السلام علیکم سر! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے؟ سر آج جو میں آپ سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں اُسکی بنیاد پر کافی لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ اِن اعتراضات میں میں سے جو میرے ذہن میں اِس وقت ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
سوال: رسول اللہ نے ایک یہودی شخص کعب بن اشرف کو قتل کروایا تھا. اِس کا پس منظر کیا ہے اور وہ دین کی کونسی بنیاد ہے جس کے تحت رسول اللہ نے اُس کے قتل کا حکم جاری کیا؟
جواب: کعب بن اشرف تو بڑا سردار تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گستخانہ حرکت بھی کرتا تھا اور اہل ایمان کو قتل کا حملہ کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ اہل ایمان صحابیات خواتین کا پراپیگنڈا بھی کر رہا تھا اور شاعری میں فحاشی کی کہانیاں سناتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اہل مکہ پر بڑی ماٹیویشن کی کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کریں۔ یہ سب کچھ کیا حالانکہ وہ پہلے ہی معاہدہ کر چکا تھا لیکن وہ یہ حرکتیں کرتا رہا ہے۔ تفصیل یہ دیکھیے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%B9%D8%A8_%D8%A8%D9%86_%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81
سوال: اور اسی طرح دوسرا ایک اعتراض میرے ایک دوست نے کیا تھا۔ کہ بنو قریظہ کے مردوں کو قتل کیوں کیا گیا؟ اُنکو معاف کر کے چھوڑا کیوں نہیں گیا؟ یا خراج لیکر کیوں نہیں چھوڑا گیا؟
جواب: بنو قریظہ نے معاہدہ کرنے کے بعد پانچ سال کچھ نہیں کیا جبکہ دیگر دو قبائل نے حملے شروع کر دیے تھے تو انہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ بنو قریظہ کو چھوڑا لیکن جنگ احزاب میں جب پورے عرب کا 30,000 لشکر مدینہ منورہ پر حملے کرنے آیا تو بنو قریظہ نے ان سے پلان کی کہ وہ باہر سے حملہ کریں اور بنو قریظہ اندر سے حملہ کرتے ہیں کیونکہ خندق بنائی ہوئی تھی۔ اللہ تعالی نے اسے ناکام کر دیا اور بنو قریظہ کو پکڑ لیا۔ خود بنو قریضہ کے سردار نے درخواست کی کہ آپ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جج بنا دیں۔ بنو قریظہ کا پرانا تعلق قبیلہ اوس سے تھا اور انہیں امید تھی کہ یہاں کے سردار تعلق میں معاف کر دیں گے۔
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اوس کے سردار تھے اور ان کا بنو قریضہ سے پرانی دوستی تھی۔ جنگ احزاب کے دوران ان پر تیر لگا تھا اور وہ زخمی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جج بنایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی دینی کتاب تورات کے احکامات کے عین مطابق اس نوعیت کے جرم کی سزا دی۔ سزا یہ تھی کہ اس کے فوجیوں کو قتل عام کیا جائے اور باقی لوگوں کو قیدی بنایا جائے۔ تفصیل آپ کو میری اس کتاب میں ملے گی باب 164۔ بنو قریظہ کی فیملی، بچوں اور بزرگوں کو کچھ عرصے بعد چھوڑ دیا اور ان کی بڑی تعداد بعد میں ایمان بھی لے آئی۔ صرف فوجیوں پر سزا دی گئی۔
سوال: اِسکے علاوہ اگر آپکو بھی کوئی اسطرح کا واقعہ یاد ہے تو اسے نقل کر کے وضاحت فرما دیں؟
یہ بنو قریظہ کے معاملے میں میں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا۔ کیونکہ بنو قریظہ نے عہد کی خلاف ورزی کی تھی اور بد عہدی کی سزا تورات میں قتل ہے لہذا بنو قریظہ کو اُنکی کتاب کے قانون کے مطابق قتل کیا گیا۔ میں نے مزید وضاحت کی کہ اس سے پہلے بنو غطفان کو مسلمانوں نے معاف کیا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔لہذا اب قانون نافذ کیا گیا۔
میرے اِس جوب پر اپنی رائےدیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔یا اِس میں کیا تبدیلی یا مزید وضاحت درکار ہے؟
جواب: ہر مجرم کی صورتحال کے لحاظ سے ہی عدالت میں فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک مجرم زیادہ خطرناک ہو تو اس پر سزا زیادہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک مجرم کئی مرتبہ جرم کر چکا ہو تو اس کی سزا بھی زیادہ ہی آتی ہے۔ بنو غطفان پر سزا وہی ہوئی جو سورۃ التوبہ کے شروع میں ہے۔ لیکن پھر انہوں نے سرنڈر کر دیا تو انہیں معاف کر دیا گیا۔ پھر جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جرم کیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایکشن کروا دیا اور بڑی تعداد مارے گئے۔
سوال: سر جہاں تک میرا اسلام کے متعلق مطالعہ ہے اِن سوالات کے بارے میں وہ یہ ہے کہ الہامی دین جو کہ اسلام ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا،اِس دین میں قتل کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
الله کی سنت یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد دینونت اسی دنیا میں برپا کر دی گئی اور کافروں کو دنیا سے مٹا دیا گیا۔مثلاً قومِ نوح،عاد،ثمود،لوط وغیرہ۔ اور ذریتِ ابراہیم کو اِس دنیا میں نشانی کے طور پر چھوڑا اور بنی اسرائیل پر ذلت مسلط کر دی گئی اور رسول اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کے ذریعے منکرین کو سزا دی گئی اور اُنھیں قتل کر دیا گیا۔
قران پاک میں جو سزائے موت یا قتل کا بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اُس شخص کو قتل کیا جائے گا جس نے کوئی نا حق قتل کیا ہو یا پھر فساد فی الارض کا مرتکب ہوا ہو۔ رسول اللہ نے بھی اسی کو اپلائی کیا اور سنت کے طور پر جاری کیا۔
اب جو میں نے اوپر کعب بن اشرف والا سوال کیا ہے اُسکی قران و سنت کی روشنی میں کیا تو جیہہ ہو گی؟ رسول اللہ نے کس بنا پر اُسکے قتل کا حکم دیا؟
جواب: یہ وہی معاملہ ہے کہ بنی اسرائیل کے زیادہ سخت بڑے مجرم بنے تو انہیں موت کی سزا ہی دی گئی۔ باقی جو نارمل مجرم بنے تو انہیں مغلوبیت کی سزا دی۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں پر تاریخ میں یہ ہوتا رہا ہے کہ بڑے مجرم مارے گئے اور باقی سب مغلوب ہوئے۔ ابھی اس وقت بنی اسماعیل کے عرب مسلم ممالک اور بنی اسرائیل کا ملک اسرائیل کی یہی صورتحال ہو رہی ہے یعنی مغلوبیت۔
دینونیت کا اصول یہی ہے کہ اللہ تعالی کے رسول جب اپنی قوم پر اللہ تعالی کی دعوت دیتے ہیں تو موجودہ زندگی میں اہل ایمان کو جزا مل جاتی ہے اور منکرین کو سزا مل جاتی ہے تاکہ یہ ثبوت ہر انسان کو معلوم ہو کہ ہر انسان کے ساتھ آخرت میں یہ کرنا ہے۔ جب اہل ایمان کی تعداد کم ہو تو پھر اللہ تعالی سزا فرشتوں کے ذریعے کرتا رہا جیسا کہ حضرت نوح، ابراہیم، صالح، لوط اور شعیب علیہم الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہوا۔ جب اہل ایمان کی تعداد زیادہ ہوئی تو پھر انہی کے ہاتھوں سزا دی گی۔ یہ معاملہ حضرت موسی علیہ الصلوۃ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سزا کو اپلائی کر دیا گیا۔ قرآن مجید کا موضوع یہی ہے۔
بنی اسرائیل اور مسلمان چونکہ اہل ایمان ہیں۔ اس لیے وہ آخرت کی مثال پر پریکٹس کی جاتی ہے۔ جب وہ اہل ایمان میں صحیح رہے اور نیک عمل کرتے رہے تو انہیں جزا ملی کہ وہ دنیا کی سپر پاور بن گئے۔ لیکن جب انہوں نے دین کی شریعت کے خلاف عمل کیا تو انہیں مغلوبیت کی سزا ملتی رہی اور آج تک ہے۔ یہ جزا و سزا کا سلسلہ ذاتی طور پر نہیں بلکہ قوم کی حیثیت سے ہوتا رہا ہے اور اس کا ٹارگٹ ان کے لیڈرز ہی ہوتے رہے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com