سوال: شریعت اسلامیہ میں کلوننگ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: آپ کا سوال بہت دلچسپ موضوع پر ہے۔ اس میں اصولی طور پر جواب تو یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت نبوی میں اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی ٹیکنالوجی جب سامنے آتی ہے تو پھر قرآن و سنت کی بنیاد پر فقہاء اجتہاد کرتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نئی ٹیکنالوجی قرآن و سنت کی روح کے ساتھ میچ کرتی ہے یا نہیں؟
اس پر روایتی علماء اور جدید تعلیم یافتہ فقہاء سب سمجھتے ہیں کہ کلوننگ میں اخلاقی اعتبار سے ایک بڑا ایشو ہے، جس سے انسان پر ظلم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ میرے لیکچر اور کتاب میں ان کے تفصیلی دلائل دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ڈسکشن کتاب علوم الفقہ کی پانچویں کتاب میں ہے۔
فیملی پلاننگ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور کلوننگ
FQ38-Family Planning, Test Tube Baby & Cloning
البتہ اس کی ایگزیکٹو سمری عرض کر دیتا ہوں۔
Cloning is the process of generating a genetically identical copy of a cell or an organism. Cloning happens all the time in nature. In biomedical research, cloning is broadly defined to mean the duplication of any kind of biological material for scientific study, such as a piece of DNA or an individual cell.
۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ روایتی اور معتدل جدید علماء کا اتفاق ہے کہ جانوروں اور پودوں میں کلوننگ جائز ہے۔ لیکن انسان کی کلوننگ میں اخلاقی اعتبار سے برائیاں پیدا سکتی ہیں اس لیے حرام ہے۔فرض کیجیے کہ ایک ہی شکل و صورت اور خصوصیات کے دس انسان کلون کر دیے گئے۔ ان میں سے ایک دوسرے کے گھر میں داخل ہو کر چوری کر سکتا ہے، اس کی بیوی پر دست درازی کر سکتا ہے، اس کی جائیداد اپنے نام کروا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔ مجرم تنظیمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انسان کلون کروا کر انہیں دہشت گردی اور دیگر جرائم کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ طاقت کے بھوکے لوگ، انسان کلون کروا کر ان کی فوجیں تیار کر سکتے ہیں۔انہی انسانوں کو بطور غلام استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ کلون شدہ انسان کے ماں باپ کا تعین مشکل کام ہو گا۔ ایسی صورت میں بچہ والدین کے بغیر پرورش پائے گا تو اس پر کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے؟
اس کے لیے آپ قرآن مجید میں پڑھ لیجیے کہ اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ ہر بچے کا حق ہے کہ اس کے اصل والدین کنفرم ہوں۔ اس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کا شریعت کا حکم کیا ہے اور کلوننگ کر کے لوگ کیا حرکت کریں گے؟
مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ. ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔
اللہ تعالی نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں (کہ ایک ہی وقت میں وہ دو متضاد باتوں کو مانتا رہے۔) چنانچہ نہ اُس نے آپ کی اُن بیویوں کو جن سے آپ ظہار (یعنی غصے میں اپنی بیوی کا ماں کہہ دینا) کر بیٹھتے ہیں، وہ آپ کی مائیں نہیں بنایا ہے اور نہ آپ کو منہ بولے بیٹوں کو آپ کا بیٹا بنا دیا ہے۔ یہ سب آپ کے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ تعالی حق ہی کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
آپ منہ بولے بیٹوں کو اُن کے والد کی نسبت سے ہی پکاریں۔ یہی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر اگر اُن کے والدوں کا آپ کو علم نہ ہو تو وہ آپ کے دینی بھائی اور آپ کے ساتھی ہیں۔ آپ سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے آپ پر کوئی گرفت نہیں، لیکن آپ کے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اللہ تعالی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ (سورۃ الاحزاب 4,5)
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.