سوال: ہماری جو اپروچ ڈیویلوپ ہوئی ہے ہم اسکے مطابق احادیث کو تاریخی ریکارڈ مانتے ہیں ۔ آپ اس چیز کی وضاحت بھی کریں کہ یہ جو احادیث کے ذریعے فضائل و مناقب بیان کیے جاتے ہیں اسطرح کی احادیث کی کیا اہمیت ہے۔ اور انھیں کس طرح دیکھنا چاہیے؟
جواب: اس کا حل مجھے یہی ملا کہ احادیث کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے جسے محدثین نے ریسرچ کر دی۔ ہمیں صرف اتنا ہی کرنا ہے کہ ان کی ریسرچ سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ فضائل اور مناقب کی زیادہ تک احادیث ضعیف اور جعلی ہیں۔ اکا دکا کچھ صحیح احادیث بھی ہیں تو ان میں کسی انسان پر شخصیت پرستی کی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ کسی صحابی یا اہل بیعت نے کوئی اچھا عمل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تعریف کر دی۔ اس کی شکل وہی تھی جو اپنے کسی شاگردوں کے ساتھ آپ کرتے ہیں۔ اگر شاگرد نے کوئی اچھا عمل کیا تو اچھا استاذ اسے بغیر سوچے ہی کرتا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔
سب سے اہم تبصرہ جو صحیح مسلم کے ریسرچر امام مسلم نے مقدمہ میں تجربہ ارشاد فرمایا کہ جھوٹ بولنے والوں کی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو عبادت زیادہ کرتے ہیں اور ان کی مسجدوں میں راتیں گزارتے ہیں۔ انہوں نے 260 ہجری کے زمانے میں تحریر لکھی اور ان کے ارشادات کو آپ انگلش میں ترجمہ دیکھ سکتے ہیں۔
We have explained something about the way of the people of HadIth, and what anyone who wants to follow their way should do. We will discuss it more – if Allah wills – in many places in this book, when discussing Mu ‘allal (deficient) reports as we come to them, in places where it is appropriate to comment, if Allah the Most High wills.
After that – may Allah have mercy upon you – were it not for what we have seen of the bad conduct of many of those who have appointed themselves as HadIj/i scholars, who should have cast aside the Da ‘If (weak) AhâdIjh and Munkar reports, and who did not limit themselves to the well known SahIh reports which have been transmitted by trustworthy narrators who are known for their truthfulness and honesty, so that much of what they tell the common folk who have no knowledge is not right and is transmitted by people who are not approved of, and whose reports are criticized by the A ‘imma of IIadWj such as Mâlik bin Anas, lju’bah bin Al-ajjâj, Sufyân bin ‘Uyaynah, Yahya bin Sa’Id Al-Qattân, ‘Abdur-Rahmân bin MahdI and other A ‘imma – then we would not have taken on this mission of distinguishing good reports from bad and writing them down, as you have asked us to do.
But because of what we have mentioned about the people spreading Munkar reports with Da ‘If (weak) and unknown chains, and their narrating them to the common folk who do not recognize what is wrong with them, we felt motivated to respond to your request. (Sahih Muslim, Muqadamah)
جن شخصیتوں پر زیادہ احادیث ملیں گے تو وہ حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے۔ جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت کو گرانا چاہ رہے تھے تو مختلف پارٹیوں میں اختلاف تھا کہ اگلا حکمران کسے بنائیں۔ کچھ علی کو، کچھ طلحہ اور کچھ زبیر رضی اللہ عنہم کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ ہر گروپ کو امید یہ تھی کہ وہ ہمیں گورنر بنا دیں گے اور پھر ہماری حکومت بن جائے گی۔
ان پارٹیوں کے اختلاف کی وجہ سے انہیں 40 دن تک مدینہ پر قبضہ کیا ورنہ اگر ان کا اتفاق ہوتا تو پھر پہلی رات ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے ایک کو خلیفہ بنا دیتے۔ لیکن ان کی لٹیا ڈبو دی بالخصوص علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے کہ انہوں نے حکومت پر دلچسپی نہیں رکھی اور تینوں نے اپنے جوان بیٹوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے گارڈ بنا دیا۔ بالآخر انہیں یقین ہو گیا کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنیں گے تو پھر انہیں کنٹرول کرنا آسان ہو گا۔ چنانچہ ساری پارٹیوں کا اتفاق ہوا اور عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ علی رضی اللہ عنہ پر طلحہ، زبیر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اتفاق تھا، اس لیے وہ خلیفہ بنے۔
آگے جنگیں ان صحابہ میں نہیں ہوئی بلکہ صرف اسٹریجی کی اختلاف ہی نظر آتی ہے۔ پھر ان باغیوں میں خوارج واضح ہو گئے تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا۔ باغیوں ہی میں زیادہ شدت پسند نہیں تھے جو شیعان علی کہلاتے تھے۔ انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا کہ انہیں امید تھی کہ وہ ہمارے کنٹرول میں آ جائیں گے لیکن انہوں نے پھر لٹیا ڈبو دی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت دے دی۔ پھر بیس سال تک سکون رہا لیکن ان کی وفات کے بعد بغاوتوں کا لمبا عرصہ جاری رہا۔
عبدالملک بن مروان نے کسی حد تک کنٹرول کر لیا لیکن پھر 50 سال بعد بغاوت پھر شروع ہو گئی۔ اس کے بعد بنو عباس کی حکومت بن گئی لیکن کنٹرول تاجکستان ازبکستان کے لوگوں کا رہا۔ بالآخر بنو عباس خلیفہ بس نام کے حکمران تھے جبکہ حقیقتاً ہر علاقے کے گورنرز ہی کا کنٹرول رہا۔
آپ کو جعلی احادیث زیادہ تر نظر آئیں گی جن میں 40-400 ہجری تک پیدا ہوئیں۔ پراپیگنڈا کا یہی آسان طریقہ تھا تاکہ اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو ماٹیویٹ کر سکیں۔ اب جو بزرگ پہلے فوت ہو چکے تھے، ان کے نام پر پراپیگنڈا آسان ہوتا ہے چنانچہ یہی ٹول استعمال ہوتا رہا۔ اس وجہ سے علی اور حسین رضی اللہ عنہما کے نام سے پارٹیاں بنتی چلی گئیں۔ اگر تو وہ باغی متفق ہوتے تو پھر ایک ہی شخصیت کی عقیدت سامنے آتی لیکن شیعہ حضرات کے ڈھیروں فرقے الگ الگ ہوتے چلے گئے۔
اس کی مثال آپ آج کل بھی دیکھ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی والوں نے اپنے وفات کردہ بھٹو صاحب کی بنیاد پر کیسا پراپیگنڈا استعمال کرتے ہیں۔ اب یہی لگ رہا ہے کہ نواز شریف صاحب کی وفات کے بعد ان کا مزار بھی بنے گا اور ان کی عقیدت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بالکل یہ بھی دیکھیے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے جناح صاحب کی حکومت میں ان کی صحت کی خدمت نہیں کی اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر وہ قائد اعظم بن گئے اور آج تک کی سیاست ایسی ہے۔ اس کی تفصیل فاطمہ جناح صاحبہ نے واضح بیان کر دیا لیکن پھر ان کی وفات بھی پہنچ گئی۔ یہ صرف مسلمانوں تک ہی نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں کی سیاست میں بھی ایسی ہی مثالیں مل جائیں گی جیسے ہٹلر کے پراپیگنڈا پر آپ کوئی بھی آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں۔
جعلی روایات میں کس قسم کی روایتیں آپ کو ملیں گے، اس کے لیے آپ اس آخری لیکچر کو سن لیجیے تو ایک مثال آپ کے سامنے آ جائے گی جس میں مستقبل کے مہدی کی بنیاد پر احادیث ایجاد ہوئی ہیں۔ حالانکہ اس روایت میں صرف بنو عباس کی بغاوت کے لیے مہدی ایجاد ہوئے تھے، لیکن ابھی ضرورت ہے کہ مستقبل کی سیاست میں مہدی کی ضرورت ہے تو مذہبی سیاستدان اسی کو استعمال کرتے ہیں۔
HS23-Practice Hadith Research – Analysis to confirm that is it Authentic or Not?
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com