سوال: سر جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اگر کسی کزن یا کسی اور کو وارث بنایا تو پھر اگر اُسکا کوئی بھائی یا بہن 1 سے زیادہ ہوئے تو 33% اُنھں ملے گا وہ 33% بھی 2:1 سے ہی اُن میں تقسیم ہو گا؟
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: یہ تو قرآن مجید کا حکم ہے اور اس میں کوئی اختلاف اور اجتہاد نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بتایا ہے کہ اگر آپ کسی رشتے دار کو وارث بنا رہے ہیں تو اس کے بھائی بہن کو بھی دیں۔ اگر اکیلا بھائی یا بہن ہو تو اس کا 16.67% اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو انہیں بھی وارث کا 33.33% دے دیں۔ باقی اسی خاص وارث کو باقی رقم دیجیے۔
سوال: یہ وراثت کا اصول قربت کی بنا پر ہے یعنی جیسے کہ بیٹا والدین کی خدمت زیادہ کرتا ہے تو اسے ڈبل ملتا ہے لیکن اگر بیٹا خدمت نہ کرے اور بیٹی ہی سنبھالے والدین کو تو کیا ہم بیٹی کو دوگنا دے سکتے ہیں اِس کیس میں؟
جواب: یہاں پر اجتہاد کی ضرورت ہے۔ قانون کا حکم تو نارمل حالات سے متعلق ہوتا ہے لیکن جب کوئی خاص کیس ہو جائے تو اس میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے جو صورتحال بیان فرمائی ہے، اس کی بنیاد پر پھر والدین اس خاص بیٹی کو وصیت دے سکتے ہیں۔ احادیث میں نارمل حالات میں فرمایا ہے کہ اپنے وراث کی وصیت نہ کریں کہ دیگر وارثوں کی حق تلفی نہ ہو۔
نارمل حالات یہی ہوتے ہیں لیکن اگر ایسی صورتحال ہی ہو کہ کوئی خاص بیٹا یا بیٹی اپنی شادی اور کیریئر چھوڑ کر صرف والدین کی خدمت ہی کر رہے ہیں تو انہی وصیت کی جا سکتی ہے۔ باقی جو بچے گا تو دیگر بیٹوں بیٹیوں کو مل جائے گا۔ وصیت اگر انہیں کرنی ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ قانونی طور پر وصیت کر دیں اور اعلان کر دیں تاکہ ان کی وفات کے بعد لڑائے جھگڑے نہ ہوں۔
سوال: اگر ایک بندے نے اپنے 1 کزن (مرد یا عورت) کو وارث بنایا ہے اور اُسکی 1 بہن یا بھائی اور بھی ہے۔ تو کُل میں سے 16.67% بہن یا بھائی کو دیا جائے گا اور باقی حصہ جسے وارث بنایا گیا ہے اُس کا ہو گا؟
جواب: صحیح فرمایا آپ نے۔ اس میں تجربے سے کر لیجیے۔ فرض کیجیے کہ ایک صاحب کی وراثت 1,000,000 ڈالر ہے۔ اس میں سے اس نے وصیت کی کہ میرے کزن کو 100,000 دے دیجیے گا۔ جیسا آپ نے فرمایا کہ اس کزن کا ایک بھائی یا بہن جو بھی ہے۔ اب آپ ان کا 16.67% کر لیجیے تو اس بھائی (جو وہ بھی کزن ہے) کو 16,667$ مل جائیں گے اور باقی 83,333$ اسی خاص کزن کو مل جائیں گے۔
سوال: اور اگر فرض کیا کہ وارث کے 4 بھائی اور ہیں اور 2 بہنیں بھی ہیں تو پھر جو 33%کل میں سے ہو گا جو اِن بہن بھائیوں کو ملنا ہے تو اُسکی تقسیم کیسے ہو گی؟
جواب: اسی میں فرض کیجیے کہ اسی کزن کے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اب انہیں 33,333$ ان سب کو برابر یعنی 5,556$ ہر بھائی اور ہر بہن کو مل جائے گا۔ اس خاص کزن کو 66,667$ مل جائے گا۔
سوال: میرے خیال میں 33% کے 10 حصے کیے جائیں گے اور 2.2 حصے ہر بھائی کو اور 1.1 حصہ 1 بہن کو دیا جائیگا۔اور باقی 67.67% وارث کا ہو گا۔ کیا میری رائے صحیح ہے؟
جواب: اس میں پھر بھائیوں بہنوں کی تقسیم میں یہ نہیں فرمایا کہ بھائی کو ڈبل اور بہن کو سنگل ملے گا بلکہ ارشاد اس طرح ہے۔
وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ
(اِن وارثوں کی عدم موجودگی میں) اگر کسی مرد یا خاتون کو اُس سے رشتہ داری کی بنا (کسی چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی ، کزن وغیرہ) پر وارث بنا دیا جاتا ہے اور اُس کا ایک بھائی یا بہن ہے تو بھائی اور بہن، ہر ایک کو چھٹا حصہ (16.67%)ملے گا، اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی (33.33%) میں سب شریک ہوں گے اور باقی اُس کو ملے گا جسے وارث بنایا گیا ہے۔ (سورۃ النساء)
اس سے یہی لگتا ہے کہ سب کو برابر ہی ملے گا کیونکہ یہاں پر وہ فرق نہیں فرمایا ہوا ہے جو بیٹا بیٹی میں ہے۔ اس کے ترجمے میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ سبھی علماء کا اس میں اتفاق ہے۔
سوال: دوسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اِس میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اگر فرض کیا کہ ایک شخص کی بیٹی جو شادی شدہ ہے اُس نے ہی اپنے باپ کی خدمت کی ہے اور بیٹے نے کچھ بھی نہیں کیا اور باپ نے مرنے سے پہلے کوئی وصیت بھی بیٹی کے لیے نہیں کی تو کیا مرنے کے بعد بیٹی کو قربت کی بنا پر بیٹے کے برابر حصہ مل سکتا ہے یعنی 2:2 سے تقسیم ہو سکتی ہے؟
یا بیٹی کو 2 اور بیٹے کو 1 حصہ دیا جا سکتا ہے؟کیونکہ قران نے جو اصول بیان کیا ہے صورت حال تو وہی ہے لیکن بیٹی نے بیٹے کی جگہ لے لی ہے قربت اور خدمت کی بنا پر۔؟
جواب: اس صورتحال میں جب وصیت ہی نہیں کی ہے تو معاملہ پھر عدالت ہی میں جا سکتا ہے اور جج ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں وہ پوری صورتحال کو دیکھ کر ہی فیصلہ کر سکے گا۔ آپ نے اس صورتحال میں جو فرمایا ہے، جج اس کے ثبوت کو بھی دیکھے گا کہ بیٹے نے واقعی کوئی خدمت نہیں کی تھی اور بیٹی ہی نے خدمت کی ہے۔ کیا اس بیٹے کو ابا جی نے عاق کر دیا تھا یا نہیں۔ انہی ثبوت کی بنیاد پر وہ فیصلہ کرے گا۔ اس میں جج اس اصول کو ضرور دیکھے گا کہ قربت اور خدمت کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرے۔
سوال: سر اب میں آپکے جوابات سے مطمئن ہوا ہوں اور میری سمجھ میں بھی بات آگئی ہے۔ اِس کے علاوہ سوالات یہ ہیں جو میرے ذہن میں آرہے ہیں۔
1- آپ نے مثال دی کہ 1000000 ترکہ چھوڑا تھا۔ اور وصیت میں 100000 مرنے والے نے وارث کے نام کیے جوکہ کزن تھا۔ باقی جو 900000 بچے وہ کہاں جائیں گے؟
جواب: باقی ترکہ تو اصل وارثوں کو ملیں گی جو اس کے بچے، بیگم اور والدین۔ ان میں سے جو بھی زندہ ہوں تو باقی ترکہ ان سب میں تقسیم ہو گا۔
سوال: اگر مرنے والا وصیت نہ کرے بس اپنا وارث نامزد کر دے تو پھر کُل رقم وارث کو ملے گی؟ یعنی 1000000؟ اور اِس میں سے باقی 16۰67 یا 33% اُسکے بہن بھائیوں کو ملیں گے؟
جواب: نامزد کیسے کرے گا؟ جب وہ نامزد کرے گا تو کیوں؟ کیا بنیاد ہو گی اور اسے کس وصیت کو دے رہا ہے؟ اس کے لیے جب وہ نامزد کرے گا وت اس کی فیملی انہی سے پوچھے گی۔ وہ جواب دے دیں گے۔ اگر انہوں نے قانونی ڈاکومنٹس دیے ہوں تو پھر واضح رہے گا۔ اگر کسی کو انہوں نے بتایا ہی نہیں تو پھر کچھ نہیں ہو گا۔ اگر اپنی فیملی کو بتایا ہے تو فیملی اس سے پوچھے گی کہ کس بنیاد پر مامزد کر رہے ہیں اور کیوں؟ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس لیے نامزد کر رہا ہوں کہ آپ لوگوں کو پوری وراثت کر دیں تاکہ آپ میں غلطی یا لڑائی نہ ہو۔ اس میں پھر وہی نامزد صاحب انہی شخص کی فیملی کو شریعت کے مطابق تقسیم کرے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com