سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ مجھے غیر اللہ کی نذر ونیاز کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لئے کوئی مدلل تحریر چاہیے؟
ڈاکٹر رفعت نواب، فیصل آباد
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ غیر اللہ کی نذر و نیاز کی حقیقت تو یہی ہے کہ یہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی اور شخصیت کی پوجا کرنے کے مترادف ہے۔ نذر و نیاز کا عام طریقہ تو یہی اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ کھانا بنا کر دوسرےلوگوں کو کھلا دیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کسی کو کھانا کھلانا تو بالکل درست کام ہے۔ اصل فرق نیت پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ کسی اور شخصیت کے نام پر نذر و نیاز کیوں کر رہے ہیں؟
اگر انسان صرف یہ نیت رکھتا ہے کہ کسی غریب آدمی کو کھانا کھلانے کی نیکی کا جو ثواب ہو گا،میں وہ ثواب فلاں بزرگ کو پہنچا دوں گا تاکہ وہ اللہ تعالی سے میرے لئے دعا کریں تو پھر یہ شرک تو نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں وہ بزرگ کو صرف ثواب پہنچا رہے ہیں، جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اس طرح ثواب پہنچتا ہے۔ ہاں اگر وہ بزرگ زندہ ہوں تو خود ان کو چاہیے کہ وہ سب لوگوں کے لیے دعا کر دیں۔ دعا کوئی خرید و فروخت کا بزنس تو نہیں ہے کہ پہلے اس کی قیمت ادا کی جائے اور پھر بزرگ کسی کے لئے دعا کریں، بلکہ ہمیں خود ہی تمام مخلص بھائیوں بہنوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
کئی لوگوں میں ایسا عقیدہ ہندو مت سے آیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خود اللہ تعالی سے دعا نہیں کر سکتے، بلکہ کسی نیک بزرگ سے دعا کروانےکی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ نذر کر کے اس وفات شدہ بزرگ سے امید قائم کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارے لئے دعا کرے گا بلکہ یہی نہیں ان کے پاس یہ طاقت بھی ہے کہ وہ ہمارا مسئلہ حل کریں۔ چنانچہ یہ عقیدہ غلط ہی قرار پائے گااس طرح سے مشرکانہ عمل بھی بن جاتا ہے۔ جو لوگ قرآن و حدیث کی روشنی میں دین کو سمجھ چکے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ ایسی نذرو نیاز کو کھانے سے پرہیز کریں کیوں کہ بدعت اورشرک کی آمیزش کی وجہ سے اس کا کھانا حرام قرار پاتا ہےاور کوشش کریں کہ اپنے ان بھائیوں کو مسلسل سمجھاتے بھی رہیں۔
Ask your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.