سوال: السلام علیکم سر۔ کچھ وسوسے آتے ہیں۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے کیا مراد ہے؟ یہ وسوسہ آتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کیسے ہو گئی؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بیٹی
اللہ تعالی آپ کو امتحانات میں کامیاب فرمائے۔ آپ نے جو وسوسے کا فرمایا ہے تو یہ نارمل حالت ہے اور ہر انسان کو وسوسے آتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ اس میں پوائنٹ نوٹ کر لیں کہ کس طرح کے وسوسے آتے ہیں۔ اس کی مثالیں عرض کرتا ہوں:
مولوی صاحب نے کوئی بات کہی اور اسے دین کہہ دیا لیکن آپ کو یہ بات غلط لگ رہی ہے۔ یہ وسوسہ نہیں ہے بلکہ دو وجہ ہو سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ہمیں بات سمجھ نہیں آئی، اس لیے غلط لگ رہا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم اس موضوع پر پڑھ لیں تو واضح ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مولوی صاحب کو صحیح معلوم نہیں تھا اور وہ کسی تعصب یا فرقے کی وجہ سے کوئی بات کہہ دی ہے۔ اس میں ہمیں کلیئر آ جانا چاہیے کہ غلطی مولوی صاحب کی ہے اور دین میں یہ حکم ہی نہیں ہے۔
وسوسہ ایسا بھی آتا ہے جس میں ڈر لگ رہا ہوتا ہے جیسے موت آ جائے گی، ایکسڈنٹ ہو جائے گا یا ہم جہنم میں جائیں گے وغیرہ۔ اس میں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لیے ٹائم لائن طے کی ہوئی ہے۔ ہمارا فوکس صرف یہی ہونا چاہیے کہ جب تک ہماری ٹائم لائن ہے، اس میں دین کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے گارنٹی کر دی ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کو صرف اس کی طاقت کے لحاظ سے ہی امتحان ہے اور غلطی معاف کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کر دیا کہ جو انسان صحیح سمجھنے کے لیے اجتہاد (کوشش) کرتا ہے تو اس میں غلطی بھی ہو تو اس اجتہاد میں اسے اجر مل جاتا ہے۔
اب آپ اپنا تجزیہ کیجیے اور مثالیں بتا دیں کہ وسوسے کیا آتے ہیں؟ پھر میں اس کا حل آپ کو بتا دیتا ہوں۔
وسوے پر آپ نے دلچسپ بتایا ہے۔ یہ وسوسہ نہیں ہے بلکہ نارمل حالت ہے کیونکہ مولویوں نے کئی جعلی کہانیاں مسجدوں میں سناتے ہیں، اس لیے پڑھے لکھے لڑکوں اور لڑکیوں میں یہی سوال آ جاتے ہیں۔ اب جواب عرض کرتا ہوں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جو سوال ہے، وہ سب لوگوں کو آتا ہے کیونکہ مولویوں نے اس میں جعلی کہانیاں سنا دی ہیں۔ کسی احمق آدمی نے کہانی میں لکھ دیا اور مولوی حضرات اس کتاب کو چیک کیے بغیر ہی پڑھ کر تقریر سنانے لگے۔ وہ کہانی یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پانچ سال میں شادی ہو گئی تھی۔ یہ بالکل احمقانہ خیال کسی نے اپنی کتاب میں لکھ دیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف منفی شخصیت سامنے آ جائے اور لوگ دین سے دور ہو جائیں۔ اس طرح کی بہت سی کہانیاں لکھی گئیں اور میں نے ان جعلی کہانیوں کی غلطی کو واضح کر دیا ہے۔ اس میں میری کتاب حاضر ہے۔
اب یہ عرض کرتا ہوں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کس طرح ہوئی۔ ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مکہ کے ایک لڑکے سے نکاح کر دیا تھا اور رخصتی ابھی کرنی تھی۔ اس دوران جب اس لڑکے کے والدین کو معلوم ہوا کہ ابوبکر اور عائشہ رضی اللہ عنہما شرک کو نہیں مانتے ہیں تو رخصتی سے پہلے ہی طلاق کر دی۔ اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 18 سال کی ہو چکی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی بڑی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر 28 سال کی تھیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے 10 سال چھوٹی تھیں۔
اس وقت والدین کو مشکل پیدا ہوئی۔ اسی موقع پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی غم میں تھے اور چھوٹی بچیاں بھی تھیں۔ اس وقت ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو اب شادی کر لینی چاہیے تاکہ بچیوں کی تربیت ہو سکے۔ پھر انہوں نے پیغام بھی پہنچایا کہ ایک بیوہ خاتون سودہ رضی اللہ عنہا ہیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی شادی کر لیجیے کہ وہ مشکلات میں ہیں۔
اب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بچپن کی دوستی تھی اور دین کی وجہ سے ان کی بیٹی کی طلاق ہو چکی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کر دی کیونکہ وہ شدید مشکلات میں تھے۔ اسی موقع پر مکہ والوں نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا لیکن اللہ تعالی نے اہل مدینہ کو ایمان دے دیا تھا۔ اس لیے آپ نے ہجرت کی اور مدینہ منورہ میں رخصتی کر دی۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اس وجہ سے شادی بھی کروائی کہ سب سے بڑا علمی ذوق رکھنے والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سب سے زیادہ احادیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پڑھاتی رہی ہیں۔
مدینہ منورہ میں ایک بڑا کرائسس کا سلسلہ آیا کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی بڑی تعداد تھی۔ اسے اللہ تعالی نے موضوع بنایا اور سورۃ النور 24 اور سورۃ الاحزاب 33 نازل کیں۔ اس وقت منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی کو ٹارگٹ کیا تھا او روہ جعلی پراپیگنڈا کرنے لگے۔ اس کا جواب اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا۔ آپ یہ دونوں سورتوں کا مطالعہ کر لیجیے۔
یہ آپ کو نظر آئے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد منافقین نے بغاوت کی۔ اس بغاوت میں عثمان، علی، طلحہ، زبیر، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو شہید کر دیا۔ انہوں نے پراپیگنڈا کے ذریعے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف بھی بہت سی جعلی کہانیاں سناتے رہے جو کتابوں میں لکھی گئی ہیں۔ اسے آپ پڑھ سکتی ہیں اور اس میں میں نے لیکچرز بھی کیے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان باغیوں کو ختم کرنے کے لیے ایکشن بھی کیا تھا جب ان باغیوں نے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ اس وقت پھر سیدہ عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے ان باغیوں کا قلع قمع کرنے لگے اور لشکر لے کر عراق کے شہر بصرہ میں ایسا کر دیا۔
اس وقت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے تھے اور انہیں نظر آ رہا تھا کہ اس ایکشن سے قلع قمع نہیں ہو گا بلکہ 1000 باغی قتل ہوئے تو 10,000 ہو جائیں گے۔ چنانچہ آپ مدینہ منورہ سے نکل کر عراق گئے اور پھر طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کو سمجھایا۔ باغیوں نے رات میں یہ کیا کہ ایک طرف طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم پر حملہ کیا اور دوسری طرح علی رضی اللہ عنہ کے لشکر پر بھی حملہ کر دیا تاکہ رات میں آپس میں لڑائیاں لگ سکیں۔ اسی کو جنگ جمل کہا جاتا ہے اور اس میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما بغیر جنگ کے شہید ہو گئے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر بیٹھی تھیں اور باغیوں کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن باغیوں نے ٹارگٹ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کر دیا تھا۔ اس وقت علی رضی اللہ عنہ نے شاندار اسٹریٹیجی اختیار کی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کو فرمایا کہ آپ سیدہ کو اونٹ سے نکال لیں تاکہ وہ بچ سکیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جنگ ختم ہوئی۔ تفصیل آپ اس کتاب اور لیکچرز میں پڑھ سکتی ہیں۔ ابھی مزید جو وسوسہ بھی آیا تو آپ ضرور مجھے بھیجیے گا تاکہ وضاحت کرتا رہوں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com