سوال: جو سرکاری ملازم کافی عرصے سے ملازمت کر رہا ہو اور اس دوران اس سے ڈیوٹی میں کچھ کوتاہی ہوئی ہو، جیسے لیٹ جانا اور ڈیوٹی سے جلدی آجانا اور صحیح معلوم نہ ہو کہ کتنی دفعہ اس طرح ہوا ہے، تو وہ کیا کرے کہ اس کے اس گناہ کا کفارہ ادا ہو جائے اور آخرت کے عذاب سے بچ جائے؟ اسی طرح اگر کوئی انسان نوکری پرہی نہ گیا ہو اور اس نے گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کی ہو تو وہ تنخواہ کیسے لوٹائی جائے؟ جب کہ وہ کمپنی وہاں سے اپنا کام ختم کر چکی ہے اور اس سے رابطہ کرنا قریب قریب ناممکن ہے؟
جواب: آپ کے سوالات دلچسپ ہیں۔ ان پر میں عرض کرتا ہوں کہ تنخواہ کے بدلے ہم اپنی خدمت ادا کرتے ہیں۔ اگر ملازم نے ملازمت کا حق ادا کردیا ہو تو اس کی تنخواہ بالکل حلال ہوتی ہے۔ اگر کسی وقت کوئی ایسے حالات پیش آئے ہیں کہ ڈیوٹی میں کوتاہی ہو گئی ہے تو اس ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو ٹھیک کر کے کام کو مکمل کر دے۔
رہا دیر سے پہنچنا یا جلدی نکل جانا تو اس کے لیے اس شخص کو چاہیے کہ اپنے منیجر کو بتا دے اور وہ اجازت دے دے تو پھر معاملہ ختم ہے۔ اگر بغیر بتائے جو کم ٹائم لگا رہا ہو تو پھر غلط حرکت ہے اور غفلت ہے۔ اب اگر وہ کر چکا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے منیجر کو بتا دے اور معذرت کر لے۔ اس ٹائم میں جو کام کرنا تھا، وہ نہیں کیا تو اسے چاہیے کہ وہ جلد اپنے اس کام کو پورا کر لے۔
باقی رہا آپ کا سوال کہ وہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتا رہا تو بات یہ ہے کہ گھر بٹھا کر تنخواہ کوئی نہیں دیتا ۔ ہاں لاک ڈاؤن میں عام طور پر کمپنیاں گھر میں کام کروا لیتی ہیں۔ اس ملازم کو جو کام دیا اور اس نے گھر میں بیٹھے کر لیا تو اس کی تنخواہ بالکل حلال ہے اور کام نہ کیا ہو تو پھر اس کی غلطی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے منیجر کو بتا دے، معذرت کر لے اور ان سے درخواست کر لے کہ مزید کام مجھے دے دیجیے۔ اگر منیجر نے پہلے کام دیا ہی نہیں تھا تو اس میں ملازم پر کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ یہ منیجر کی غلطی ہے اور ملازم کی تنخواہ بالکل جائز ہے۔
اگر ملازم اپنی غفلت کی وجہ سے غائب رہا اور کمپنی اسے تنخواہ دیتی رہی تو ملازم کو چاہیے کہ وہ انہیں صورتحال بتا دے اور معذرت کر لے۔ پھر انہیں کہے کہ مجھے ابھی کام دے دیں تاکہ میں اپنی تنخواہ کو حلال کر سکوں۔ اگر کمپنی بند ہی ہو گئی ہے تو غلطی اس ملازم ہی کی تھی، تو اسے چاہیے کہ وہ اس کمپنی کے مالکان کو اپنی تنخواہ واپس دے دے۔ اگر کمپنی کے مالک اور منیجرز نے اسے کام ہی نہیں دیا تھا اوراس ملازم کی کوئی غفلت نہ تھی تو پھر اس کی تنخواہ بالکل جائز ہے۔
سوال: کیا ووٹ کے پیسے لینا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: ووٹ کے پیسے لینےکا سوال کیوں پیدا ہوا؟ اگر کوئی سیاستدان ووٹ کے لیے رقم دے رہا ہے تو پھر تو یہ علامت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاستدان قوم سے مخلص نہیں ہے۔ اس لیے ووٹ دیتے ہوئے ہم کسی نامخلص شخص کو ووٹ دیں گے تو یہ غلط حرکت ہو گی۔ اس سے آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ یہ ناجائز ہی ہو گا کہ ایک غیرمخلص شخص کو حکومت میں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے قوم کو کوئی نقصان ہی ہو سکتا ہے۔
سوال: محترم جناب،اگر حکومت کسی سے زمین حاصل کرے اور مالک زمین عدالت کی طرف رجوع کریں اور عدالت سے استدعا کریں کہ میرے زمین کی مناسب اور درست قیمت مقرر کریں اور رقم کی ادائیگی کریں۔
بعد میں عدالت فیصلہ کرتی ہے اورحکم دیتی ہے کہ ایکوائر شدہ زمین کی فی مرلہ قیمت ایک لاکھ پچیس ہزار، اور ساتھ ہے15 فیصد کمپلسیری چارجز اور قبضہ وقت سے لے کر ادائیگی کے وقت تک 6 فیصد انٹرسٹ رقم، مالک زمین کو ادا کیا جائے۔مثال کے طور پر اگر حکومت کسی سے 80 مرلے زمین سکول کے تعمیر کیلئے 2010 میں حاصل کرتی ہیں۔ تواب عدالتی فیصلے کے رو سے 2022 میں درج ذیل کیلکولیشن بنتی ہے۔
فی مرلہ 125,000+15 فیصد+ 6فیصد
(18750+ 125000+ 7500 ضرب 12 سال) ٹوٹل اب ایک مرلہ 233,750
ٹوٹل رقم اب 80 مرلہ 18,700,000
اب میرا سوال صورت مذکورہ بالا میں یہ ہے کہ کیا 6 فیصد سود کیے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟ 6ٖ فیصد لینا جائزہے کہ نہیں ؟ ہماری رہنمائی قران وسنت کی روشنی میں فرمائیں۔
جواب: یہ کوئی سود نہیں ہے بلکہ محض اس زمین کی قیمت ہی ہے جس کی حقیقت ہے۔ باقی قانونی طور پر جو کچھ کیلکولیشن کے لیے وہ اپنے حساب سے جس اکاؤنٹ میں جمع کروانا ہے، تو یہ حکومت کا معاملہ ہے۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اپنی زمین کی قیمت 18,700,000 ہی ہے۔ باقی حکومت کے ادارے اپنے حساب سے جو مرضی اکاؤنٹنٹ کرتے رہیں لیکن ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کی ضرورت اس وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے کہ حکومت اس زمین کی قیمت کم کر لیتی ہے اور جبراً قبضہ کر لیتی ہے۔ اس کے لیے ہم جب بیچ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت زمین کی قیمت کم رکھی ہوتی ہے، اس لیے عدالت تک جانا پڑتا ہے۔
ہاں یہ ضرور چیک کر لینا چاہیے کہ اس زمین کی مارکیٹ میں اصل قیمت کیا ہے اور اسے آپ کئی پراپرٹی ڈیلرز سے پوچھ لیجیے۔ اب آپ کو معلوم ہوا کہ اس زمین کی اصل قیمت 20,000,000 ہے تو پھر حکومت کی غلطی ہے۔ لیکن اگر مارکیٹ کی قیمت 15,000,000 ہے تو پھر چیک کر لیجیے کہ حکومت زیادہ رقم کیوں دے رہی ہے؟ اگر اس میں کرپشن کی وجہ سے وہ قیمت بڑھا رہے ہیں تو پھر یہ حرام ہے۔ اگر وہ لوگوں کی خدمت کے لیے اتنی قیمت بڑھا رہے ہیں تو پھر یہ بالکل جائز ہے۔
میں نے وہ واقعہ دیکھا ہے کہ جب سعودی عرب کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ حرم شریف کی مسجد کو توسیع کر دیں تو انہوں نے تمام مالکوں سے ان کی زمین اور بلڈنگ خرید لی۔ یہ بہت بڑی قیمت بن گئی تھی۔ یہ لوگوں کی خدمت ہی ہوئی کہ انہیں بڑی رقم مل گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ حرم شریف کے قریب بلڈنگ چھوڑ دیں جہاں وہ کرایہ حاصل کرتے تھے۔ اب انہوں نے نیا بزنس بنانا تھا تھا حرم شریف سے دور کر کے کوئی بلڈنگ خریدنی تھی۔ اس لیے ان لوگوں کو بالکل حلال رقم مل گئی۔
کرپشن کی مثال یہ ہے کہ جب حکومت زمین خرید کر روڈ یا کوئی معاملے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ اس زمین کی قیمت مارکیٹ میں 2,000,000 ہے۔ حکومت کا ملازم مالک کو کہتا ہے کہ اگر تم 3,000,000 کی قیمت کہنا تو میں حکومتی وزیر سے بات کروا لوں گا۔ تمہیں 3,000,000 مل جائیں گے لیکن اس میں سے مجھے 500,000 دے دینا یا ابھی پہلے دے دو۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کرپشن اور فراڈ ہی کی شکل ہے اور اس میں مالک اور حکومتی ملازموں کی آمدنی بالکل حرام ہی ہے۔ اسی طرح کئی سرکاری ذمہ دار لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے لیے قیمت بڑھا کر حکومت خرید لیتی ہے۔ یہ بھی کرپشن ہی کی شکل ہے۔
اس کے الٹ خوبصورت مثال تاریخ میں سیرت صحابہ میں ہے۔
Conflict of Interest
جب عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی، اس وقت عراق کے گورنر کے پاس بڑا کیش تھا جسے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے دارالحکومت مدینہ منورہ میں وہ کیش پہنچانا تھا۔ اس وقت ایک قافلہ تھا جس میں عمر رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے تھے۔ گورنر عراق نے وہ کیش دے دیا اور کہا کہ آپ مدینہ پہنچ کر سرکاری خزانے میں دے دینا۔
بیٹے مدینہ منورہ پہنچے تو پوری رقم نے سرکاری خزانے میں دے دیے۔ ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے خطوط کے ذریعے گورنر سے پوچھا کہ کتنی رقم بھیجے ہے۔ تو معلوم ہوا کہ پوری رقم آ گئی ہے۔
اب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو چیک کیا کہ اس میں تمہارے پاس اتنی زیادہ آمدنی کہاں سے آئی ہے؟ بیٹوں نے عرض کیا کہ ابا جی! جو سرکاری کیش لے کر آ رہے تھے، ہم نے اسی رقم سے کئی چیزیں عراق میں خرید لیں، پھر راستے میں ہر شہر اور گاؤں میں بیچتے تھے، اس طرح جو پرافٹ ملا ہے، وہ ہمارے پاس ہے۔ یہ ہماری محنت ہے، جس سے یہ پرافٹ کمایا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس پرافٹ کو بھی تم سرکاری خزانے میں جمع کروا دو تاکہ لوگوں کی خدمت ہو سکے۔
بیٹوں نے عرض کیا کہ ابا جی! اتنی بڑی رقم کا خطرہ تھا کہ راستے میں کوئی ڈاکو لے جاتے تو ہم ہی ذمہ دار ہوتے۔ اس لیے ہم نے اسے بچا کر لے آئے، تو پھر یہ پرافٹ تو ہمارا حصہ بننا چاہیے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر گورنر پورے قافلے کے تمام لوگوں کو یہ رقم دے دیتے اور وہ سب لوگ فائدہ حاصل کر کے پرافٹ کما لیتے تو بالکل حلال تھا اور تمہیں بھی فائدہ مل جاتا۔ لیکن گورنر نے صرف دو مردوں کو اتنی بڑی رقم دی کیونکہ وہ خلیفہ کے بیٹے تھے۔ اس لیے صرف دو آدمیوں کو فائدہ ملا ہے تو یہ کونفلکٹ آف انٹرسٹ ہے۔
Ask your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.