سوال: کیسے ہیں آپ طبیعت وغیرہ بہت دنوں بعد بات کررہا ہوں۔ کیا حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کی شادی ہوئی تھی کیا کیا اسکی کوئ مضبوط دلیل ہے کیا؟
محمد جعفر، گوکک، کارناٹک، انڈیا
جواب: حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی زلیخا صاحبہ سے شادی کا قرآن و حدیث میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اس لیے ہم اس میں کچھ بھی کنفرم نہیں کر سکتے ہیں۔ جن حضرات نے اپنی تفاسیر میں لکھ دیا ہے، اصل میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہودی اسکالرز سے سن کر لکھا ہے۔ اب یہودی اسکالرز کے بارے میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ کنفرم نہ ہو تو پھر اسے نہ ماننا چاہیے اور نہ ہی اس کا انکار کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل علماء نے حدیث ریسرچ کر کام ہی نہیں کیا جیسا کہ محدثین نے جانچ پڑتال کا طریقہ اختیار کیا تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ لاجیکل لگ سکتا ہے کہ زلیخا صاحبہ نے توبہ کر لی ہو تو پھر اس میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے شادی کر لی ہو۔ بس یہ محض تاریخی کہانی ہی ہے جسے بنی اسرائیل کے کسی اسکالر نے لکھی ہو لیکن اس کا ثبوت نہیں ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
سوال: اگر میاں بیوی میں 19 سال سے ازدواجی رشتہ نہیں ہے اب 19 سال بعد اس لڑکی کیلئے ایک رشتہ آتا ہے اب محض خانہ پوری کیلئے اب خلع کی پیپر پر اسکی دستخط لیتے ہیں تو کیا اس عورت کو اب بھی عدت گزارنی ہوگی حالانکہ خاوند اور بیوی الگ الگ شہر میں ہی رہتے ہیں ان دونیں کی ملاقات بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی ازدواجی تعلقات ہی رہے۔
جواب: کافی عرصے بعد آپ نے بہت دلچسپ سوال بھیجا ہے۔ میاں بیوی میں قانونی نکاح تو ہوا ہے۔ اب خاتون خلع کر لیتی ہیں تو پھر وہ صرف تین ماہ تک ہی انتظار کرلیں تاکہ عدت پوری ہو جائے۔ عدت کا اصل مقصد یہی ہے کہ قانونی طور پر ثبوت مل جائے کہ اب خاتون سے بچہ پیدا ہو جائے گا، تو پھر کنفرم رہے گا کہ یہ بچہ پہلے شوہر کا بیٹا نہیں ہو سکتا ہے۔
خلع کرنے کے بعد خاتون فوراً دوسری شادی کر لیں گی اور 9 ماہ میں بچہ پیدا ہو جائے گا، تو پھر یہ مقدمہ پیدا ہو سکتا ہے کہ پہلا شوہر کہے کہ میرا بیٹا ہے اور دوسرا شوہر کہے کہ میرا ہے۔ اس طرح آپس میں لڑائی جھگڑا اور عدالتی مقدمے جاری ہو جائیں گے۔اس میں جو بھی رزلٹ ہوا تو تب بھی اس بچے کو مستقبل میں کنفیوژن رہے گی اور جب وہ جوان ہو گا تو اس میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ا س لیے مستقبل کے کسی بھی لڑائیوں کو بچانے کے لیے عدت ہی صحیح طریقہ ہے ۔ اس میں تین پیریڈ میں زیادہ ٹائم بھی نہیں ہوتا ہے اور اس میں کوئی ایشو بھی نہیں ہے۔ اب تین ماہ بعد وہ شادی کر لیں گے تو بالفرض 9 ماہ بعد بچہ پیدا ہو جائے تو اس میں کوئی کنفیوژن نہیں رہے گی۔
اس سے ملتا جلتا معاملہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ میاں بیوی تھے اور ایک ٹی وی ڈرامہ میں بھی وہ میاں بیوی بنے۔ اس ڈرامہ کے اندر میاں نے طلاق کر دی۔ اب یہ حقیقت میں کوئی طلاق نہیں تھی لیکن ایک مفتی صاحب نے اسی رات میں اعلان کر دیا کہ یہ سچ مچ طلاق ہو گئی ہے اور وہ ہیرو ہیروئن حقیقت میں علیحدہ ہو جائیں۔ ان کا فتوی ٹی وی اور اخبارات میں جاری ہوا اور ایسا ایشو مشہور ہو گیا کہ ان کا ڈرامہ ہٹ ہو گیا تھا۔ اس سے کچھ عرصے بعد انڈیا سے UP یا شاید دہلی کے ایک بڑے عالم لاہور تشریف لائے تھے اور میں ان سے ملنے گیا تھا۔ اس وقت ایک صاحب نے یہی صورتحال بیان کی۔
دہلی کے ان عالم بڑی دیر تک ہنستے رہے لیکن ان کی تہذیب میں ہنسنے کا طریقہ بھی یہ تھا کہ ان کا منہ کھلا نہ ہو سکے اور دانت سامنے نہ آ سکے۔ کافی مشکل سے وہ ہنسی کو ختم کر چکے تو ارشاد فرمایا کہ ان مفتی صاحب کے سارے فتوے قابل اعتماد نہیں ہوں گے کہ وہ کیا ڈرامہ دیکھتے تھے؟
اس سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پرانی تقلید کے ساتھ ایسے اثرات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com