سوال: قسطوں کے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ سود ہی کی ایک قِسم تو نہیں؟
جواب: قسطوں پر کوئی بھی چیز خریدتے ہیں تو اس میں انسٹالمنٹ میں رقم دینی پڑتی ہے اور کیش کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی مثال دیکھ لیجیے کہ آپ کیش پر گاڑی خرید رہے ہیں تو اس کی قیمت 5,000,000 روپے(پچاس لاکھ) ہے۔ اب قسطوں پر وہی گاڑی خریدیں تو طے ہوا کہ تین سال تک ماہانہ رقم دینی ہے۔ کمپنی سے معاہدہ ہوا کہ آپ نے ہر ماہ کی قسط PKR166,667 دینی ہے۔ اس طرح سے آپ تین سال میں کل رقم PKR6,000,000 (چھے لاکھ) دے چکےہوتے ہیں۔ کنفیوژن یہیں پر آتی ہے کہ اب جو دس لاکھ زیادہ ادا کیے ہیں تو کیا وہ سود ہے یا نہیں؟
اس میں سود کا اصول یہ ہے کہ ہم کسی سےکیش لے لیں اور واپسی پر زیادہ دیں۔ ہم نے کسی سےاگر پچاس لاکھ لے لیے تو اسے ہم استعمال کر لیں گے اور یہ فنا ہو جائے گا۔ اب ہمیں پچاس لاکھ کے ساتھ دس لاکھ مزید پیدا کرنے پڑیں گے تو تب پورا کیش واپس کریں گے۔ اس میں جو دس لاکھ ہم نے زیادہ پیدا کر کے دیے ہیں تو وہ سود ہے جو کہ حرام ہے۔ جو شخص بھی اضافہ لے رہا ہے تو وہ پیشاب کی طرح گندی چیز کھا رہا ہے اور وہ گناہ کر رہا ہے۔
لیکن یہاں ہم کیش نہیں لے رہے بلکہ گاڑی لے رہے ہیں۔ سود کا اطلاق ہمیشہ قابلِ صرف کنزیوم ایبل اشیا پر ہوتا ہے لیکن گاڑی قابلِ صرف کنزیوم ایبل چیزنہیں ہے ، وہ فنا نہیں ہوجاتی ، بلکہ وہ ایک املاکِ قائمہ فکسڈ ایسٹس ہیں۔ فرض کیجیے کہ درمیانمیں ہم کسی مشکلات میں آگئے اور قسطیں نہیں دے سکے تو پھر وہ کمپنی والے ہم سے گاڑی لے لیں گے اور اسے بیچ کر آپ نے جتنی رقم ادا کر دی تھی، وہ آپ کو واپس کر دیں گے۔ اس لیے اس میں پھر سود نہیں ہے، بلکہ یہ انہوں نے ہماری مدد کی تھی کہ جب ہمارے پاس کیش نہیں تھا، پھر بھی انہوں نے ہمیں گاڑی دے دی تھی اور ہم اسےاستعمال کرتے رہے، پھر جب ہم نے پوری رقم نہیں دی تو اب وہ اپنی گاڑی واپس لے کر ہمیں رقم واپس دے رہے ہیں۔ اسے لیزنگ یعنی کرایہ پر دینا کہتے ہیں اور اس کا استعمال صرف فکسڈ ایسٹس میں ہوتا ہے جیسے گھر، گاڑی، مشین وغیرہ کیونکہ اتنے عرصے میں وہ استعمال ہوں گی لیکن فنا نہیں ہو جائیں گی۔
عام طور پر قانون اور معاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ اسی گاڑی میں ہر ماہ یہ رقم دینی ہو گی۔
Cost of Car Installment = PKR 138,889 x 36 = 5,000,000
Rent during using car = PKR 27,778 per month = 1, 00008
ہر قسط میں جتنی رقم ہم نےادا کی تو اتنے حصے کے ہم مالک بن گئے۔ ایک سال تک ہم رقم ادا کرتے رہیں تو ہم 33% مالک بن چکے ہوتے ہیں جبکہ کمپنی ابھی 67% مالک ہوتی ہے۔ اب اگر ہم مزید رقم نہیں دے سکتے اور مشکلات میں آجاتےہیں اور ہم کمپنی کو کہتے ہیں کہ آپ گاڑی لے لیں اور ہماری رقم واپس کر دیں۔ تو معاہدے کے مطابق کمپنی نے گاڑی لے کر فرض کیا کہ PKR4,000,00 (چالیس لاکھ) میں بیچ دی اور اس میں سے 33% رقم یعنی PKR1,333,333 واپس کر دی ہے۔ اس لیے ہمیں کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ہوتا، اس لیے اس میں سود نہیں ہے۔
ہاں یہی معاملہ اگر کسی کنزیوم ایبل اشیاء (جو اشیاء استعمال کرنے سے ختم ہوجائیں) میں ہوتا تو پھر ہم مشکلات میں آتے اور یہ سود تھا۔ فرض کیجیے کہ اسی رقم میں ہم 5,000,000 روپے میں چاول، گندم، پٹرول لے لیا اور قسطیں دے رہے تھے۔ سال گزر گیا تو پورے سال میں وہ اشیاء تو فنا ہو گئیں اور اب ہم قسطیں نہیں دے پارہے ہیں کیونکہ مشکلات آ گئی ہیں۔ اس لیے ہمیں دوبارہ چاول، گندم، پٹرول کہاں سے پیدا کر کے دیں کہ کمپنی کو مزید قسطیں ادا کرسکیں۔ اس میں ضرور سود موجود ہے جو حرام ہے۔ یا کمپنی والے ہمیں واپس کریں تو کیوں واپس کریں؟
اس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کنزیوم ایبل اشیاء میں سود ہوتا ہے جبکہ فکسڈ ایسٹس میں سود نہیں ہوتا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com