سوال: اس حدیث کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ ہم گئے ۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا ، افسوس ! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی ۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔
( صحیح بخاری#447 ،کتاب نماز کے احکام و مسائل)
اس پر سوال یہ ہے کہ کیا باغی جماعت سے مراد معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت ہے؟ اگر ہے تو انہوں نے کس سے بغاوت کی تھی؟
جواب: اس حدیث کے سیاق و سباق سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب جنگ احزاب کے لیے خندق بنائی جا رہی تھی اور صحابہ نبی ﷺ کے ساتھ کئی علاقوں میں دیواروں کو بند کر رہے تھے، تو اس وقت عمار رضی اللہ عنہ بہت محنت سے زیادہ سے زیادہ اینٹیں اٹھا رہے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ فرمایا تھا۔
اس حدیث میں سب سے اہم کی ورڈ ہے باغی گروپ جسے عربی میں باغی جماعت کہا گیا ہے۔ لوگوں نے ان کو دو جماعتیں کہہ دیا ہے، ایک علی رضی اللہ عنہ کی جماعت اور دوسری معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت۔ اب خود ہی دو پارٹیاں بنا کر یہ لوگ سوچنے لگے کہ ان میں سے باغی جماعت کونسی ہے۔ جب کہ حقیقت یہی تھی کہ ان دونوں ہی میں سےباغی جماعت کوئی بھی نہیں تھی، بلکہ باغی پارٹی تو وہ تھی جو عثمان، طلحہ، زبیر اور بعد میں علی رضی اللہ عنہم اور دیگر بہت سے صحابہ و تابعین کو شہید کر چکے تھے۔
اس باغی پارٹی کا مرکز عراق بن چکا تھا اور اس عراق کو کنٹرول کرنے کی کاوش علی رضی اللہ عنہ کر رہے تھے۔ ان کی حکمت عملی یہی تھی کہ اس پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجودتھے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے تھے، لیکن وہ اپنے لیڈرز کے پراپیگنڈے سے متاثر تھے۔ اب علی رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اس اکثریتی حصے کو شدت پسند لیڈر شپ کے اثرات سے کسی طرح بچایا جاسکے۔ اس لیے شیعہ حضرات کی کتاب نہج البلاغہ میں علی رضی اللہ عنہ کے لیکچرز اور خطبات موجود ہیں جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
آپ معاویہ کی گورنرشپ کو نہ ہٹائیں ورنہ بہت سی گردنیں کٹتی جائیں گی۔
باغی پارٹی کے لیڈرز کا مقصد یہ تھا کہ وہ حکومت پر قبضہ کر لیں اور ان کے لیے سب سے بڑا ٹارگٹ معاویہ رضی اللہ عنہ تھے، جو اس باغی پارٹی کو ختم کر سکتے تھے۔ اس لیے اس باغی پارٹی کے وہ لوگ جو نسبتاً شدت پسند نہیں تھے، انہی کو علی رضی اللہ عنہ نارمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ باغی لیڈرز نے تو یہی پلان کیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کسی طرح قتل کر دیں اور وہ لشکر بنا کر شام کی طرف چلے۔ اب ضرورت تھی کہ اس باغی پارٹی کو کسی طرح قابو کیا جائے اور یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ راستے میں جو بھی گاؤں، شہر ملے تو اس میں بھی تباہی کرتے جائیں گے۔ اس لیے علی رضی اللہ عنہ اس باغی پارٹی کو کنٹرول کرنے کی کاوش کے لیے چلے گئے۔
دوسری طرف معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم ہو گیا کہ عراق سے باغی پارٹی شام کی طرف آ رہی ہے تو آپ بھی اپنی فوج کے ساتھ پہنچ گئے۔ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما نے جنگ نہیں کی اور ایک ماہ تک مذاکرات کرتے رہے۔ باغی پارٹی کے لیڈرز میں اب صبر باقی نہ رہا اور انہوں نے جنگ صفین شروع کردی۔ اب اسی معاملے میں باغی پارٹی نے عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا اور دیگر مخلصین کو بھی شہید کر دیا۔ اسی کی پیشگوئی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر کر دیا تھا۔
اس جنگ صفین کو علی ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم نے مل کر ختم کیا اور انہوں نے اپنے سےمحبت کرنے والوں کو روک لیا ، جس سے شدت پسند لیڈرز کسی حد تک قابو ہو گئے۔ اسی دوران ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تحکیم کا معاہدہ کر دیا کہ دونوں طرف سے جج بنا کر فیصلہ کر لیں کہ باغیوں کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟ ان جج حضرات نے فیصلہ کر دیا کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما اپنے اپنے علاقوں کو کنٹرول کر لیں چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے عراق ، ایران اور عرب ممالک کو کنٹرول کیا۔ دوسری طرف معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیریا، اردن، لبنان، فلسطین اور مصر کو کنٹرول کر لیا۔
اسی تحکیم کے نتیجے میں کئی مہینوں کے لیے امن پیدا ہو گیا اور اس امن کے لیے عمار رضی اللہ عنہ شہید ہو چکے تھے۔ اس کا رزلٹ یہ نکلا کہ جو ان سے محبت کرنے والے لوگ تھے، وہ کنٹرول میں آ گئے لیکن شدت پسند حضرات اپنے شہروں سے نکل کر عراقی جنگل میں اکٹھے ہو گئے اور اپنی جماعت بنانے لگے اور ان کا نام خوارج پارٹی بن گیا اور وہ دہشت گردی کرنے لگے اور عوام کو قتل کرنے لگے۔اس کے لیے علی رضی اللہ عنہ نے ایکشن کیا اور خوارج کے خلاف جنگ کی اور ان کی بڑی تعداد کو قتل کیا۔ دوسری طرف معاویہ رضی اللہ عنہ نے مصر میں باغی پارٹی کے باقی ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ اب ایران اور یمن میں سکون ہو گیا، لیکن عراق کے جنگلوں میں خوارج پھر بھی باقی رہے۔
اس باغی پارٹی کے باقی لیڈرز نے علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم پر کفر کا فتوی جاری کر دیا اور ایک ہی رات میں تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قتل کرنے کا پلان جاری کر دیا۔ اس کے لیے دہشت گرد نکلے لیکن معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے قتل میں ناکام ہوئے۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ کو نماز کے اندر ہی زخمی کر دیا۔ آخری منٹس میں علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو سمجھا دیا کہ عراق کو کنٹرول کرنا آپ کے لیے مشکل ہے، اس لیے معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کو دے دینا۔
اس کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور جو مخلص لوگ عراق میں تھے تو انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مان لیا۔ آپ نے خطوط کے ذریعے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مذاکرات کیے اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بلینک سائن کر کے حسن رضی اللہ عنہ کو دیا کہ آپ خود شرائط طے کر لیجیے۔ شرائط میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نے طریقہ یہی لکھا کہ رقم دے کر باغی پارٹی ختم ہو سکتی ہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا۔
اسی کا نتیجہ ہوا کہ بیس سال کے لیے عراق میں بھی امن ہو گیا۔ اسی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ ان کو 1,000,000 درہم دیا کرتے تھے تاکہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں بغاوت ختم ہو جائے۔ چنانچہ بغاوت ختم ہو گئی اور عراق میں امن آ گیا۔ لیکن اب باغیوں میں جو انتہائی شدت پسند رہ گئے تھے، ان میں طاقت ختم ہو گئی تھی چنانچہ وہ سازشوں کو چھپا کر اسٹریٹیجی کرتے رہے۔
اسی سازش میں انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو زہر کے ذریعے شہید کر دیا۔ اس باغیوں کے آخری دشمن حسین رضی اللہ عنہ رہ گئے تھے۔ جیسے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو عراق میں بغاوت پھر شروع ہو گئی۔ حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط انہی باغیوں نے لکھے ہوئے تھے، انہوں نے محبت کے خطوط لکھے تھے، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ انہی کی اصلاح کے لیے عراق تشریف لائے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کی کوشش کی، لیکن حسین رضی اللہ عنہ کو امید تھی، اس لیے عراق چلے گئے۔ انہی باغیوں نے پھر حسین رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا جسے سانحہ کربلا کہا جاتا ہے۔ جعلی کہانیوں کے ذریعے ان کے پراپیگنڈا کی روایات کتابوں میں پہنچ گئیں جو آج تک موجود ہیں۔
یہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بھی باغی پارٹیوں اور دہشت گرد پارٹیوں کا طریقہ یہی ہے کہ وہ جعلی کہانیوں سے اپنے ساتھیوں کو قابو کرتے ہیں۔ ابھی بھی آپ پاکستان، عراق، افغانستان، یمن اور سوڈان کی صورتحال دیکھ سکتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com