السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛
مبشر بھائی کیا حال ہیں۔ میں نے کل آپ کی کتاب”مایوسی سے نجات کیسے” کا مطالعہ کیا ہے۔ کچھ سوالات ذہین میں پیدا ہوئے ہیں، میں ان کو تریب سے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
سوال: دین کے اعمال کی لسٹ کافی لمبی ہے اور چونکہ بچپن سے عادت نہیں ہے تسلسل سے کرنے کی ، تو ارادہ کے باوجود کچھ دنوں کے بعد شوق کم پڑتا ہے۔ گو کہ ابھی تو چند دن ہوئے ہیں اور ابھی وہ سٹیج نہیں آئی لیکن مجھے اپنی طبیعت کی یہ شکایت ہے کہ کام کوئی بھی ہو ،بہت جذبے سے شروع کرتا ہوں لیکن کچھ عرصہ کہ بعد جذبہ ماند پڑھ جاتا ہے اور کام کا تسلسل ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ کام ختم ہی ہو جاتا ہے اور کسی اور طرف نکل جاتا ہوں۔ پھر چند دن کہ بعد اسی کو لے کے مایوسی کا دورہ پڑتا ہے جو بہت شدید ہوتا ہے، ایسی صور میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، دین کی لسٹ بہت مختصر ہے۔ اس کے لیے آپ خود قرآن مجید میں سےدینی احکامات کی لسٹ بنا لیجیے تو دو تین صفحوں میں لسٹ مکمل ہو جاتی ہے۔ فقہاء کے ہاں لمبی لسٹ اس وجہ سے بنتی ہے کہ دینی احکامات کی امپلی کیشن میں لسٹ لمبی ہو جاتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں حکم بتایا گیا ہے کہ کسی اور کے مالپر قبضہ نہیں کرنا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ دوسروں کے مال چھیننے کے لیے انسان صدیوںسے ہزاروں طریقے اختیار کرتا آیا ہے، اس لیے علم الفقہ میں لسٹ لمبی بن جاتی ہے۔ اب جیسا کہ ہم انفارمیشن ایج میں آ گئے ہیں تو اس میں نئے فراڈ کے طریقے بھی ایجاد ہو گئے ہیں ۔
آپ کو مایوسی شاید اس لیے ہو رہی ہو گی کہ فقہاء کی لسٹ پر عمل کرنے لگے ہوں گے ،جو اتنی لمبی ہوتی ہے کہ انسان کبھی یاد بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے لیے مشورہ یہی دوں گا کہ آپ قرآن مجید میں سے لسٹ خود بنا لیجیے اور اس کی امپلی کیشن پر خود کام کر لیجیے۔ اس میں دلچسپی بھی رہے گی ۔ان شاء اللہ
سوال: اس مایوسی میں ذہن کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ سوچوں کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ جو کچھ اس طرح کی ہوتیں ہیں کہ دین پر چلنا بہت مشکل کام ہے اور میں اس پر نہیں چل سکتا ۔ نتیجہ دماغ خود ہی نکال لیتا ہے کہ میں ناکام آدمی ہوں اور آخرت میں ناکامی میرا مقدر ہےاس طرح مایوسی در مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
جواب: اس کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ زندگی تو بس چند سالوں کی ہے جو محض امتحان کی زندگی ہے۔ اس کے بعد ان لمیٹیڈ زندگی ہو گی، جو بس انجوائے کرنے کی زندگی ہو گی۔ موجودہ زندگی اگرچہ ہمیں لگتی لمبی ہے کیونکہ ہم ہر منٹ کے حساب سے اپنی زندگی سوچ رہے ہوتے ہیں، لیکن اینڈ میں یہ خود ہمیں محسوس ہو گا کہ یہ زندگی تو بہت چھوٹی ہے۔ جب ہم لامحدود زندگی پر غور کریں گے اور اس پر فوکس کر لیں گے تو پھر موجودہ زندگی میں ہم مایوسی سے بچ سکتے ہیں۔
سوال: طبیعت میں بچپن سے سستی ہے۔ اور اس کا میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پایا۔ اسکا نتیجہ بھی خود سے مایوسی اور اپنے انجام سے مایوسی ہے۔ مسئلہ میرا دل ہے کہ میں ایک باقاعدہ نمازی ہوں اور نمازی مسجد والا ہوں۔ لیکن ایک تو نماز کا سلسلہ ٹوٹتا ہے۔ دوسرا اگر نہ بھی ٹوٹے تو مسجد جانا طبیعت پر اتنا بھاری ہوتا کہ یہ میں چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتا۔ کوشش ہوتی ہے مساجد کے پاس گھر لوں اور یہ کر بھی لیتا ہوں، ابھی گھر کے سامنے مسجد ہے اور جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیتا ہوں لیکن زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ، اسکے بعد کام خراب ہو جاتا ہے۔ اور پھر مایوسی کا دورہ مقدر ہوتا ہے اور پھر یہ سوچ مسلسل پیدا ہوتی ہے کہ میں اللہ تعالی کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا اور یہ سوچ شدید خوف پیدا کر دیتی ہے۔ اور مایوسی بھی بڑھ جاتی ہے۔
جواب: آپ عمدہ عمل کر رہے ہیں جس میں آپ کامیاب ہوں گے ان شاء اللہ۔ جماعت کی نماز ہم پر فرض نہیں ہے بلکہ زیادہ اجر کے لیے ہم جماعت کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں۔ اس میں آپ تبھی کریں جب ذہن ایکٹو ہو۔ نہ ہو تو اکیلے ہی پڑھ لیجیے کہ آپ کی ذمہ داری ادا ہو جائے گی۔ پھر جس وقت ذہن اور جسم ایکٹو ہوں تو مسجد میں پڑھ لیجیے گا۔
سوال: مایوسی کو کم کرنے کے لیے میں نے جگہیں بھی تبدیل کیں ۔ کہ ایک جگہ سے شفٹ ہو کہ دوسری جگہ جاؤں گا تونئے لوگ نیا ماحول ہو گا تو میں بہتر ہو جاؤں گا۔ تبدیلی کے عمل کا گو کلی طور پر یہ مقصد ہی نہیں ہوتا تھا لیکن یہ مقصد ایک حصہ ضرور ہوتا تھا۔ اب جیسے پاکستان آیا تو ایک مقصد یہ بھی تھا۔ آفس میں لوگ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے تھے۔ میں نے کوشش کر کے ان کو جماعت پر لگوایا۔ امامت کا مسئلہ آیا تو میں نے خود ہی کروانا شروع کر دی لیکن کچھ عرصہ کہ بعد وہی سلسلہ بوجھ بن گیا۔
جواب: یہ آپ نے شاندار طریقہ اختیار کیا ہے۔ امام آپ خود بن جایا کریں اور آپ ٹائم نوٹ کر کے جماعت کا ایک بار اعلان کر دیجیے۔ کولیگز میں جن لوگوں میں نماز کا شوق ہوا تو انہیں بھی اس ٹائم کی عادت بن جائے گی۔ اگر کسی کو نہ ہوئی تو کوئی مسئلہ نہیں کہ آپ کو اپنے اجر کا فائدہ حاصل ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ اگر آفس کے قریب مسجد نہیں ہے تو پھر اپنے آفس میں یہی جماعت کر لیا کریں۔
سوال: آپ کو اگر یاد ہو تو آپ کے ساتھ قرآن کی تفسیر کے تقابلی مطالعہ پر کام کرنے کا سوچا تھا، حدیث پر کام ، ریسرچ میتھڈالوجی پر سٹڈی وغیرہ ، لیکن سب کام ادھورے رہ گئے۔اب ان کمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ نہیں کہ میں نےکوشش نہیں کی۔ جب آپ کے ساتھ اس وقت چل نہیں پایا تو پیچھے ہٹتا گیا۔ لیکن آپ کی بیماری کے دوران اور بعد اور اب کی کوشش جو تھیں۔ اس میں میں نے نے سلوا لائف سسٹم والوں کا کورس کیا ،ابتدا میں میڈیٹیشن کے ذریعے خود کو فتح کرنے کی کوشش کی ۔ کورس تو کر لیا لیکن اس کو روٹین میں نہ کر پایا اور پھر وہ چھوڑ ہی دیا۔پھر ڈاکٹر معیز حسین سے فور ڈی میٹڈ اور ریکی کی ٹرینگ لی تا کہ مراقبے اور ریکی سے دماغ اور جسم کی اصلاح کر سکوں- نتیجہ ناکامی اور مایوسی۔آرٹ آف لونگ جو کہ ایک ہندو یوگی کی آرگنایزیشن ہے ان کے ساتھ یوگا کی ابتدائی تربیت لی اور جب ایڈوانس لیول پر جانے کے لیے کورس میں گیا تو پتا چلا کہ وہ تو اصل میں اس کے ذریعے اپنے مذہب اور شرک کو پرموٹ کر رہے ہیں تو کورس کے درمیان چھوڑ کر بھاگ کیا اور وہ بھی نہ کر پایا۔
جواب: جو مسئلہ آپ کو ہوا ہے، یہی مسئلہ میرا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں جا کر ذہن اور جسم اتنا ایکٹو نہیں ہوتا ہے۔ اس میں مایوسی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اجر ہماری طاقت کے حساب سے دے گا۔ مثلاً جب جسم میں طاقت نہیں ہے، تب بھی ہم نےنماز کسی نہ کسی طرح پڑھ لی، تو ان شاء اللہ اجر ایسا ہی ملے گا جب ہمارا جسم ایکٹو تھا، اس وقت ہم صحیح ٹائم پر جلدی باجماعت نماز پڑھتے تھے، اب اکیلے ہی ہمیں اجر وہی مل جائے گا ، کیونکہ اب ہماری طاقت کم ہو گئی ہے۔
سوال: یہ بھی اعتراف کروں گا کہ اس سارے عرصے میں دوبارہ تصوف کی گود میں پناہ لینے کی کوشش کی اور یہاں پر پناہ لینے کی بھی ایک وجہ بنی، علمی کام سے دور ہونے وجہ سے کہ میں نے ان کی بیسک فلاسفی کو ٹرائی کرنے کا سوچا کہ اب اپنے دماغ پر زور نہیں دینا اور نہ خود سے کچھ کرنا ہے کیونکہ میری ہر کوشش ناکام ہوتی ہے ،تو خود کو کسی دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دو کہ وہ مجھے نظر سے، فیض سے یا جو بھی ان کا طریقہ کار ہے اس سے مجھے اس بھنور سے نکالے، وہاں ایک تو مجھے واضح طور پر دین سے مخالف چیز بھی نظر آئی اور دوسرا مجھے لگتا ہے ان کو بھی سمجھ آ گئی ہےکہ میں اپنے ذہن کو استعمال کرتا ہوں اور چھوڑ نہیں پا رہا تووہاں انہوں نے مجھے تقریبا لفٹ کروانا چھوڑ دی اور میری پراگریس وہاں کیا ہونی تھی شروع ہی نہ ہوئی۔
جواب: صوفی حضرات سے یہی غلطی ہوئی تھی کہ انہوں نے نفسیات کے کئی طریقے ایجاد کر لیے تھے لیکن اس میں بھی وہ ناکام رہے بلکہ انہوں نے دین میں بہت سی بدعتیں بھی ایجاد کیں، جس وجہ سے وہ دین کے خلاف عمل کرنے لگے تھے۔
سوال: اس دوران میں نے خود کو بہتر کرنے کے لیے ایک ایم ایس جیالوجی کے پروگرام میں اسلام آباد میں ایڈمیشن لیا اور ایک مہینے کے بعد بھاگ گیا یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا ناکامی اور مایوسی مقدر ہو گئی۔ہومیو پیتھک کے کورس میں ایڈمیشن لے لیا اور وہ بھی چھوڑ دیا۔دنیا جہان کے علوم کا مطالعہ کیا لیکن ادھورا اور چھوڑتا گیا۔اس کے پیچھے شاید میرا پس منظر بھی ہے کہ میرا خاندان بریلوی ہے اور میرا بچپن اور جوانی انہی عقائد میں گزری ہے۔
میرے سب کانشیس میں کہیں گہرا بیٹھا ہوا ہے۔ نظر کا فیض، کسی کا ڈوبتی نیّا کو بچا لینا، کوئی ایسا شخص جو سارے کام وجود اور دماغ کے درست کر دے گا، مجھے انگلی پکڑ کر چلائے گاوغیرہ اور میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ اور اللہ تعالی سے بھی تعلق بنوا دے گا۔ بس ایساشخص مجھے تلاش کرنا ہےاور جب یہ نہیں ہو پاتا یا نہیں ہو پایا تو ناکامی و مایوسی۔جب خود سے راستہ پکڑنے کی کوشش کی، تو ایک تو چلا نہیں گیا دوسرا شکوک و شبہات کی بہتات کہ میں شاید وہ کچھ جو کرنا چاہیے وہ کر نہیں پا رہا اور جتنا کرنا چاہیے وہ نہیں کر پا رہا۔
یہاں بھی میری ایک سب کونشیس کی خواہش ہے کہ میرا اللہ تعالی سے تعلق جذب کی حالت تک ہو ۔ یعنی جیسے ایک مجذوب کے بارے مانا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت حالت جذب میں ہوتا ہے خدا تعالی سے لو لگی ہوتی ہے وہ کچھ بھی کررہا ہوتا ہے تو اس کی سوئی وہیں پر ہوتی ہے۔ یا پھر عشق رسول میں جذب کی حالت میں ہوتا ہے۔
یعنی میری توقع اور خواہش ایک خاص قسم کی کیفیت کے ہر وقت طاری رہنے کی ہوتی ہے۔ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہوپاتا تو ناکامی اور مایوسی نتیجہ نکلتی ہے۔اپنے اردگرد جب سنتا ہوں کہ فلاں بہت اللہ والا بندہ ہے اور اطاعت میں ہے اور ان کی ٹرمنالوجی میں صاحب حال ہے تو مجھے اپنے نہ ہونے پر مایوسی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے اور اپنے اس حالت میں نہ ہونے کی وجہ اپنی بے عملی اور ناکارہ پن لگتا ہے۔یہ نفسیات اتنی گہری ہے کہ بار بار اس گرداب میں پھنس جاتا ہوں۔اپنی قابلیت ، اور اپنے پر اعتماد بالکل ختم ہو چکا ہے۔
جواب: جسم و ذہن میں جو کمی ہے تو یہ نارمل حالت ہے کہ عمر کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے۔ اس میں ہمیں مایوسی سے بچنا چاہیے۔ لیکن عموماً جسم میں جب کئی کیمیکلز کم ہو جاتے ہیں تو انسان میں مایوسی شروع ہوتی ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹرز نے پھر ایسی میڈیسنز تیار کی ہوئی ہیں، جن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، بہتر ہے کہ کوئی میڈیسن بھی لیں تاکہ مایوسی سے بچ جائیں۔
سوال: اس کے بعد دوسرا مسئلہ موت کا ہے وہ ایک سوہان روح بنا ہوا ہے۔ موت کی سختی، روح قبض ہونے کا پراسس اور پھر اس کا اچانک وارد ہوجانا، دماغ کا فوکس مسلسل پچھلے پندرہ بیس سال سے اسی پر ہے،تسلسل کے ساتھ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دین نے موت کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کا کہا ہے تا کہ مسلمان نیکی کی طرف مائل ہو تو یہ میرے ساتھ مایوسی اوردرد کی صورت کیوں ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے خود کی طرف توجہ اور ترقی کرنے کی خواہش ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ صحت کی طرف بھی توجہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
موت کا ذکر موت کا تذکرہ اگر لوگوں کا ایمان مکمل کرواتا ہے تو میرے اندر اس کا ایڈورس ایفیکٹ کیوں ہوتا ہے۔اچھا ایک اور کوشش اذکار کی روٹین کو اپنا کر بھی میں نے اختیار کی اور یہ روٹین میں نے ماضی میں کافی عرصے تک جاری رکھی ۔ اور مبالغہ نہیں تو یہ واحد کام تھا جو میں نے شاید مستقل مزاجی سے اور تسلسل کے ساتھ ایک دو سال کیا۔ اس کے پیچھے وہ تعلیم تھی جو میں نے سن اور پڑھ رکھی ہے کہ اس سے دلوں کو اطمینان ملتا اور حزن و ملال ختم ہوتا ہے۔
یہ روٹین اللہ تعالی کو یاد کرنے کے علاوہ اپنے علاج کے لیے بھی اور یہ سوچ کر کی کہ میری انٹرنل کیمسٹری تبدیل ہو جائے گی۔ اور مجھے بھی وہ نعمتیں مل جائیں جن کو اطمینان و سکون ، مستقل مزاجی اور دل و دماغ کا ارتکاز مل جائے لیکن بدقسمتی سے شاید میری ایفرٹ ہی ناقص ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے۔بہت سی اور باتیں بھی ہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ ای میل کافی لمبی ہو گئی اور کوئی ترتیب بھی نہیں ہے۔ شاید میں سمجھا پایا ہوں کہ نہیں۔
یہ اصل میں ڈوبتے ہوئے انسان کی کہانی ہے۔ جو شاید ڈوبنے سے پہلے ایک کوشش اور کر لینا چاہتا ہے۔ویسے کوشش کے بارے بھی ایک کنفلکٹ ہے ۔ذہن میں آتا ہے کہ کوشش اور توفیق میں کیسے فرق کروں؟ ایک وقت میں یہ بھی کیا ہے کہ اگر کوشش کو کوئی دخل نہیں اور توفیق سے ہی سب ہونا ہے اور اگر میری کوشش کا میں نے ذکر بھی نہیں کرنا اور میری کوشش اللہ کے ہاں پیش کرنا بے ادبی ہے تو پھر مجھے توفیق کا انتظار ہی کرناچاہیے اور عطا کا انتظار کرنا چاہیے وہ خود ہی کسی ذریعے سے مجھ سے بخشش والے لوگوں سے ملوا دے اور مجھے ٹھیک کر دیں۔ لیکن اس عمل پر بھی دماغ مطمئن نہیں ہوا ۔چلیں ان شا اللہ پھر اور لکھ دوں گا۔بہت زیادہ پریشان کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔
جواب:اس میں بس آپ یہی ذہن میں رکھیے کہ ہر انسان کو درمیانی عمر میں جا کر یہ کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں، کیونکہ یہ بھی ہمارا امتحان ہی چل رہا ہوتا ہے۔ اس میں ڈپریشن سے بچنے کے لیے میڈیسنز استعمال کر لیں اور جب ذہن ایکٹو ہو جائے تو یاد کر لیں کہ یہ کمزوری آتی ہے تو یہ بھی اللہ تعالی کا امتحان ہم پر جاری ہوتا ہے کہ جسم جب کام نہیں کرتا، تب بھی ہمیں کم از کم اپنے ایمان کو سنبھالنا ہی امتحان کا حصہ ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں انسان اس طرح ایکٹو نہیں رہ سکتا ہے جس طرح ہم جوانی میں ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم قبول کر لیں تو پھر ڈپریشن اور مایوسی سے جان چھٹ جاتی ہے۔
سوال: جزاک اللہ۔ مبشر بھائی بہت شکریہ مجھے روشنی کی طرف لانے کا۔مبشر بھائی۔ چند لمحے ، سال یا جو بھی وقت رہ گیا ہے اس میں اعمال و عقائد کی درستگی، کیا فوت شدہ اعمال، اور گناہوں کا کفارہ بن سکتی ہے۔ اگر اس کا دورانیہ بھی گزرے وقت کے مقابلے میں بہت کم ہو؟ بس یہ وسوسہ کہ اللہ کے ہاں بچت ہو گی کہ نہیں ہر وقت ہوتا ہے۔
جواب:آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ جتنے منٹ یا سیکنڈ ہمارے پاس باقی ہیں، یہی ہمارا امتحانی پیریڈ ہے۔ دورانیہ جتنا بھی ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا ، بلکہ جتنے سیکنڈ میں ہم نے اعمال ، عقائد اور توبہ میں گذارے ہیں، اسی میں ہمارے امتحان کا حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ ایک سیکنڈ میں ہی ہم نے جو توبہ کر لی تو پرانے تمام گناہ ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں۔ باقی جتنے منٹ، گھنٹے، دن، سال باقی ہیں، اسی میں پھر ہمارے نیک اعمال کے ایسٹس ہمیں مل جائیں گے۔ جو گناہ کیے تو اسی سیکنڈ میں توبہ کر لیں تو وہ ڈیلیٹ ہوتے جاتے ہیں۔ یہ وہ گناہ ہیں جو اللہ تعالی سے متعلق ہے۔
ہاں مخلوق کے لیے کوئی برا عمل کیا تو اس میں اللہ تعالی سے توبہ اور اس مخلوق کے مسئلے کو حل کرنا توبہ کا حصہ ہے۔ باقی وسوسہ تو ہمارے امتحان کا حصہ ہے کہ امتحان تب ہی ہو سکتا ہے۔ وسوسہ آنے کے باوجود ہم نے اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم رکھنا ہی ہمارا صحیح جواب ہے۔ اگر وسوسہ میں ہم اللہ تعالی سے دور ہو گئے تو پھر ہمارا امتحان ناکام ہو گیا۔ پوری زندگی میں ہرسیکنڈ امتحان جاری رہتا ہے۔ اب اگر ہمارے امتحان میں ایک دو سیکنڈ باقی ہیں، تو اسی میں ہمیں توبہ کر لینی چاہیے تاکہ سارے گناہوں کو ڈیلیٹ کروا دیں۔ پھر اگر مزید سیکنڈ مل گئے تو اس میں نیک عمل جاری رکھیں کہ یہی ہمارا امتحان ہے۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.