سوال نمبر1: علمائے تفسیر وحی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان کے پاس علم حاصل کرنے کے تین ہی ذرائع ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے حواس کے ذریعے کچھ مشاہدہ کر لے، دوسرا یہ کہ وہ اس مشاہدہ سے کوئی عقلی استنبات کرے۔ تیسرا یہ کہ اس کا خالق اسے وحی کے ذریعے سے کوئی بات بتا دے۔ اب چونکہ پہلے دونوں ذرائع محدود ہیں اس لئے فطری سی بات ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ دونوں ذرائع وحی کے ادراک کے لئے لازمی یا ضروری ہوں۔ اس پر سوال یہ ہے کہ یہاں لفظ ادراک سے کیا ان علماء کا موقف یہ ہے کہ وحی سے ملا علم سمجھنے کے لیے علم، مشاہدہ یا عقل کی ضرورت نہیں یا کچھ اور موقف ہے؟
جواب: ادراک سے مراد ہے ذہن میں محسوس کر لینا۔ اس کے لیے عقل بھی اہم ٹول ہے جس کے ذریعے علم ہمارے ذہن میں داخل ہوتا ہے اور پھر اسے محسوس کر کے ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ درست ہے یا غلط ہے۔ مشاہدہ کا اللہ تعالی سے تعلق ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ہمارے اندر ایسی صلاحیت ہی نہیں رکھی ہے کہ ہم اللہ تعالی کو دیکھ سکیں۔ ہاں کائناتی اشیا ء جیسے کیمیکل، پودے، جانور وغیرہ کا مشاہدہ ہم کر لیتے ہیں اوریہ بھی ایک علم کا ٹول ہے جس کے ذریعے ہماری عقل کام کرتی ہے اور پھر ذہن میں ادراک یعنی محسوس کر کے فیصلہ کر لیتے ہیں۔
یہاں یہ عرض کر دوں کہ قدیم زمانے میں فلسفہ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اللہ تعالی سے تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے تصوف کے طریقے ایجاد کیے اور پھر وہ حرکتیں کرنے لگے جس کی تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی جس میں وہ آج تک غلطی کرتے آ رہے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے بتادیا تھا کہ آپ اللہ تعالی سے ڈائرکٹ مشاہدہ اور رابطہ نہیں کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر2: عام طور پر وحی کے طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی بتایا ہے کہ وحی اللہ تعالی سے براہ راست یا بلاوا سطہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن سورہ شوری کی آیت 51 میں اللہ تعالی نے یہ واضح کیا ہے کہ کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اللہ سے براہ راست کلام کرے۔ پھر اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیسے استثناء ہے؟
جواب: صحیح فرمایا آپ نے۔ انسان اللہ تعالی سے ڈائریکٹ گفتگو اور اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اس لیے نہیں دی گئی کہ یہ زندگی امتحان کے طو رپر ہے۔ آخرت میں ضرور گفتگو ہو گی اور مشاہدہ بھی ان شاء اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اللہ تعالی کی گفتگو ڈائریکٹ نہیں ہوئی، بلکہ فرشتہ جبریل علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے ہی رابطہ ہوتا رہا۔ استثناء کے طور پر کبھی ہوا ،جیسے معراج میں ہوا تو یہ بس چند لمحوں کے لیے استثناء تھی، باقی عام معمول نہیں تھا۔
سوال نمبر3: تفاسیر میں لکھا ہوتا ہے کہ قران ازل سے ہی لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا جو اطلاقی آیات قران میں موجود ہیں وہ بھی روزِ اول سے ہی قران میں لکھی جا چکی تھیں؟ یعنی کیا یہ پہلے دن سے ہی طے تھا کہ کون کون ایمان لائے گا اور کن کن مشکلات سے گزرے گا؟
جواب: ازل سے مراد ہے اللہ تعالی کا علم۔ اللہ تعالی کے ہاں مستقبل میں جو کچھ ہونے والا ہے، سب کی ایک ایک سیکنڈ کی تفصیل موجود ہے۔ لوح محفوظ کو آپ ڈیٹا بیس قسم کی کوئی چیز سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں بیان کردہ ایمان ، اعلیٰ اخلاقیات اور شریعت وغیرہ شروع سے ہی ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی پرانی کتابوں جیسے تورات، زبور، زنجیل میں بھی وہی کچھ ہے۔ ہاں یہ فرق ضرورہے کہ جس قوم میں جو کتاب نازل ہوئی ہے، اس قوم کی صورتحال کے لحاظ سے اس میں کچھ تبصرے اور احکامات شامل کردئے گئے ہیں۔
رہا یہ کہ کون ساانسان ایمان لائے گا اور کون نہیں؟ تو اس کا اللہ تعالی کو تو علم تھا۔ اب اگر اللہ تعالی چاہتا تو جو ایمان نہ لائے گا، اسے پیدا ہی نہ کرتا۔ لیکن اللہ تعالی نے اسے پریکٹیکل پیدا اس لیے کیا کہ وہ سچ مچ امتحان کے ذریعے سے سامنے آ جائے اور ہر انسان کی پرفارمنس کے لحاظ سے انہیں جنت یا جہنم میں داخل کرے۔ ورنہ اگر بغیر پریکٹیکل کے جنت یا جہنم میں داخل کیا جاتا تو پھر یہ انصاف نہ ہوتا۔ عدل تب ہی ہوتا ہے جب پریکٹیکل عمل کے ذریعے انسان کی سزا یا جزا کا فیصلہ ہو سکے۔
سوال نمبر 4: میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہونے کے بعد وحی کا سلسلہ ۳ سال کے لئے منقطع ہو گیا۔ اس کی کیا حکمت تھی؟ اس سے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شائبہ ہونا عین ممکن تھا کہ شاید انہیں کوئی ابہام ہوا تھا یا ایک خیال تھا جو آیا اور چلا گیا۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس عرصہ میں تبلیغ کا کام بھی کرتے رہے تھے؟
جواب: یہ ان مصنف صاحب کی غلط فہمی ہے۔ وحی کا سلسلہ نبوت کے ساتھ مسلسل جاری رہا۔ صرف اتنا ہو اہے کہ پہلے ۳ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہی حکم تھا کہ آپ اپنے قریب ترین دوست ، مخلص رشتے داروں اور مخلص افراد تک ہی دعوت پہنچائیں۔ اس کی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں سورۃ الملک 67 سے لے کر سورۃ جن 72 تک ہی وحی پہنچی اور جن مخلص لوگوں تک دین پہنچایا گیا وہ سب ایمان لے آئے۔ اس کے بعد پھر سورۃ المزمل 73 اور سورۃ المدثر 74 سے حکم دیا کہ تمام لیڈر شپ اور دیگر قبائل تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیں۔ پھر اس سورۃ سے لے کر آخر تک یہی سلسلہ ہے اور آخری سورۃ توبہ 9 ہے ۔
ابہام کی جو بات کسی نے کہی ہے ،وہ صرف حقیقت میں اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجب نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو آپ کو دل میں یہ ٹینشن ہوئی کہ کس طرح میں تمام مشرکین تک دعوت پہنچا ؤں گا۔ اللہ تعالی نے اس ٹینشن کا جواب سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر میں دے کر ساری ٹینشن کو ختم کر دیا کہ یہ سب ذمہ داری اللہ تعالی کے حضور ہے۔ اس لیے آپ پر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اب پوری نبوت کے سلسلے 609-632 تک کوئی شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل نہیں کر سکا۔ لوگوں نے دشمنی کی، نفسیاتی تکالیف دے سکے اور زخمی کرنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔ لیکن سب کچھ ناکام رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن مکمل ہو کر رہا۔
سوال نمبر 5: کیا سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کی تعین کرنا کوئی دینی تقاضا یا یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نصیحت ہے؟ کیا اس تعین سے معنی و مفہوم میں بھی کوئی فرق پڑتا ہے؟ اور کیا اہل علم کے درمیان ان کی تعین میں کوئی اختلاف بھی پایا جاتا ہے؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جن میں ہمیں ایمان، اخلاقیات اور شریعت کے احکامات موجود ملتے ہیں اور ان میں امت مسلمہ کی تربیت ہے۔ مکی سورتوں میں ایمان اور اخلاقیات ہیں۔ اس کے ساتھ مشرکین نے جو سوالات پیدا کیے تھے ان کا جواب ہے۔ اس میں موجودہ امت مسلمہ کے لیے ایمان اور اخلاقیات ہی کی آیات ہیں جن پر ہم عمل کر سکتے ہیں۔ مدنی سورتوں میں زیادہ تفصیل سے شریعت کے احکامات ہیں ان پر بھی ہم پریکٹیکل عمل کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جن آیات کا تعلق حکومت سے ہے، ان میں مسلمانوں کی حکومت کوعمل کرنا لازمی ہے، جبکہ وہ عام آدمی کے متعلقہ نہیں ہے۔ مثلاً مجرمین کے لئے عدالت میں سزا کے احکامات ہیں ظاہر ہے کہ ان پر صرف حکومت ہی عمل کر سکتی ہے، ہم نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم کم از کم اتنا کر سکتے ہیں کہ اپنی حکومت کو سمجھاتے رہیں اور بس۔
سوال نمبر6: معارف القران کے مقدمہ میں مصنف بتاتے ہیں کہ شروع میں سات قراعتیں نازل ہوئی تھیں۔ لفظ نازل سے معلوم ہوتا ہے کہ جبرائیل علیہ سلام یا تو بیک وقت ایک سے زیادہ قراعتوں میں قران پہنچاتے تھے یا پھر ہر بار کسی مختلف قرات میں پیغام لاتے تھے۔ ایسا کہنے میں تو بہت سادہ لگتا ہے، لیکن ایسا ممکن کیسے ہے کہ ایک ہی پیغام رساں، ایک ہی ذات کا پیغام لائے اور ہر بار کسی نئی نوعیت یا زبان کے ساتھ؟ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جبرائیل علیہ سلام ہر سال دورہ قران بھی کرتے تھے۔ یہاں بھی بنیادی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جبرائیل تو کسی ایک قرات میں پڑھتے ہوں گے، باقی قراعتیں وجود میں ہی کون لاتا تھا؟ پڑھنے کے انداذ تو مختلف ہوتے ہی ہیں، لیکن واحد جمع کا فرق ہونا، زمانہ کا فرق ہونا، الفاظوں کا آگے پیچھے ہونا کیسے ممکن ہے؟
یہاں پر تفہیم القرآن کے مصنف صاحب سے غلط فہمی ہوئی ہے۔ انہی کے استاذ فراہی صاحب نے یہ بتا دیا ہے کہ یہاں پر سات قراعتیں وہ چیپٹرز ہیں جو مکی سورت سے شروع ہو کر مدنی سورت پر مکمل ہوتا ہے اور ہر چیپٹر میں ایک پوری طرح وضاحت ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:
1st Chapter: 1-5 Fatiha to Maidah
2nd Chapter: 6-9
3rd Chapter: 10-24
4 Chapter: 25-33
5 Chapter: 34-49
6 Chapter: 50-66
7 Chapter: 67-114
سوال نمبر7: حفاظت قرآن کے روایات میں آتا ہے کہ سورہ براۃ کی ایک آیت صرف ایک ہی صحابی کے پاس لکھی ہوئی ملی لیکن اس کے علاوہ تمام صحابہ کو اس کے جزو قران ہونے میں کوئی ابہام نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے پاس لکھے ہونے سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت تمام صحابہ کے حافظہ میں محفوظ تھی، تو صحابہ کی طرف سے پھر ایک کمزور ماخذ کو ایک مضبوط ماخذ پر ترجیح کیوں دی جا رہی تھی؟
جواب: یہ بات بالکل صحیح ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کلیئر تھا کہ قرآن مجید کیا ہےاور ان میں سے چند نے حفظ بھی کیا تھا۔ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے پاس جو یاد نہ تھا، اتنا حصہ لکھ بھی لیا تھا۔ اس کی اصل شکل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرتب کروا دی تھی اور اسے باقاعدہ کتاب کی شکل میں آخری سال میں لکھوا کر سنبھالا تھا۔ اسی کی کاپی عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت نے ہزاروں کاپیز بنا کر ہر شہر میں پہنچا دیا تھا کہ اسی کے مطابق ہی آپ پڑھا کریں۔ ہر شہر میں پھر قرآنی کالج بھی وجود میں آئے جو کہ مسجد میں ہی ہوتے تھے اور اگلی نسل کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی پڑھاتے رہے اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ سب سے مضبوط ماخذ یہی تھا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھوا دیا تھا۔ جن لوگوں سے لکھوایا تھا تو انہیں یہ بھی حکم دیا گیاتھا کہ اس میں کوئی میری بات یعنی حدیث بھی نہ لکھنا۔
اس ماخذ کے ساتھ دوسرا بڑا ثبوت یہ تھا کہ سینکڑوں حفاظ نے یاد بھی کرلیا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے ہی اگلی نسلوں اور دیگر ممالک میں جاکر پڑھایا بھی تھا۔ اس سے زیادہ پھر اور کیا ثبوت درکار ہو سکتا ہے؟
سوال نمبر8: جن نسخوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سیدنا ابو بکر رض اور سیدنا عثمان رض کے دور میں تیار کیے گئے، کیا وہ اب بھی موجود ہیں یا ان صحائف کا وجود اور ان کی خصوصیات کسی اخبار احاد ہی سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں؟
جواب: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سٹینڈرڈ قرآن کے جو کوئی کاغذ کمزور ہو گئے تھے تو انہیں ٹھیک کر دیا تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کی کاپیز بنوا کر جب تمام شہروں تک پہنچا دیں تھیں اور وہ آج تک مکمل ایک ہی شکل میں موجود ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت افغانستان سے لے کر لیبیا تک پھیل گئی تھی اور یہاں کے ہر شہر تک قرآن پہنچ گیا تھا اور ساتھ ہی حفاظ وہ اسکالرز تھے جو قرآن کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور وہی پڑھاتے تھے۔
سوال نمبر9: اختلافِ قرآتِ قرآن کیا مسئلہ ہے ،بعض لوگ اس مسئلے کو فتنہ قرار دیتے ہیں؟
جواب: آپ نے دلچسپ ٹاپک کا انتخاب کیا ہے۔ قرآن مجید میں خود اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ یہ قرآن عربی مبین میں نازل کیا ہے۔ مبین کا معنی یہ ہے کہ اتنی کلیئر عربی زبان میں ہے کہ کوئی عربی انسان اس میں اختلاف نہیں کر سکتا ہے ۔ قرآت قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اتنا فرق ہو سکتا تھا جب ہزاروں کلومیٹر دور عرب لوگ ایمان لائے تو ان کے لہجے کا فرق ہی ہو سکتا تھا لیکن معنی میں کوئی فرق ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پنجابی، سندھی، یو پی وغیرہ کے لوگ اردو میں کچھ لہجہ ہی تبدیل کرتے ہیں اور بس۔ یہی شکل پنجابی کی ہے کہ ہر 500 کلومیٹر بعد لہجے کا فرق ہو جاتا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ شروع سے آخر تک احادیث پڑھ لیجیے تو اس میں بھی کوئی قرآت کے اختلافات کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
اب یہ مسئلہ کب پیدا ہوا؟ اس کے لیے آپ یہی دیکھ سکتے ہیں کہ جب غیر عرب ممالک میں لوگ ایمان لائے تو اپنی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو انہیں پڑھا گئے اور فوت ہو گئے۔ اس کے صدی بعد جا کر تیسری چوتھی نسل میں جا کر قرآت کا فرق آیا۔ اس میں بھی صرف ایک ہی قرآت ہے جس میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ یہی کتاب اور اسی کا لہجہ ہے جسے آپ یو ٹیوب میں مختلف علاقے کے مسلمانوں کی تلاوت سن سکتے ہیں۔ باقی سب قرآتوں میں تواتر ہے ہی نہیں۔ اسے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگلی نسلوں کے بعد جا کر مختلف علاقے کے لوگوں میں لہجہ اور پھر آ گے جا کر چھوٹا موٹا فرق بھی معنی میں پیدا ہوا لیکن وہ بھی کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ اس سے زیادہ اختلافِ قرآت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تفصیل آپ یہاں سے سن سکتے ہیں۔
https://ghamidi.tv/articles/differences-in-qurans-recitation-1012
https://ghamidi.tv/videos/differences-in-recitation-according-to-the-quran-4052
اس کے برعکس جو حضرات اختلاف قرآت کو مانتے ہیں، ان سے یہ فرما دیجیے کہ پلیز اس کے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثابت صحیح حدیث ہی ارشاد فرما دیجیے۔ اسی طرح تواتر کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ارشاد پیش فرما دیجیے اور اس روایت کی کتاب کا نام اور اس روایت کا نمبر بھی عنایت فرما دیجیے۔ اگر بالفرض کچھ مل گیا تو آپ خود علوم الحدیث کی بنیاد پر چیک کر سکتے ہیں کہ ایسا کچھ ہے یا نہیں؟ حدیث ریسرچ کے لیکچرز تو آپ سن چکے ہوں گے، ایسی کوئی ایک حدیث بھی مل جائے تو اس میں آپ ریسرچ کر لیجیے۔ ان لنکس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
سوال نمبر10: عمومی طور پر بعض استشراق زدہ اور بعض الحاد کے علمبردار یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اگر اسلام کا نظام اتنا بہترین ہے جتنا مسلمان دعوی کرتے ہیں تو پھر یہ زیادہ عرصہ چل کیوں نہیں پایا ۔اتنی جلدی اپنی افادیت کیوں کھو گیا؟اس کے مقابلے میں کیمونزم وغیرہ کا دورانیہ زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس اعتراض کاجواب بعض لوگ جیسے مودودی صاحب وغیرہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مورد الزام ٹھہرا دیتےہیں اور اس معاملے میں افراط وتفریط کرجاتے ہیں۔جو کہ اسلاف کا منہج نہیں ہے ۔آپ اس اعتراض کا جائزہ کس تنقیدی پہلو سے لیں گے اور مذکورہ بالا جواب سے دامن ِعظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کس تحقیقی معیار پر داغدار ہونےسے بچائیں گے؟
جواب: اس میں ملحدین نے یہی طنز کیا ہے کہ اسلام پھر چلا کیوں نہیں؟ انہوں نے اس پر غور نہیں فرمایا کہ اسلام ہے کیا چیز؟ یہ اللہ تعالی کے اصول اور شریعت کا نام ہے۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حکومت اس کے عین مطابق ہی عمل کرتی رہی۔ پھر اگلی نسل میں بنو امیہ کی حکومت بن گئی تو کسی حد تک وہ اسلام پر عمل کرتے رہے اور کچھ انحرافات بھی ہوئے۔ پھر اگلی دو نسلوں میں جو حکمران بنتے رہے، کبھی اسلام پر صحیح طرح عمل کرتے رہے اور کبھی نہیں کرتے رہے۔ انفرادی طور پر مسلمانوں میں ہر دور میں اچھے لوگ گزرتے رہے ہیں اور آج تک جاری ہیں۔
جس طرح کا اصول اور اخلاقیات ہیں، ان کا استعمال کرنے والا بھی انسان ہے جو صحیح بھی کر سکتے ہیں اور غلط بھی۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ہے کہ شروع میں تورات کے عین مطابق عمل کرتے رہے اور بعد میں انحرافات کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے انسان کو صحیح یا برائی کی آپشن دے رکھی ہے کہ یہی تو امتحان ہے۔ اب ہر انسان انہی اعلیٰ اصولوں اور اخلاقیات پر عمل بھی کرتے ہیں اور کبھی برائیاں بھی کر لیتے ہیں۔
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو ایک سامپل کے طور پر قیامت تک ایسا کر دیا ہے کہ اگر وہ پوری امت کی اکثریت کے اعتبار سے نیکی کریں گے، تو انہیں اسی زندگی میں جزا ملتی ہے اور اگر اجتماعی برائیاں کریں اور لیڈر شپ بھی برائیاں شروع کردے تو سب کو پوری طرح سزا بھی ملتی ہے۔ مسلمانوں اور بنی اسرائیل دونوں کی تاریخ ایک ہی ہے۔
اس کے لیے آپ کسی بھی اچھے اصول کو انتخاب کر لیں۔ پھر پر عمل تو انسان ہی نے کرنا ہے اور وہ اس اصول پر عمل بھی کرتا ہے اور کبھی اس سے انحراف بھی کرلیتا ہے۔ ابھی آپ کارل مارکس کے کمیونزم کو دیکھیں تو دیکھنے میں اچھا اصول لگتا ہے۔ جب عمل میں آیا تو روس اور چین میں نفسیاتی غلامی، جبر اور تشدد ہی کی تاریخ بنی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور اچھا اصول دیکھ لیجیے، آپ کو سب کی تاریخ میں یہی نظر آئے گا کہ کبھی لیڈر شپ نے اس اچھے اصول پر عمل بھی کیا اور کبھی انحراف بھی کیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مودودی صاحب نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں ارشاد فرمایا ہے، تو ان کے تمام جوابات پر میں نے کتاب لکھ دی ہے۔ اس میں پھر پوری طرح ایک ایک روایت کو لے کر تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ملوکیت جب بنی ہے، تو اس میں سینکڑوں جعلی روایات پیدا ہوئی ہیں جن کی بنا پر لوگ جھوٹ کے ساتھ پرپیگنڈا کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو چاہیے کہ علوم الحدیث کا مطالعہ پہلے کر لیجیے کہ اس میں وہ طریقے ہیں جس میں ہم جعلی اور قابل اعتماد رپورٹس کو چیک کر سکتے ہیں۔ مودودی صاحب نے چونکہ اس پر غور نہیں فرمایا ، اگر وہ علوم الحدیث کو اپلائی کر کے روایات کو چیک کر کے کتاب لکھتے تو پھر اس کی شکل مختلف نظر آ تی۔
پھر آپ میری کتاب پڑھ لیجیے گا اور دیکھیے گا کہ اس میں میں نے انہی علوم االحدیث کو اپلائی کر کے دکھایا ہے اور کوئی کمی ہے تو بتا دیجیے گا تاکہ اسے ٹھیک کر لوں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com