےکی بجائے اس سے ایک عالی شان گھر بنا لیتا ہے جبکہ اس کا مؤقف ہے کہ وہ اس کی ضرورت ہے تو پھر ایسا شخص زکوۃ کب ادا کرے گا ؟ کیا ایسا فعل اسراف میں شمار نہیں ہو گا؟
طلحہ خضر
جواب: زکوۃ میں ایکسپشن صرف یہی ہے کہ اپنے گھر میں جہاں انسان اور فیملی رہتی ہے تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اس فیملی کے نارمل گھر جتنے ہونے چاہئیں، وہی تک ایکسپشن ہونی چاہیے اور اس سے زیادہ بڑے عالی شان گھر جو فیملی کی ضرورت سے زیادہ ہے، تو اس پر زکوۃ ہونی چاہیے۔
آپ کے اجتہاد سے میں پوری طرح متفق ہوں کہ ضرورت سے زیادہ جو کچھ بھی ہے، اس پر زکوۃ ادا کرنی چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں اجتہاد کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے دیتے تو پھر سنت مل جاتی۔ لیکن اس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ لوگوں کے بڑے بڑے گھر بھی ہوتے تو وہاں جوائنٹ فیملی رہتی جس میں اس شخص کی اپنی کئی بیویاں اور بچے، بھائی بھابی اور ان کے بچے اور بعض اوقات اپنی بہن ، بہنوئی اور بچے بھی رہتے تھے۔
اس لیے وہاں سب ان کی ضرورت تھی اور وہاں زکوۃ پر لمٹ ہوتی تھی۔ موجودہ زمانے میں بھی یہی اجتہاد کرنا چاہیے کہ ہر انسان کو اس کے نارمل گھر تک لمٹ ہو اور اس سے زیادہ بڑے محل حویلیاں وغیرہ پر زکوۃ ہونی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت کو ایکسپشن لمٹ پر اجتہاد کر کے قانون سازی کرنی چاہیے۔ ہاں اگر کسی گاؤں میں جوائنٹ فیملی ہو اور ان کی وجہ سے حویلی ہو تو اسے لمٹ ہونی چاہیے۔ جس ملک میں حکومت کی طرف سے زکوۃ نہیں لی جاتی تو پھر خود زکوۃ ادا کرنی ہے۔ اس کے لیے پھر اس شخص کو اجتہاد کر کے بلکہ موجودہ زمانے کی اکنامکس کے ماہر علماء سے پوچھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
سوال: اگر ایک شخص کو موبائل کی ضرورت ہو اور وہ دس بیس ہزار والے موبائل کی بجائے پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے کا موبائل خرید لے تو کیا یہ بھی اسراف ہو گا؟
جواب: اسراف کا اصول یہی ہے کہ ضرورت سے زیادہ ہو تو وہ اسراف ہوتا ہے اور اس میں نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔ اب اس انسان کو خود چیک کر لینا چاہیے کہ مہنگے موبائل کی ضرورت کیا ہے؟
مثلاً بعض انسان کو اس لیے ضرورت ہو کہ اس کے پاس لیپ ٹاپ نہیں ہے اور پھر اپنے بزنس کے لیے انٹرنیٹ موبائل کے ذریعے استعمال کر رہا ہو، تو پھر اس انسان کو مجبوراً ایک لاکھ کا موبائل استعمال کر رہا ہو تو پھر اسراف نہیں ہے۔ لیکن دوسرا انسان جو نہ بزنس کرتا ہے اور مزید کوئی ضرورت نہ ہو تو اس شخص کا اسراف ہے کیونکہ محض دوستوں سے گفتگو کے لیے سستے موبائل میں بھی واٹس اپ وغیرہ ہوتا ہے تو یہ اس کا کام چل سکتا ہے ۔ہر انسان کی صورتحال مختلف ہوتی ہے اور اس کے لحاظ سے انسان کو اجتہاد کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان کو خود اپنی ضرورت صحیح معلوم نہ ہو کہ یہ اہم ضرورت ہے یا نہیں تو اسے دور جدید کے ماہر دوست سے پوچھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔
سوال: میں اس بات میں متردد ہوں کہ ایک شخص زکوۃ لازم ہو جانے پر یا اس سے پہلے اپنے پیسوں میں سے کوئی چیز خرید لے، تو ایسا شخص زکوۃ کب دے گا؟ اس طرح کر کے وہ ہر سال زکوۃ سے بچ سکتا ہے ۔ کیا ایسا کرنا اسلام کی روح کے منافی نہیں ہے؟
جواب: اس شخص کے لیے معاملہ یہی ہے کہ اسے دیکھنا چاہیے کہ کس دن کو اس نے زکوۃ کے حساب کا دن طے کیا ہے۔ مثلاً اس شخص نے یکم رمضان کو زکوۃ کو طے کیا ہوا ہے۔ اب اس دن اس کے پاس جو کیش اور دیگر ایسٹس ہوں تو اسےان پر زکوۃ ادا کرنی ہے۔ اگر وہ شخص یکم رمضان سے پہلے بغیر ضرورت کے چیز خرید لے تو پھر وہ اپنی طرف سے اللہ تعالی کے حضور فراڈ کرنا چاہ رہا ہے۔ اسے توبہ کرنی چاہیے اور اس چیز پر زکوۃ دینی چاہیے۔
اگر سچ مچ کی ضرورت ہے جیسے گھر کی فیملی کو کھانا، فروٹ وغیرہ دینا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں فراڈ نہیں ہے۔ بس انسان کو خود اپنی نیت کو دیکھنا چاہیے۔ اگر اس انسان کی نیت درست ہے لیکن اس نے زکوۃ کے دن سے پہلے کوئی بہت مہنگی چیز (مثلاً ایک لاکھ کا موبائل) خرید لی تو پھر اسے چاہیے کہ وہ زکوۃ ادا کرے۔
اس کے لیے کیس اسٹڈی کے طور پر فراڈ کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مغل بادشاہ کے ایک مفتی صاحب نے زکوۃ کو چھوڑنے کا طریقہ یہ بنا دیا تھا کہ اپنی پراپرٹی کو سال پورا ہونے سے پہلے بیگم کو دے دیتے۔ پھر بیگم اگلے سال کو پورا ہونے سے پہلے شوہر کو دے دیتیں۔ اس طرح کئی سال تک زکوۃ نہ دیتے رہے۔ یہ حقیقتاً فراڈ ہی تھا تو اس نوعیت سے ہم لوگوں کو چاہیے کہ اس نوعیت کی نیت کے لحاظ سے چیک کر کے ہی اپنی زکوۃ ادا کرنی چاہیے۔
آپ کے جتنے سوالات ہیں، ان میں فقہاء کے مختلف فتوے نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قانون ساز تھے اور ملک میں قانون بناتے تھے، اس لیے انہوں نے فتوی دیا۔ فرق اس لیے پیدا ہوا کہ ہر ایک کی صورتحال مختلف تھی۔ موجودہ زمانے میں کئی مفتی حضرات، پرانے فقہاء کے فتوے کو کاپی پیسٹ کرتے ہیں جو ان کی غلطی ہے۔ انہیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ موجودہ ملک اور ٹائم میں اکنامکس کی صورتحال کیا ہے۔
ان کے ایک احمقانہ فتوی کی مثال یہ ہے کہ شادی کے وقت بیگم کا مہر 32 روپے کہہ دیا ہے۔ اب آپ خود بتا سکتے ہیں کہ 32 روپے کی حیثیت کیا ہے؟ پرانا فتوی معقول تھا کہ جب اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت میں 32 روپے ، برٹش پاؤنڈ کے برابر تھی اور معقول رقم تھی لیکن اب معقول نہیں ہے۔
اسی طرح آپ سوچ سکتے ہیں کہ 1920 کے زمانے میں کئی فقہاء نے فتوی دیا کہ لاؤڈ اسپیکر کا مسجد میں رکھنا گناہ ہے کیونکہ انہوں نے اسے کھیل تماشہ ہی سمجھا تھا۔ بعض حضرات اب بھی اس فتوی پر عمل کرتے ہیں تو آپ خود ان کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ کونسا فتوی درست ہے؟ اب الٹا معاملہ یہ بھی ہو گیا ہے کہ مسجدوں میں سے لاؤڈ اسپیکر اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب لوگوں کی نیند توڑ کر اور اسٹوڈنٹس کے ایگزام کے باوجود کئی گھنٹوں تک تقریریں کرتے رہتے ہیں۔ اس کی بجائے عرب ممالک میں یہی کیا ہوا ہے کہ لاؤڈ اسپیکرز میں صرف اذان اور جمعہ کا خطبہ ہی ہوتا ہے۔ اپنی تقریروں اور نماز میں وہ مسجد کے اندر ہی لاؤڈ اسپیکر استعمال کر سکتے ہیں۔ ان مثالوں سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہر ٹائم اور ہر علاقے میں اجتہاد کا فرق ہو سکتا ہے۔
Your questions should send to mubashirnazir100@gmail.com.
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com