سوال: مسلک اور مکتبہ فکر میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب: عام طور پر لوگ اپنے اپنے معنی میں مسلک، مکتبہ فکر، فرقہ سب الفاظ کو ایک ہی معنی میں کہہ دیتے ہیں۔ علمی طور پر اس میں فرق یہ ہے کہ مکتبہ فکر وہ ہوتا ہے کہ ایک پڑھے لکھے انسان کے ذہن میں ایکآئیڈیا آیا اور جب دیگر پڑھے لکھے لوگوں کو اس نے وہی آئیڈیا سنایا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس طرح زیادہ پڑھے لکھے لوگ اس آئیڈیا پر متفق ہوتے ہیں تو وہ پھر مکتبہ فکر بن جاتا ہے۔ اس اتفاق میں بہت بڑی تعداد کے لوگ متفق ہو جائیں اور اس آئیڈیا کے الٹ سےدوسرے بہت سے لوگ اختلاف کرتے ہیں تو پھر دونوں گروپس اپنا مسلک بیان کرتے ہیں اور دوسرے لوگ اپنا مسلک کہہ دیتے ہیں۔ اگر تو معاملہ اتنا ہی ہو تو بس یہی ہو جاتا ہے۔ جب دونوں مسلک والوں میں اختلاف زیادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے دشمنی شروع کر لیتے ہیں تو یہ فرقہ بن جاتا ہے۔
اس کی مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بڑے عالم تھے ،تو ان کے شاگرد بھی بڑے عالم بنے اور سب میں اتفاق تھا کہ اس طریقے سے ہمیں ریسرچ کرنی چاہیے۔ اسی کو لوگ “مکتبہ فکر ابن عباس” کہنے لگے تھے۔
بہت عرصے بعد انہی شاگردوں کے بڑے شاگرد بڑے عالم بنے جو مدینہ منورہ کے عالم امام مالک رحمتہ اللہ علیہ مشہور ہوئے۔ بہت سے لوگ مدینہ منورہ میں کئی سال تک ان سے پڑھتے رہے اور پھر اپنے ملکوں میں چلے گئے۔ ان کی تعداد زیادہ بڑھ گئی تو پورے افریقہ اور اسپین کے لوگ مالکی کہلانے لگے اور وہ مسلک مالکی یا مکتبہ فکر مالکی کہلانے لگے۔ چونکہ دوسرے مسلکوں میں اختلاف رہا لیکن شدت اور دشمنی پیدا نہیں ہوئی تو ابھی تک انہیں مسلک ہی کہہ سکتے ہیں۔ انڈیا پاکستان کے علماء عام طور پر حنفی مسلک یا حنفی مکتبہ فکر کی حیثیت سے ہی اپنے آپ کو کہلاتے ہیں اور فرقہ نہیں کہلاتے ہیں۔
بہت سے مکاتب فکر اور مسلک سائنس اور سوشل سائنسز میں بھی ہوتے ہیں۔ چھوٹے ہوں تو مکتبہ فکر ہوتا ہے اور زیادہ لوگ ہو جائیں تو مسلک کہلا سکتے ہیں۔ بڑی تعداد میں جب آپس میں لڑائیاں بھی پیدا ہوں گی تو پھر وہ فرقہ بن جائیں گے۔
سوال: اللہ تعالیٰ نے مختلف ادیان کو اسلام کی بجائے مختلف ناموں سے کیوں متعارف کرایا ہے؟
جواب: ان کا تعارف اللہ نے نہیں کروایا بلکہ یہ خود ہی ان ناموں سے معروف تھے اور اپنی شناخت ان ناموں سے کرواتے تھے، چنانچہ اللہ نے ان کو انہی کے رکھے ناموں سے مخاطب فرمایا ہے۔ باقی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ السلام کے دین کا نام ہمیشہ سے ہی اسلام ہے۔ ہاں زبان کا لفظ مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس کا معنی ایک ہی ہوتا ہے کہ “اللہ تعالی کے حضور سرنڈرکرنا” ۔ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دین کا نام اسلام ہی بتایا ہے جو قرآن مجید میں ہے اور تمام عرب جانتے تھے۔یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کا ٹائٹل “اسرائیل” تھا جو عبرانی زبان میں تھا اور اس کا مطلب تھا “عبداللہ” یعنی اللہ تعالی کا بندہ۔
بنی اسرائیل کے ہاں فرقے بنے تو انہوں نے اپنا نام تو وہی بنی اسرائیل یعنی اللہ تعالی کے بندے کی امت رکھا، لیکن ہر فرقے نے اپنا اپنا نام مختلف کر لیا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ ہواہے کہ خود کو سب ہی مسلم اور اپنا دین اسلام ہی کہتے ہیں ، لیکن سب کا جذبہ اپنے فرقے کے نام سے زیادہ مشہور ہو جاتا ہے۔ بالکل یہی معاملہ پرانی امتِ مسلمہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے فرقوں نے الگ ناموں کے ٹائٹل بنالئے اور وہی مشہور ہو گئے۔ بنی اسرائیل کا بڑا فرقہ یہودیت بنا۔ دوسرے فرقے نے یحیی علیہ الصلوۃ والسلام پر فوکس کیا تو انہوں نے اپنا نام صابی رکھ دیا۔ تیسرے فرقے نے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر فوکس کر کے اپنا نام عیسائی رکھ لیا یعنی کرسچن کہلانے لگے اور عربی میں نصرانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ باقی آپ ان تینوں کی تاریخ کو میری پہلی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: اختلافات میں کیا مکالمہ بین المذاہب اہم کردار ادا کر سکتا ہے؟
جواب: اس میں دعوت کا طریقہ کار ہی ہوسکتا ہے، اللہ تعالی نے بتا دیا ہےکہ اچھے رویے کے ساتھ دعوت پہنچانی چاہیے۔ اس لیے مکالمہ بین المذاہب میں اچھے رویے اور عمدہ زبان میں خوبصورتی کے ساتھ قرآن مجید کو پہنچا دینا چاہیے اور دوسروں کی عزت کرنی چاہیے اور خلوص کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ اختلافات پر فوکس نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف اور صرف دین کا پیغام پہنچا دینا چاہیے اور یہی مکالمہ بین المذاہب ہے۔ مناظرہ بازی سے بچنا چاہیے کہ اس میں لوگوں میں نفرتیں ہی پھیلتی ہیں۔ جب تعصب ختم ہو جائے تو پھر تقابلی مطالعہ بالکل آزادانہ طریقے سے اسٹڈیز کرنی چاہیے تاکہ نفرت کی بجائے ایکڈیمک طریقے سے پڑھیں تو انہیں ہر معاملے میں غلطی سامنے آ جائے گی۔ اس کے لیے ایک حقیر کاوش میں نے کی ہے۔
سوال: اختلاف رائے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟
جواب:دعوت کے لیے آغاز صرف اتحاد سے ہی کرنا چاہیے۔ جب اچھا تعلق قائم ہو جائے تو اچھے اخلاق کے ساتھ دعوت دیں۔ اگر وہ آپ سےاختلاف کرے تو یہ پہلے چیک کر لینا چاہیے کہ وہ سمجھنا بھی چاہ رہے ہیں یا محض مناظرہ ہی کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ سمجھنا چاہ رہے ہیں تو پھر پوری عزت اور محبت کے ساتھ اختلاف اور اس کے دلائل پیش کر لینے چاہئیں۔ بحث اور مناظرے سے عزت کے ساتھ ہی معذرت کر لینی چاہیے۔
سوال: مسلمانوں میں فرقہ پرستی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
جواب: یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہر انسان سوچنا نہ چھوڑ دے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس زندگی میں ممکن نہیں، اس لیے فرقہ پرستی کا سلسلہ آخرت ہی میں ختم ہو گا۔ ابھی صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی تربیت کرتے رہیں کہ رویہ اچھا رکھیں اور اختلاف کے ساتھ عزت کرتے رہیں۔ اس میں یہی ہو گا کہ اختلاف کے ساتھ دوسرے بھی عزت کے ساتھ خلوص کی گفتگو کریں گے۔ فرقہ پرستی کے رویے پر تنقید کرنی چاہیے لیکن کسی انسان یا گروپ کے نام پر نہیں بلکہ عمدہ رویہ کے اختلاف کی تربیت کرنی چاہیے۔ اس میں وحید الدین خان صاحب نے کافی تحریر اس موضوع پر کی ہے۔ اس کا خلاصہ میں نے اپنی کتاب میں عرض کر دیا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com