سوال: جن اسلاف سے ایسے فتوے ملتے ہیں جن کی بنیاد جعلی احادیث ہیں جبکہ ان کے فتوے یا فیصلے قرآن مجید کے خلاف ہیں مگر انہوں نے کسی موضوع یا ضعیف حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ سنادیا ، یا لکھ دیا اور ان کے شاگردوں نے بھی اس فتوے کو مان کر پھیلا دیا اور استاد کی شخصیت کے سحر سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھی ان احادیث کی تحقیقات نہ کیں، تو ایسی صورت میں مجرم کون ہیں؟
عبدالمتین، کراچی
جواب: اس میں غلطیاں یہی ہیں کہ کسی فقیہ عالم نے ضعیف یا جعلی احادیث یا غیر عقلی فلسفہ کی بنیاد پر کچھ کہہ دیا ہے۔ شاگردوں کی غلطیاں یہی ہیں کہ وہ تقلید کے اصول پر اپنے استاذ کی غلطی پر غور و فکر کیے بغیر ہی شخصیت پرستی کرلی گئی ہے۔ ان سب کو غلطی ہی کہنا چاہیے اور کسی کو مجرم نہیں کہنا چاہیے۔ اگر وہ صاحب ہمارے زمانے میں زندہ ہوتے تو پھر ہم ان سے پوچھ کر دیکھ لیتے کہ وہ تعصب کی بنیاد پر مجرم ہیں یا نہیں۔ جو پرانے زمانے کے علماء کی غلطیاں ہیں تو انہیں بس غلطی کی حد تک ہی کہنا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلاف کے جج حضرات میں ایسی غلطیاں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنے علاقے کے کلچر کے لحاظ سے فیصلے کیے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ موجودہ زمانے کا کلچر مختلف ہو گیا ہے، تو پھر اس لحاظ سے اس کو ضرور چیک کرنا چاہیے۔
سوال: کیا ان استاد اور شاگردوں پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا؟ جب کہ یہی استاد اور شاگرد اپنے دور کے لوگوں پر فتوے لگاتے رہے ہوں؟
جواب: یہ وہی شخصیت پرستی اور نفسیاتی غلامی ہی ہے جس میں غلطی پر غلطی پر غلطی جاری رہتی ہے۔ اس پر مکھی پر مکھی مارنے والا عمل ہے جو ہماری امت کے مذہبی علماء کی غلطیاں ہیں۔ یہی نفسیاتی غلامی اور تقلید ہی امت مسلمہ کے زوال کی وجہ ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے آپ میری اس کتاب کا مطالعہ فرما سکتے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com