سوال: آج تک ہم تک جو تاریخ پہنچی ہے وہ زیادہ تر ان مورخین نے لکھی ہے جو سیاسی،مذہبی یا کسی اور لحاظ سے متعصب تھے؟
کیا کبھی کسی مین سٹریم مسلمان نے بھی پہلی دوسری اور تیسری صدی ہجری میں تاریخ لکھی ہے؟ یا پھر مین سٹریم مسلمانوں نے ہمیشہ اس کام سے اعراض ہی برتا؟
جواب: اس زمانے میں تاریخی کتابیں نہیں لکھی جاتی تھیں بلکہ جن میں تعصب ہوتا تو وہ زبانی روایت کو بیان کر دیتے تھے۔ اس کا ثبوت آپ کو وہیں کتاب الرجال میں ملے گا کہ راوی کونسے تھے جو جعلی متعصب روایتیں بیان کر دیتے تھے۔ اس میں مذہبی تعصب کم ہی تھا لیکن سیاسی تعصب زیادہ تھا اور اسی میں پراپیگنڈا کی کہانیاں ایجاد ہوئیں۔ بعد میں جب فرقوں کی آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں تو ان کے لوگوں نے انہی جعلی روایات کو اپنی کتابوں میں لکھ دیا۔
سوال: یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کی کتب تاریخ کیونکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے لکھی ہیں۔ مثلا ابو مخنف،محمد بن سائب قلبی،ہشام بن محمد بن سائب کلبی وغیرہ شیعہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ آج کل مسلمانوں میں جو فرقے پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد بھی ان ہی باتوں پر ہے جن کی بنیاد پر دوسری اور تیسری صدی ہجری میں فرقے بنے؟
جواب: اس زمانے میں بس سیاسی اختلاف ہی رہی۔ چوتھی صدی ہجری میں شیعہ حضرات کی ایران اور عراق میں حکومت بن گئی تو تب جا کر ان کے ہاں مذہبی اختلافات پیدا ہوئے۔ اثنا عشری حضرات کو آدھا ایران اور آدھے عراق میں حکومت بنی اور اسماعیلی حضرات کو مصر، لیبیا، الجزائر میں حکومت بن گئی تو تب جا کر مذہبی اختلافات سامنے آئے۔ اس سے پہلے مذہبی اختلافات نظر نہیں آتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مذہبی اختلاف بنے ہوں تو انہوں نے نقیہ ہی کیا ہو، لیکن کنفرم نہیں ہے۔
سوال: اگر اوپر سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر تو فرقوں کا تعلق قران و سنت سے نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے پیچھے ذاتی میلان موجود ہے؟
جواب: یہ حقیقتاً پاور کی خواہش ہی کا اصل محرک تھا۔ ایک ہندو اسکالر سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بڑی عمدہ بات کہی کہ ہندوؤں کے فرقے بس اس لیے بنتے رہے ہیں کہ ایک بڑا لیڈر بنا لیکن وہ چیف ایگزیکٹو نہیں بن سکا۔ چنانچہ پھر وہ اپنا فرقہ الگ بنا کر اس کے ہیڈ بن جاتے۔ بالکل صحیح صورتحال مسلمانوں کے فرقوں میں بھی نظر آئے گی۔ مجھے یہ صورتحال تب نظر آئی جب میں مختلف فرقوں میں رہا، ان کے بڑے لوگوں سے ملا تو ان کی باڈی لینگوج سے ہی یہی نظر آیا۔
سوال: کیا ان واقعات کو صرف تاریخی حیثیت سے ہی دیکھا جائے یا پھر ان کی کوئی دینی حیثیت بھی ہے؟
جواب: بہت عرصے بعد جب فرقوں میں الگ الگ حیثیت بن گئی تو انہی کے لوگوں نے کتابیں لکھیں۔ وہاں اپنی کتابوں میں تاریخی روایات کو دین کا حصہ بنا دیا گیا۔
سوال: فرقہ واریت کی وجوہات کیونکہ سیاسی مذہبی اور شخصی تعصب کی بنا پر ہیں اس لیے اس کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں؟ یعنی آج کل جو فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے دور کے سیاسی معاملات کو دین بنا کر پیش کرنے کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں؟
جواب: یہ سب فساد جو ہوتا رہا ہے، اس کا محرک ایک ہی کہ پاور میرے ہاتھ میں آ جائے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو ماٹیویٹ کرنے کے لیے مذہب کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر تاریخی روایات وغیرہ۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے اہل علم کا تو کوئی تصور نہ تھا لیکن انہی کے نام کو استعمال کرتے رہے۔ اس کی مثال یہی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے لیے جو دہشت گرد آئے تو ان میں اختلاف تھا۔ ایک گروپ کہتا کہ علی کو خلیفہ بنائیں، دوسرا طلحہ اور تیسرا گروپ زبیر رضی اللہ عنہم کو خلیفہ بنا رہے تھے۔ اس میں ہر گروپ کو یہ امید تھی کہ فلاں خلیفہ بن گیا تو ہمیں گورنر بنا دے گا۔
سوال: کیا ابن خلدون کے علاوہ کوئی ایسا مورخ بھی گزرا ہے جس پر شیعہ اور سنی دونوں کا اعتماد ہو؟یا پھر تاریخ کو ہمیشہ متعصبانہ ذہن سے ہی لکھا گیا ہے؟کیونکہ آپ کی کتاب میں ابھی تک مجھے کوئی ایسا مورخ نہیں ملا۔
جواب: مجھے تو نہیں مل سکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسے قدیم اہل علم کا مل جائے جس میں شیعہ سنی میں اعتماد رہا ہو۔ فقہ کے عالم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا علم ہے کہ ان پر شیعہ اور سنی ہی ان کا احترام کرتے ہیں۔ بلکہ دلچسپ یہ معاملہ ہے کہ زیدی شیعہ حضرات کا فقہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسا حنفی فقہ ہے۔ آپ اگر یمن چلے جائیں تو آپ نماز میں فرق نہیں دیکھ سکیں گے کہ سنی و شیعہ میں کوئی فرق ہے کیونکہ یمن میں زیدی شیعہ حضرات کی بڑی تعداد ہے۔
سوال: آج کل کیونکہ راویوں کو تاریخی کتب میں نہیں لکھا جاتا اور عبارت 1 مسلسل شکل میں لکھی گئی ہوتی ہے۔ علماء ان ہی کتابوں سے حوالے دیتے ہیں کہ فلاں شخصیت نے یہ کتاب لکھی ہے اور ہم لوگ شخصیت پرستی کی آڑ میں اسے من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔ کیا یہیں سے فرقہ واریت کی ابتدا نہیں ہوتی؟
جواب: اسے فرقہ واریت کی ابتدا نہ کہیے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ٹول کو بہت استعمال کیا گیا ہے۔ آپ اردو میں کسی بھی اسکالر کی تاریخی باتیں دیکھیں تو جسے جو بات فٹ ہو گئی، تو اسے بڑی تاریخ جیسی شکل میں بیان ہو جائے گا۔ ہاں اگر اسکالر کا اختلاف ہوا تو پھر وہ فن رجال کی تفصیل بیان کریں گے۔ اس طرح فرقوں کے علماء نے اپنے حساب سے جو حدیث یا تاریخی روایت ان کے آئیڈیا کے مطابق لگے، اسے بڑی عقیدت سے بیان کرتے ہیں۔
سوال: آج ایک عام مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ کسی فرقے سے متعلق ہونا ضروری ہے یا صرف قران و حدیث کی بنا پر اپنا تزکیہ نفس کرنا چاہیے؟
جواب: فرقہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک لیڈر نے اپنی پاور کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ ہمیں اس سے بچنا چاہیے اور صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بننا چاہیے۔ ہاں مختلف فرقوں کے اسکالرز کی اسٹڈی ہم کر سکتے ہیں۔ میں ہر فرقے کے انہی اہل علم کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں جن میں تعصب نہیں ہے۔ مثلاً بریلوی عالم غلام رسول سعیدی صاحب اور پیر کرم شاہ صاحب، دیوبندی علما میں تقی عثمانی صاحب، اہل حدیث میں عزیر شمس صاحب (جو میرے استاذ ہیں)، شیعہ علماء میں جسٹس امیر علی صاحب وغیرہ۔
سوال: کیا کسی صحابہ کرام یا اہل بیت اطہار سے متعلق کوئی مخصوص قسم کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے جس کے بارے میں ہم قیامت کے دن جوابدہ ہوں گے؟
جواب: اس سے بچنا چاہیے۔ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے۔ ان سب نے دین کی خدمت ہی کی ہے، اس لیے ان سب سے محبت کرنی چاہیے۔ رہے ان کے عمل تو اسی کو اللہ تعالی کی طرف چھوڑ دینا چاہیے۔ محبت ہمارا محض رویہ ہے، یہ عقیدہ نہیں بن سکتا کیونکہ دینی عقیدہ وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید میں آپ کو یہ نظر آ جائے گا کہ ان سب حضرات کو رضی اللہ عنہم ہی فرمایا ہے۔ جوابدہ ہم اسی کے مطابق ہوں گے کہ ہم تاریخی جعلی روایات میں اسی کے خلاف سمجھیں گے۔
سوال: ایک عام مسلمان کی ذمہ داری کیا ہے جس کے بارے میں وہ قیامت کے دن جوابدہ ہو گا؟یا کن چیزوں پر 1 مسلمان کی نجات منحصر ہے؟
جواب: اس سوال کو آپ خود قرآن مجید میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں تفصیل سے پورے قرآن کا موضوع ہے۔ احادیث میں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حج پر آخری خطبہ پڑھ لیجیے۔ ایمان، عمل صالح، اخلاقیات۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com