وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سوبان بھائی
آپ کا تجزیہ بہت دلچسپ ہے اور آپ تفصیل سے اسٹڈیز کر رہے ہیں جس میں بہت خوشی ہے۔ میں اردو میں آپ کے ارشادات کا جواب عرض کرتا ہوں۔
بنی اسرائیل کا صرف ایک فرقہ یہودی ہیں جبکہ ان کا ایک فرقہ تو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار پر سزا یہ دی کہ وہ قیامت تک حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی امت کے انڈر ہی رہیں گے۔ یہ آپ دیکھیے سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں تفصیل سے فرمایا ہے۔
میں نے یہودی اسکالرز کی تاریخی کتابیں پڑھی ہیں تو وہ یہی بیان کرتے ہیں کہ 70 عیسوی سے آج تک ان پر مغلوبیت ہی رہی ہے۔ کیتھولک عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل سزا ہی ان پر جاری رہی ہے۔ صرف مسلمانوں کے ہاں سکون سے رہے ہیں اور وہ اپنا گولڈن ایریا تو اسپین میں مسلمانوں کے انڈر رہ کر سکون سے رہے ہیں۔
اب آپ کا سوال ہے ماڈرن اسرائیل سے۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل کی اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ پروٹیسٹنٹ عیسائی امریکہ کے انڈر ہی رہتے ہیں۔ اگر امریکہ ان کی مدد نہ کرے تو اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور جب مدد مل جاتی ہے تو سکون ملتا ہے۔ اس کے لیے آپ اسرائیل کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ کچھ مثالیں عرض کر دیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ 1949 میں اقوام متحدہ یعنی یورپ اور امریکہ کی مدد سے اسرائیل بنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ 1967 میں مصر، اردن اور سیریا نے اسرائیل سے جنگ کی ہے لیکن امریکہ کی مدد سے یہ انہیں فتح حاصل ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ 1973 میں مصر کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوئی ہے۔ اس میں امریکہ کی مدد نہیں تھی۔ اس میں مصریوں نے اسرائیل کو بہت مارا ہے اور سینا کے علاقے کو مصر نے دوبارہ آزاد کر کے لے لیا ہے۔ اب اسرائیل کے لیڈرز نے امریکہ سے بڑی معذرت کروائی ہے تو تب امریکہ نے مدد کی اور مصر سے جنگ ختم کی۔ پھر امریکیوں ہی نے اردن اور مصر کے ساتھ معاہدے کروا دیے ہیں تو تب وہ سکون میں رہتے ہیں۔ آج کل بھی عرب ممالک میں اسرائیل سے دوستی کروا رہے ہیں۔
یہودی اپنے بچوں کی بڑی شاندار تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ ایکانومی اچھی طرح چلا سکیں۔ اس سے امریکہ کو فائدہ ہوتا ہے کہ ان کی ایکانومی بہتر چلتی ہے۔ اس وجہ سے وہ امریکہ عیسائی لیڈرز کے اندر رہ کر سکون سے رہ رہے ہیں جیسا کہ وہ اسپین میں مسلمانوں کے ہاں رہتے تھے۔
لیکن یہ دیکھیے کہ جب بھی امریکہ اور یورپ سے ان کی لڑائی ہوئی تو پھر جوتے ہی پڑیں گے۔ بلکہ آپ یہ دیکھیے کہ امریکہ نے انہیں کنٹرول کرنے کے لیے عرب ممالک کے ذریعے ان کی گردن دبائے رکھتے رہے ہیں۔ اب انہیں محسوس ہوا ہے کہ چلو اس جگہ پر دوستی کا فائدہ ہے تو وہ دوستی کروا رہے ہیں۔
میں جب اردن اور مصر گیا تھا تو یہ دیکھا کہ مصر میں ٹورزم میں بڑے بنی اسرائیل آئے تھے اور سینا میں پہاڑ طور کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ میں جب گاڑی میں اردن میں تھا تو مصر تک پہنچنے کے لیے صرف 10 کلومیٹر اسرائیل کی پٹی تھی۔ میں نے اردن والوں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ وہ تو آپ کو جانے دیں گے لیکن آپ کے پاسپورٹ پر اسٹیمپ لگا دیں گے۔ اس وجہ سے پھر آپ سعودی عرب اور پاکستان نہیں آ سکیں گے۔ چنانچہ میں نے گاڑی کو فیری میں ڈالا اور ہم اسی فیری کے ذریعے مصر چلے گئے تھے۔
میں نے اردن والوں سے مسجد اقصی کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق اردن ہی کی حکومت کا مسجد ڈیپارٹمنٹ یہ مسجد اقصی کو مینج کرتا ہے۔ یہ معاہدے تو کنفرم ہے کہ امریکہ ہی نے بنوائے ہیں۔ آپ میرا یہ سفرنامہ پڑھ چکے ہوں گے:
والسلام
محمد مبشر نذیر
Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP) Learn Islam to make your career in the afterlife
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com