سوال: پارہ نمبر 2 آیت نمبر ا۔ قبلے کی تبدیلی کا حکم؟ خانہ کعبہ ہی قبلہ تھا لیکن یہودی نے خود سے بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا؟؟؟
صدف منیر
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بیٹی
پلیز آیت کا نمبر پارہ کے حساب سے نہیں بلکہ سورت کے حساب سے کیا کریں۔ جیسے یہ آیت 2:141 ہے جس میں آپ نے بیان کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے ہاں تو قبلہ تو مختلف ٹائم میں رہا ہے۔ جیسے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام 1200 قبل مسیح نے جب ان کی تربیت کی تھی تو انہیں مصر کے گھر کو قبلہ بنا دیا تھا۔ اس کے بعد تورات کے تابوک کو قبلہ قرار دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو جب فلسطین میں فتح مل گئی تو حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام نے 1000قبل مسیح میں یروشلم میں مسجد بنائی جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے او راسی کو مسجد اقصی بھی کہا جاتا ہے۔
بنی اسماعیل کے لیے قبلہ کعبہ 2000BC میں بنایا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ مکرمہ میں یہی تھا۔ اس کے بعد جب آپ نے ہجرت کی اور مدینہ منورہ آ گئے تو اس وقت اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتحان کیا کہ وہ کیا قوم پرستی کی طرف رہتے ہیں یا پھر اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ سب نے اللہ تعالی کے حکم سے مسجد اقصی کو قبلہ بنا دیا۔ اس میں کچھ ماہ ہی گزرے اور اس کے بعد انہیں دوبارہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ ہی کو بنا دیا تاکہ بنی اسرائیل پر بھی امتحان ہو جائے۔ اس کے لیے آپ کو دلچسپی ہو گی کہ آپ مدینہ سے دونوں قبلے گوگل میپ میں دیکھ سکتی ہیں۔
اگر تو انہوں نے تحریف کی ہوتی تو پھر اللہ تعالی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ماہ کے لیے قبلہ نہ بنانے دیتا۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما الصلوۃ والسلام کی تیار کردہ مسجد اقصی کو انہوں نے قبلہ بنایا تھا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کر رہے ہیں جب اللہ پاک نے ان کو حکم دیا کہ آپ بیت اللہ کی تعمیر کریں کریں اور اس کو پاک صاف کریں ۔ ڈسکشن یہ چل رہی ہے ہر زمانے میں بیت اللہ ہی قبلہ رہا ہے ؟ یہودی قوم نے جو بیت المقدس کو قبلہ بنایا وہ اللہ کے حکم سے بنایا ان لوگوں نے خود تحریف کی؟
آپ کے لیکچرمیں بھی موجود ہے کہ یہودی قوم نے خود تحریف کی قبلہ بارے میں؟
جواب: قرآن مجید میں تحریف بنی اسرائیل کے ہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ ایک فرقہ نے مسجد اقصی کے مشرقی حصے کو قبلہ بنا دیا اور دوسرے نے مغربی حصے کو۔ اس کی وجہ یہ تھی مشرقی حصے میں سیدہ مریم رضی اللہ عنہا عبادت کرتی تھیں، عیسائیوں نے اسی کو قبلہ بنا دیا۔ یہودیوں میں تعصب تھا تو انہوں نے مغربی حصے کو بنا دیا۔ یہ فرق تو بس مسجد اقصی کے اندر ہی ہو سکتا تھا، باقی دور علاقے میں فرق نہیں پڑتا لیکن انہوں نے بس ٹائٹل پر فوکس کر دیا۔ اللہ تعالی نے اسی پر تنقید کی ہے کہ دونوں فرقوں نے تعصب کی حرکت کیا بنائی تھی ۔ اب آپ اس تصویر کو دیکھ لیجیے۔
سوال: لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے تو قبیلہ بیت اللہ ہی رہا ہے۔
جواب: حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا قبیلہ تو عراق میں رہتا تھا اور وہاں آپ نے اپنے قبیلے اور بادشاہ نمرود کو دعوت پہنچائی۔ انہوں نے نہیں مانا تو اللہ تعالی کے حکم سے ہجرت کر کے چلے گئے۔ ان کے اپنے قبیلے کو اللہ تعالی کی سزا آ گئی اور آج کل بھی عراق اور ترکی میں ان کے آثار موجود ہیں۔
اللہ تعالی نے دو بیٹے انہیں عطا کیے اور دونوں نبی بنے، اسماعیل اور اسحاق علیہما الصلوۃ والسلام۔ حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا نیا شہر بنایا جسے مکہ مکرمہ کہتے ہیں۔ یہیں پر مسجد الحرام بنا دیا گیا۔ دوسری طرف حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کو فلسطین میں سیٹل کر دیا گیا۔ دونوں نے اپنے علاقے میں دعوت پہنچاتے رہے۔ ان دونوں کی نسل سے دو قبیلے بن گئے۔ حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت زیادہ پھیلی اور ان کا اپنا ٹائٹل اسرائیل تھا یعنی اللہ کا بندہ۔ اس طرح ان کے قبیلے کو بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی شادی عرب کے قبیلے میں ہوئی اور ان کی دعوت پورے عرب قبائل میں پھیل گئی۔ ان میں سے جو لوگ مکہ مکرمہ میں رہنے لگے تو ان کا ٹائٹل قریش ہے۔ اسی قریش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com