سوال: کیا صحاح ستہ کی احادیث کی حیثیت بھی تاریخی ہے کیونکہ جیسے تاریخی روایات میں جزوی اختلاف پایا جاتا ہے ویسے ہی احادیث میں بھی جزوی اختلاف پایا جاتا ہے؟
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ انہیں صحائحہ ستہ کہہ کر لوگ بڑی عقیدت کرنے لگتے ہیں لیکن سب ہی کے اندر جعلی احادیث ہیں۔ بخاری اور مسلم میں یہ فائدہ ہے کہ اس میں جعلی احادیث نہیں ہیں اور تمام راوی قابل اعتماد ہیں۔ لیکن ان دونوں حضرات نے متن پر کام نہیں کیا تھا کہ ان کی زندگی میں راویوں پر کام کرتے رہے۔ پھر حسن ظن ہے کہ ان کا انتقال ہو گیا اور انہوں نے متن پر کام نہیں کر سکے تھے۔ جزوی اختلاف تو بہرحال جاری رہتا ہی ہے۔
سوال: صحیحین کی کچھ روایات بھی خبر واحد ہیں مگر کیونکہ وہ صحیح کے درجے میں ہیں اس لیے اگر بخاری و مسلم کی کوئی حدیث واقعات سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور حدیث کی کسی اور کتاب کی روایت صحیحین سے ٹکرا جائے اور وہ واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہو تو کونسی روایت راجح قرار پائے گی؟
جواب: اس کا حل یہی ہے کہ اس حدیث میں جو متن ہے، اسی کو دیگر احادیث کے متن کے ساتھ میچ کر لیں۔ نہ ہو یا قرآن یا عقل عام کے خلاف ہو تو اسے قابل اعتماد نہیں کہا جائے گا۔ اکثر روایات خبر واحد ہی ہیں۔ خبر واحد کا مطلب صرف ایک انسان ہی نہیں ہے بلکہ چند انسان بھی ہو سکتے ہیں۔ متواتر وہی ہوتی ہے جس میں ہزاروں راوی ہر زمانے میں موجود ہوں۔
سوال: کیا احادیث کی حیثیت تاریخی ہے یا ہم جس طرح قران کو مانتے ہیں اسی درجے میں حدیث کو بھی ماننا ضروری ہے؟ حالانکہ بعض احادیث میں تضاد پایا جاتا ہے۔؟
جواب: جی نہیں۔ حدیث انسانوں ہی کا عمل ہے۔ انہوں نے جو سمجھا، اسے بیان کر دیا ہے۔ اس لیے وہ قرآن سے تضاد ہو تو پھر کنفرم ہو جاتا ہے کہ یہ جعلی حدیث ہے یا پھر راوی قابل اعتماد ہے تو لگتا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ حدیث اصل میں تاریخ ہی ہے لیکن یہ اچھا کام ہے کہ اس میں تاریخ ریسرچ بہت عمدہ کوالٹی کا کام ہے کہ اس میں آپ کتاب سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پورا چیک کر سکتے ہیں کہ یہ قابل اعتماد بندے اور باتیں کیسی ہیں؟ اس میں پورا ٹریل موجود ہے جبکہ تاریخی روایتوں میں کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔
میں نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کام کیا تو میں نے حدیث کے طریقہ کار کو استعمال کیا۔ اس میں پھر معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی آپس میں لڑائی جھگڑوں کی کہانیاں انہی جعلی روایات خاص بندوں نے گھڑی تھیں اور ان کے نام بھی معلوم ہو گئے۔ تفصیل آپ میری اس کتاب ’’عہد صحابہ پر دور جدید کے شبہات‘‘ میں پڑھ چکے ہوں گے۔
سوال: کتاب کے صفحہ نمبر 41 پر آپ نے مقدمہ ابن خلدون کا 1 اقتباس نقل کیا ہے جس میں ابن خلدون نے روایات کی جرح و تعدیل کو ثانوی درجے پر رکھا ہے اور روایت کے معاشرے کے طبعی حالات سے متعلق ہونے کو مقدم رکھا ہے۔کیا اس اصول کو ہماری کتب احادیث میں ملحوظ رکھا گیا ہے یا نہیں؟
جواب: ابن خلدون صاحب کے طریقہ کار سے پوری طرح متفق ہوں۔ اکثر صحیح احادیث میں کچھ احادیث میں ایسی کوالٹی کا کام ہوا ہے اور کچھ میں نہیں ہوا ہے۔ اسی میں ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر میرے خیال کے مطابق کتب احادیث میں نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 6 یا 9 سال بیان ہوئی ہے جبکہ واقعات اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
یہ محض جعلی کہانی ہے۔ اسے تو جعلی حدیث کے درجے میں بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ پریکٹیکل ممکن بھی نہیں ہے اور راوی بھی معلوم نہیں ہیں۔ اس میں میں نے بھی تنقید کی ہے تو آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ دیگر صحیح روایات سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ کی عمر اپنی بڑی بہن اسما رضی اللہ عنہما سے 10 سال چھوٹی تھیں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر ہجرت کے وقت 28 سال کی تھیں تو یہی کنفرم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 18 سال تھی۔
پھر دیگر احادیث کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہو چکا تھا لیکن منکرین نے انہیں طلاق دے دی تھی کیونکہ وہ دین کے خلاف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں چھوٹی تھیں اور ان کی پرورش کرنی تھیں۔ انہیں سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ آپ شادی کر لیں اور سیدہ عائشہ کا مشورہ دیا۔ تب نکاح ہو گیا تھا۔ اب اگر بیٹیوں کی پرورش کرنی تھی تو اس میں 5-9 سال کی بچی کیسے کر سکتی ہے؟ اس عقل سے ہی اس روایت کو رجکٹ کر دینا چاہیے خواہ وہ کسی بھی بڑے عالم نے لکھ دیا ہو۔
سوال: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ہی کوئی روایات اگر صحیحین یا دوسری کتب احادیث میں موجود ہوں جو واقعات کے خلاف ہوں تو پھر ان کتب احادیث کی کریڈیبلٹی کیا متاثر نہیں ہو جاتی؟
جواب: بالکل صحیح فرمایا ہے۔ جیسا کہ اوپر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر والی جعلی کہانی ہے۔ اسی نوعیت کی اور کہانیاں آپ کو صحیحین میں بھی نظر آ جائیں گی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ بخاری اور مسلم میں بہت کم ہی ایسی مل سکیں گی لیکن دیگر کتابوں میں کافی مل جائیں گی۔
سوال: کوئی بھی حدیث ہو خواہ وہ صحیحین کی روایت ہی کیوں نہ ہو اگر وہ قران،عقل عام اور واقعات کے خلاف ہو تو ہم اسے بلا ججھک ریجکٹ کر دیں گے۔
جواب: بالکل صحیح فرمایا۔ ہاں اس میں یہ احتیاط ضرور کر لیجیے کہ اس حدیث کو ریجکٹ کرنے سے پہلے اسی موضوع پر دیگر احادیث کو پڑھ لیجیے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ حدیث میں بات تو صحیح ہوتی ہے لیکن راوی نے پوری بات بیان نہیں کی ہوتی ہے۔ وہ پوری صورتحال اسی موضوع کی دیگر احادیث میں مل جاتی ہے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کتاب لکھنے والے سے کوئی لفظ مس ہو گیا۔
اس کی مثال یہی لگتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لفظ لکھنا تھا ’’السادس عشر 16‘‘ لیکن غلطی سے ’’السادس6‘‘ لکھ دیا اور عشر یعنی 10 کو بھول گئے۔
سوال: اگر کوئی بندہ کسی حدیث کو مندرجہ بالا دلائل کی بنا پر رد کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا جائے گا۔
جواب: اسلام سے خارج کبھی کسی کو نہیں کہنا چاہیے۔ یہ تو اللہ تعالی ہی ہر انسان کی نیت کے لحاظ سے فیصلہ فرمائے گا جبکہ ہمیں کسی کی نیت معلوم نہیں ہے۔ بس اتنا ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ اپنے اس بھائی کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ اس سے زیادہ ہمیں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
سوال: احادیث کی حیثیت تاریخی ہے لیکن احادیث کو تاریخ پر اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ ان پر راویوں کے بارے میں ریسرچ موجود ہے۔
جواب: لہذا احادیث تاریخی طور پر زیادہ مستند ہیں۔
مگر احادیث کے متن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ متن پر ریسرچ اتنی نہیں ہوئی۔
بالکل صحیح فرمایا۔ متن ریسرچ پر بعد میں کام ہوتا رہا ہے۔ اس میں یہ ہوا ہے کہ ایک اسکالر کو کوئی ایشو محسوس ہوا تو انہوں نے اسی ایشو سے ساری احادیث کو اکٹھا کر کے متن کی ریسرچ کی ہوئی ہے۔ اس سب ریسرچ کو انہوں نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔ مثلاً مجھے جب غلامی کی تکلیف پیدا ہوئی تو غلامی کے معاملے کی تمام احادیث کو اکٹھا کر دیا جن میں غلامی کا ذکر ہے۔ پھر اس کا رزلٹ اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔ اس میں اہل علم نے 1100 سال سے کام کرتے رہے ہیں۔
ہاں یہ ہم کہیں گے کہ ابھی 100% تمام احادیث پر کام نہیں ہوا ہے۔ اب جاوید صاحب اور ان کے شاگرد اس پر کام کر رہے ہیں۔ جب یہ مکمل کر لیں تو پھر ہم کہیں گے کہ اب 100% کام ہو گیا ہے۔
سوال: احادیث کی بنیاد پر شریعت کا کوئی قانون وضع نہیں کیا جا سکتا۔ شرعی طور پر کسی چیز کو متعین کرنے کے لیے قران کی نص قطعی لازمی درکار ہے۔
جواب: یہ آپ نے جاوید صاحب کا نقطہ نظر بیان فرمایا ہے۔ ان سے مجھے اختلاف ہے۔ اس کی بجائے میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ متفق ہوں۔ حدیث میں شریعت کے کئی سوالات کا جواب مل جاتا ہے۔ اس لیے متن ریسرچ کر کے احادیث سے قانون بیان کیا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال یہی ہے کہ قرآن مجید کی شریعت میں حرام جانوروں کا ذکر ہوا ہے۔ فطرت میں یہ بھی شریعت کا حصہ ہر انسان میں معلوم ہے کہ شیر، چیتا وغیرہ بھی حرام ہے اور اکثر انسان اسے نہیں کھاتے ہیں۔ احادیث میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دیا کہ فلاں قسم کے جانور بھی حرام ہیں تو یہ وہی جانور تھے جس میں بعض انسانوں پر گرے ایریا لگ رہا تھا تو انہیں واضح فرما دیا کہ یہ بھی حرام ہی ہیں۔ یہ سب کچھ احادیث ہی میں ملتا ہے۔ اسی میں احادیث سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ گدھا سواری کی چیز ہے لیکن جنگلی گدھے کی اجازت بھی فرما دی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگلی گدھے پر شکار بھی کرتے تھے۔
سوال: اگر دین اسلام کو ہم دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو قران و سنت کا لفظ استعمال کرنا قران و حدیث کے الفاظ استعمال کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
جواب: بالکل صحیح فرمایا۔ سنت وہ پریکٹیکل عمل ہے جس میں ہر ٹائم اور ہر نسل اور ہر علاقے میں پوری امت کا اتفاق رہا ہے۔ حدیث میں بھی قرآن و سنت کی وضاحت ہمیں ملتی ہے۔
یہ میرا نقطئہ نظر بنا ہے اب تک احادیث کے بارے میں اگر آپ اس سے متفق ہیں تو مجھے بتائیں اگر نہیں متفق تو بھی میری غلطی مجھ پہ واضح کریں۔
اس میں عرض کر دیا کہ قرآن و سنت کی جو وضاحت ہمیں احادیث میں ملتی ہے، وہ بھی قانون کا حصہ بن جاتا ہے۔
سوال: آپ نے درس نظامی کی کتب بھی پڑھی ہیں کیا بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث کا نقطہ نظر بھی احادیث کے حوالے سے یہی ہے؟
یا پھر یہ لوگ احادیث کو من و عن تسلیم کرتے ہیں؟ اور متن پر ریسرچ پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
جواب: اس کی تفصیل آپ کو میری تقابلی مطالعہ کی کتابوں میں مل جائے گا۔ اصل میں بریلوی بھائیوں اور دیوبندی بھائیوں نے تقلید کے اصول کو مان لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بس پرانے اہل علم نے جو سوچا ہے، اسی پر عمل کریں۔ اہل حدیث بھائی تقلید کو نہیں مانتے ہیں اور وہ تنقید بھی کر دیتے ہیں۔ ہاں عجیب ہی بات یہ ہو جاتی ہے کہ یہ بھائی بخاری اور مسلم حضرات پر تقلید کرنے لگتے ہیں۔
شیعہ کا میں نے ذکر اس لیے نہیں کیا کیونکہ ان کے نقطئہ نظر میں امام نے جو کہہ دیا وہ صحیح بن جاتا ہے۔ جو کہ 1 غلط بات ہے۔
اس کے لیے بھی آپ یہی تقابلی مطالعہ کی کتابیں پڑھ لیجیے جو حاضر خدمت ہیں۔ شیعہ بھائیوں کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ نبوت تو ختم ہو گئی۔ اب امامت جاری رہے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے امام ہوں گے۔ امام کا ڈائرکٹ تعلق اللہ تعالی سے ہو گا اور وہ ہمیں ہدایت دیں گے۔ اب ان کے ہاں اختلاف اسی پر ہوا کہ فلاں امام ہے اور دوسرا فرقہ کہنے لگا کہ یہ امام ہے وغیرہ وغیرہ۔
اب ان کی اکثریت اثناء عشری شیعہ حضرات کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ 12 ایمان گزرے ہیں۔ بارہویں امام غائب ہو گئے اور قیامت سے پہلے نکلیں گے۔ اس لیے یہ حضرات نہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور نہ زکوۃ۔ ان کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ جب امام آئیں گے تو وہی جمعہ پڑھائیں گے اور زکوۃ انہی کو دی جائے گی۔ ابھی ایرانی اسکالرز نے اجتہاد کیا کہ جب تک امام نہیں آتے، تب تک ہمارے فقیہ اسی ذمہ داری کو ادا کریں۔ خمینی صاحب نے پھر ’’ولایت فقیہ‘‘ کو بیان فرمایا اور ایران میں ان کی حکومت جاری ہے۔
سوال: سر جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ہاں احادیث کے جو مجموعے ہیں ان میں بعض احادیث ایسی ہیں جو قران و سنت کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عائشہ کی عمر کا مسئلہ اور حضرت معاویہ اور آل امیہ کے خلاف جو احادیث ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ یہ حقیقی نہیں ہیں پھر بھی آج تک انہیں احادیث کے مجموعوں میں نقل کیوں کرتے آ رہے ہیں؟
جواب: اس میں حقیقتاً اپنے اپنے مفادات ہی ہوتے ہیں۔ خواہ فرقے ہوں یا پارٹیاں یا تحریکیں ہوں تو وہ اپنے پراپیگنڈا کے طور پر جعلی احادیث یا روایات شامل کر دیتے ہیں۔ ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی نیت درست ہوتی ہو لیکن انہیں پھر معلوم نہیں ہوتا ہے اور وہ علم الحدیث کی ریسرچ کیے بغیر ہی اس روایت کو بیان کر دیتے ہیں۔
سوال: انہیں احادیث کی کتابوں سے حذف کیوں نہیں کیا جاتا؟
جواب: قدیم زمانے کے لوگوں نے جو کتابیں لکھ دی ہیں، یہ خواہ قابل اعتماد ہوں یا جعلی ہوں، اسے رکھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ دوسرے کی کتاب کو تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ جو جعلی روایت ہو تو اسے نوٹس یا شرح میں وضاحت کر دینی چاہیے۔ اس میں اگلے کی کتاب کو نہیں بلکہ اسے الگ سے نوٹس میں لکھ دینا چاہیے۔ اب دیکھیے کہ ہم اس زمانے کے ماحول کو سمجھیں تو پھر معلوم ہو گا کہ محدثین نے کام کیا کیا تھا۔
ان کا پہلا اسٹیپ تو یہ تھا کہ مختلف شہروں اور دیہاتوں میں جو بھی روایات موجود ہیں، ان سب کو ریکارڈ کر لیں۔ اس کے لیے انہیں کئی سال بلکہ عمر بھر کی محنت کی تو ہزاروں شہروں اور لاکھوں دیہات کی روایات کو اکٹھا کیا۔
دوسرا اسٹیپ یہ تھا کہ ان روایات میں جو راوی ہیں، ان کے نام اور ان کی شخصیت کا تجزیہ کر لیں۔ محدثین نے اسی طرح سفروں میں ان راوی کا نام، نسل، شاگرد، استاذ اور ان کے رویوں کو بھی نوٹ کر لیا۔
تیسرا اسٹیپ یہ تھا کہ ان روایات اور ان کے راویوں کو بھی لکھ دیں تاکہ اگلی نسلوں کو ساری انفارمیشن مل جائے۔ اس میں روایات خواہ قابل اعتماد تھیں یا نہیں تھیں، ان سب کو انہوں نے اپنی کتابوں میں ریکارڈ کر دیا۔ انہوں نے مختصراً لکھ دیا کہ یہ راوی صحیح، حسن، ضعیف یا موضوع یعنی جعلی کو نوٹ کر کے لکھ دیا۔ راویوں کی زندگی اور ان کے رویوں کو الگ کتابوں میں لکھ دیا۔ اس کے لیے کچھ اسپیشلسٹ نہیں ببلیو گریفی کی کتابیں الگ لکھیں۔
چوتھا اسٹیپ یہ کرنا تھا کہ روایت کے اندر جو متن ہے، وہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ محدثین نے کسی حد تک کیا لیکن ان کے زمانے میں زیادہ ریسرچ ان کے لوگوں کی انفارمیشن کی زیادہ ریسرچ نہیں کی۔ اسے پھر فقہاء نے اپنے اپنے زمانے اور علاقے کے لحاظ سے ریسرچ کی اور انہوں نے شرح کی کتابیں لکھیں۔ پھر بھی یہ 100 فیصد مکمل نہیں ہوا۔
پانچواں مرحلہ باقی ہے جسے ہم لوگوں نے یہ کام کرنا ہے۔ اس میں ضرورت ہے کہ صرف اور صرف قابل اعتماد احادیث کو کتابوں میں لکھیں اور جعلی روایات کو ڈیلیٹ کر دیں۔
سوال: اِن احادیث کی بنا پر ہی مستشرقین اسلام پر تنقید کرتے ہیں۔
جواب: مستشرقین اگر مخلص ہوں تو ایسا نہیں کرتے ہیں۔ جن کا کوئی خاص متعصب ٹارگٹ ہو تو پھر وہ تنقید کر کے پراپیگنڈا کو استعمال کر دیتے ہیں۔ خواہ عام مسلمان فرقہ پرست ہوں یا غیر مسلم مستتشرقین ہوں، اپنے محرک کی بنیاد پر کام کر دیتے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مستشرقین اور دیگر حضرات کی غلطی کو واضح کر سکیں۔ اسی کے لیے ایک حقیر کاوش میں نے بھی کی ہے اور دیگر علماء یہ کام کر رہے ہیں۔
سوال: سر اگر کوئی نماز قضاء ہو جائے تو اسے دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے؟ میں نے اکثر علماء سے سنا ہے کہ اگر کسی کی نمازیں کافی سالوں سے قضاء ہوئیں ہیں تو اس پر قضاء عمری کرنا لازم ہے۔ اس کے بارے میں صحیح نقطئہ نظر کیا ہے؟
جواب: کبھی نماز قضا ہو جائے تو جلد ہی پوری کر لینی چاہئیں۔ کسی انسان نے اگر کئی سالوں تک نماز نہیں پڑھی ہے اور اب شعور آ گیا ہے تواس کے لیے مختلف اسکالرز نے جو اجتہاد کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں چاہیے کہ نفل نمازوں کی بجائے اپنی پرانی نمازوں کو کرتے چلے جائیں۔ اس طرح انسان سال دو سال میں پوری مکمل کر لے گا۔ میں نے بھی یہی کیا کہ جب ایک ماہ تک قومہ میں تھا تو جب ٹھیک ہوا تو نفل کی بجائے نیت اسی پرانے ماہ کی نمازوں کی نیت کرنے لگا اورچند دن میں ہو گیا۔
سوال: اگر ایک شخص باقاعدہ نمازی ہو اور اسکی کوئی نماز قضاء ہو جائے تو اس شخص پر اسے دوبارہ ادا کرنا لازم ہے؟ اگر ہاں تو اِسکا طریقہ کار کیا ہو گا؟
جواب: جی ہاں۔ لازم ہے کہ کوئی نماز قضا ہو گئی تو جلد سے جلد ہی ادا کر دینی چاہیے۔ طریقہ کار وہی ہے جو نماز کا عام طریقہ ہے۔ بس اتنا ہی ہے کہ نیت یہ کر لیں کہ مثلاً 9 اکتوبر کی فجر کی نماز ہے۔
سوال: سر شیعہ حضرات امام کو نبی کے برابر کا درجہ دیتے ہیں کہ یہ بھی الله کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ کیا یہ عقیدہء ختم نبوت کے خلاف نہیں ہے؟ بے شک یہ اعلانیہ نہیں لیکن خفیہ طور پر یہ قادیانیوں کے قریب قریب لگتا ہے۔؟ میں نے تو 1 شیعہ عالم(جو کہ بہت مستند سمجھے جاتے ہیں) کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ رسول اللہ کے بعد حضرت علی سب سے افضل ہیں انبیاء سے بھی۔
جواب: آپ نے صحیح تجزیہ فرما دیا ہے۔ اس میں بس فرق یہی ہے کہ قادیانی نبی مانتے ہیں اور شیعہ حضرات امام مانتے ہیں۔ لیکن پریکٹیکل فرق کچھ نہیں ہے کہ جو کمال نبی کا ہیں، وہی امام کو مانتے ہیں۔ ہاں اتنا فرق آیا ہے کہ شیعہ حضرات بھی ختم نبوت کو مانتے ہیں جبکہ قادیانی حضرات خاتم کے لفظ کو مجازی معنی میں مانتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ اثنا عشری شیعہ حضرات کے امام تو غائب ہو گئے، اس لیے زیادہ واضح نہیں ہوا ہے لیکن اسماعیلی شیعہ حضرات میں واضح ہو گیا ہے۔ ان کے امام اب تک جاری ہیں اور وہ شریعت میں تبدیلی کر دیتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ایک فرقہ تک نہیں بلکہ دیگر سنی حضرات نے بھی یہ تصور اس طرح اختیار کر لیا کہ جو اللہ تعالی کا ولی ہے تو پھر ان کے ارشادات کو بغیر ریسرچ کر کے مان لیتے ہیں۔ یہی تصور پہلے امت مسلمہ نے کیا جسے ہم شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ جیسا کہ عیسائی حضرات نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا سمجھ لیا۔ ہندو حضرات نے اوتار کا تصور پھیل گیا کہ ان کے خیال میں خدا انسان کی شکل میں آ جاتا ہے۔ اس لیے وہ نیکی شخصیتوں کے مجسمے بنا کر وہاں پوجا کرتے ہیں۔
مسلمانوں نے مجسمہ استعمال نہیں کیا لیکن انہوں نے قبروں اور مزارات میں پوجا کرتے ہیں۔ سجدہ تو نہیں کرتے لیکن اللہ تعالی سے دعا کرنے کی بجائے ان بزرگوں سے دعا کر لیتے ہیں۔ یعنی جو درخواست اللہ تعالی سے ہی کرنی تھی، اسے ہم نیک بزرگوں سے مانگنے لگے۔ اس کی تفصیل آپ کو تقابلی مطالعہ کی پانچویں کتاب میں ملیں گے۔
سوال: سر ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ میرے جیسا ایک عام انسان بھی قران کی آیتِ تطہیر، آیتِ تبلیغ وغیرہ پڑھ کے آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ اسکا سیاق و سباق کیا ہے اور یہاں کونسا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن شیعہ حضرات کے بڑے بڑے علماء اسے آؤٹ اف کونٹیکسٹ کیوں بیان کردیتے ہیں ؟مثلاً شیرازی صاحب اور آیت اللہ خمینی صاحب وغیرہ۔
جواب: ان کی دلیل تو آپ انہی کی کتابوں میں ملیں گی۔ آیت تطہیر میں وہ صرف علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما تک سمجھتے ہیں لیکن سیاق و سباق اس کے بالکل الٹ ہے۔ اس الٹ پر آپ ان کے کسی عالم سے پوچھ لیجیے کہ وہ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آیت تبلیغ میں ان کی رائے کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کر دیجیے گا۔ آیت تطہیر کا مطالعہ آپ قرآن مجید میں سورۃ الحدید کا مطالعہ کر لیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیملی کو پاکیزہ کرنے کا ارشاد ہے اور اس کے لیے آپ کی فیملی میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور اولاد کی ڈسکشن ہے۔
آیات 27-37: امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور اہل ایمان خواتین کی ذمہ داریاں
Al Ahzaab 28-73- Family of the Prophet vs Harassments Punishment + Finish of Prophethood
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com