سوال: آج کل موجودہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی جنگ میں آپ کا کیا مؤقف ہے۔ مسلمانوں کو اس صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیئے؟ میں جب بھی جاوید احمد غامدی صاحب کےمؤقف سنتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مسلمان ہی اس کشمکش کے ذمہ دار ہیں ۔ یعنی ان کا رویہ مسلمانوں کے خلاف ہی بظاہر نظر آتا ہے ۔ یعنی کبھی وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیون کو مسلح کوشش کی بجائے سیاسی جدوجہد کرنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیئے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی مسلمانوں کو طاقت حاصل ہو جائے۔
میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ایک طرف اسرائیل اپنی ناجائز ریاست کے قیام کے لیے ہر اقدام کر جائے اور مسلمانوں کی نسل کشی تک پر اتر آئے ۔ ان کو گھروں سے بے گھر کر دے لیکن مسلمانوں کو پھر بھی منتظر رہنا چاہیئے۔ یعنی مسلمان اگر مزاحمت کریں تو وہ بھی صحیح نہیں اگر سیاسی جدوجہد کریں تو وہ بھی ناجائز۔ کیونکہ 2018ء میں پر امن احتجاج پر 300 بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ۔
یعنی مغربی دنیا محض طاقت کےبل بوتے مسلمانوں کے ساتھ سب کچھ کر جائے لیکن ہمیں اپنے دفاع مین کچھ کرنے کی بجائے تماشہ دیکھنا چاہیئے۔
مجھے تو بعض اوقات لگتا ہے کہ شاید وہ امریکہ میں پناہ لیے ہوئے ہیں اس لیے مذہب کی بات کرتے ہیں لیکن جب وہ دین کوبطور نظام پیش کریں گے تو ان کو امریکہ بھی چھوڑنا پڑے گا۔ اب کا کہا کہنا ہے؟ طلحہ خظر
جواب: آپ نے بالکل صحیح تجزیہ فرمایا ہے۔ اس کے لیے ہم اسی دور جدید کی تاریخ کو دیکھ لیتے ہیں۔ اسرائیل کی پیدائش تو پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یورپ کی دونوں سپر پاورز جرمن اور برٹش امپائر کی طاقت تھی۔ یہودیوں کی بڑی آبادی یورپ کے کمزور ممالک کے مختلف شہروں میں تھے اور اس وقت ان کے سیاستدانوں نے انگریزوں سے تعلق قائم کی اور انہوں نے درخواست کی کہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور آپ ہمیں ارض مقدس میں آزاد ملک بنا دیں۔ انگریز مان گئے کیونکہ انہیں یورپ میں اپنا قبضہ کرنا تھا اور انہوں نے یہودیوں کو استعمال کیا۔ دوسری طرف یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت سلطنت عثمانیہ نے جرمن کے ساتھ تعلق قائم ہوا اور وہ انگلینڈ، فرانس اور امریکہ سے جنگ کرتے رہے۔
پہلی جنگ عظیم میں انگلینڈ، امریکہ اور فرانس کو فتح ہوئی۔ جرمنوں میں یہودیوں کے خلاف سخت نفرت جاری رہی اور انہوں نے یہودیوں کو خوب مارا پیٹا۔ اب انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنا شروع کیا کیونکہ سلطنت عثمانیہ بھی کمزور ہو کر بالکل ہی فنا ہو گئی اور ان کے اکثر ممالک انگلینڈ اور فرانس کے حصے میں آ گئے۔ بالخصوص ارض مقدس فلسطین انگریزوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب یہودیوں نے فلسطین میں جا کر زمین خریدنے لگے اور آبادی اکٹھا کرتے رہے۔
پھر دوسری جنگ عظیم ہوئی اور اس میں انگلینڈ، امریکہ اور فرانس کو دوبارہ فتح حاصل ہوئی اور جرمنی میں جتنی طاقت باقی رہ گئی تھی، وہ بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اس میں انگلینڈ اور فرانس اگرچہ کامیاب ہو گئے لیکن ان کی اپنی طاقت بالکل ہی کمزور ہو گئی چنانچہ ان کی جگہ امریکہ ہی سپر پاور بن بیٹھا۔ اس پورے عرصے 1918-1945 تک یہودی یور پ سے نکل کر فلسطین میں سیٹل ہو گئے اور ان کے بہت سے لوگ امریکہ میں رہنے لگے۔ چنانچہ سپر پاورز نے اتفاق کے ساتھ اسرائیل ملک بنا دیا۔
اس پورے عرصے میں فلسطین کے امیر مسلمان حضرات کو اچھی رقم مل رہی تھی، چنانچہ انہوں نے زمین بیچتے رہے اور بڑی رقموں کو بینکوں کے ذریعے جمع کرنے لگے۔ پہلے تو اگریکلچر سے آمدنی کما رہے تھے، اب وہ بینکوں سے سود کماتے رہے اور یہ سب کچھ امریکہ کے بینکوں میں پہنچ گیا۔ دوسری طرح غریب فلسطینی حضرات کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے احتجاج ہی شروع کیا۔ اب سلطنت عثمانیہ کے ممالک کو انگریزوں نے مسلمانوں کی چھوٹی ریاستیں بنا دیں جس میں اردن، سیریا، لبنان، سعودی عرب، امارات، کویت، قطر ، مصر اور بحرین بنا دیے تاکہ وہ ابھی ان کے انڈر رہیں۔ اس کے ساتھ دیگر مسلم ملک بنتے رہے جو ہمیشہ کمزور رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز بہت کمزور ہو چکے تھے، چنانچہ ان کی طاقت کو امریکہ نے استعمال کیا کیونکہ دونوں بڑی جنگوں میں امریکہ کو کوئی زیادہ نقصان نہیں آیا۔ اس لیے وہی سپر پاور بنے ۔ اگرچہ پانچ سپر پاورز کہنے لگے لیکن اقوام متحدہ میں انگریز، فرانس اور چین کمزور سپر پاورز رہیں۔ اب دو حقیقی سپر پاورز امریکہ اور روس ہی رہے اور آپس میں کولڈ وار کرتے رہے۔
امریکہ کا مقصد یہی تھا کہ جیسا کہ وہ دو بڑی جنگوں میں اپنا اسلحہ یورپی قوموں کو بیچتے رہے تو وہ مزید مضبوط ہوئے۔ اس کے بعد امریکہ اور روس نے یہی سوچا کہ اب ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں اسلحہ بیچ کر رقم لیتے رہیں۔ اس کے بدلے انہوں نے قرض دیتے رہے اور اس پر سود در سود کماتے رہے۔ اب اسلحہ بیچنے کے لیے کوئی جنگیں تو چاہئیں۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں چھوٹی موٹی جعلی جنگیں کرواتے رہے اور اس کے لیے امریکہ اور روس قرض دے دے کر ان مسلم اور غیر مسلم ممالک پر قابو کرتے رہے اور آج تک یہی سلسلہ ہے۔
اب عرب ممالک کو قابو کرنے کے لیے انہیں فائدہ یہی تھا کہ ایک چھوٹا پارٹنر مل جائے جو اسرائیل ان کا چھوٹا پارٹنر ہی بن گیا۔ اس طرح عرب ملکوں میں دہشت گردی کرواتے رہے تاکہ امریکہ اسلحہ بیچتا جائے اور قرض دے کر سود کماتے رہیں۔ اسرائیل میں چونکہ غریب مسلمان احتجاج کر رہے تھے، اب موقع تھا کہ انہیں دہشت گردی میں لگائیں تاکہ اسرائیل بھی امریکہ کا غلام رہے اور ساتھ مسلم عرب ممالک بھی غلام ہی رہیں۔ چنانچہ یہی سلسلہ جاری رہا اور آج تک ہے۔
یہ آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ تاریخ میں چودھری بھی اسی طرح پورے گاؤں کو اپنا غلام بناتے تھے۔ اس کے لیے وہ دوسرے چودھری سے ڈرامہ کرتے ہوئے لڑائی کرتے تاکہ غریب لوگ چودھری کے انڈر ہی رہیں۔ غریب آدمی جو بھی کسی حد تک طاقتور ہوتا تو چودھری کا ملازم ہوتا اور وہ آپس میں مرتے رہتے۔ یہی صورتحال امریکہ اور روس کی رہی۔
دوسری جنگ عظیم تک جو بھی جنگیں ہوئیں، وہ سچ مچ صحیح جنگیں تھیں۔ لیکن پراکسی وار محض ڈرامہ ہی ہوتا ہے۔ ان تمام کمزور ممالک میں پراکسی وار جاری رہی لیکن کسی بھی اعلی درجے کی پوزیشن کے ایسٹیبلش منٹ نمبر کبھی نہیں مرے لیکن ان کے ملازم چھوٹے موٹے لوگ ہی مرتے رہے۔ اسی طرح پراکسیوار کے اس پارٹی کے لیڈرز نہیں مرتے لیکن ان کے انڈر عام آدمی مرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ پھر وہ مزید عوام کو بھی مارتے رہتے ہیں تاکہ ڈرامہ کی اصل شکل سامنے آتی رہی۔
اب آپ اسرائیل کی موجودہ صورتحال میں دیکھیے کہ عسکری تحریکوں کے لیڈرز نہیں مرتے اور ان کے پیروکار ہی مرتے ہیں۔ وہ بھی کم مرتے ہیں جبکہ عوام پر قتل عام کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی اسٹیبلش منٹ کے بڑے لوگ نہیں مرتے لیکن یہودیوں کے بھی عوام قربانی کے بکرے ہوتے ہیں۔
اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل ہو یا مسلم ممالک، ان کے اندر جس پارٹی نے بھی احتجاج کا کوئی فرق نہیں پڑتا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام ہی قربانی کے بکرے بنتے ہیں اور لیڈرز کو کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ عوام کو کیا کرنا چاہیے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
عوام کو چاہیے کہ اپنے آپ کو معاشی طور پر بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے ملک میں حل نہیں ہوا تو کسی اور ملک میں چلے جائیں، جہاں بھی موقع ملے۔ اس کے لیے وہ تعلیم و تربیت پر ہی فوکس کریں ۔ اس میں دین کو بھی تفصیل سے پڑھتے رہیں اور دنیاوی علوم پر بھی تفصیل سے پڑھتے جائیں تاکہ وہ دیگر ممالک میں جا کر سیٹل ہو سکیں۔ اس کے لیے انہیں یہ چاہیے کہ اپنے لیڈرز کے کبھی مرید نہ بنیں ورنہ وہ خود اپنا ٹائم اور انرجی کو بیکار کام میں استعمال کرتے ہیں اور خود قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں۔ رہے لیڈرز تو وہ انہی کو استعمال کرتے ہیں۔
اس میں یہ لیڈرز دین کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ موٹیویٹ ہوتے جائیں اور ان کے قربانی کے بکرے بنتے رہیں۔ اسی وجہ سے میں نے یہ کتاب لکھی ہے تاکہ وہ آزادانہ طریقے سے دین پر عمل کرتے رہیں تاکہ آخرت کامیاب ہو۔ موجودہ زندگی میں دنیاوی علوم سیکھ کر اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد جب ہم معاشی طور پر بہتر حالت میں آئیں تو پھر ہم دیگر ممالک میں مسلمانوں اور غیر مسلم حضرات کو قرآن مجید پڑھانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اپنی دینی اور دنیاوی طور پر تعلیم و تربیت کے ساتھ دوسروں کے مدد گار بنتے رہیں۔ اس کے ساتھ اپنی اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لیے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی ان کی مشکلات ختم فرما فرمائے۔
لیڈرز پھر بھی کوشش کرتے رہیں گے کہ وہ دین ، قوم پرستی، پارٹی کی محبت وغیرہ لگا کر کوشش کریں تو ان کے قریب بھی نہ آئیں۔ خواہ وہ احتجاج کے لیے لوگوں کو بلائیں یا عسکری جدوجہد کی دعوت دیں، تب بھی ان کی پیروی کبھی نہ کریں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 1750 سے لے کر 2023 تک کسی بھی احتجاج یا عسکری جدوجہد سے کبھی بھی مسلمانوں کو فائدہ نہیں ملا ہے۔ دوسری طرح آپ دیکھیے کہ مسلمانوں میں جو لوگ بھی اس علم و دانش اور معاش کو بہتر کیا، وہ اچھی حالت میں آئے ہیں۔
بہت سے فلسطینی بھائی بہن بلکہ افغانستانی بھائی بہن، جب بھی اس حالت میں آئے ہیں تو وہ سکون سے رہ رہے ہیں اور کبھی انہیں مشکل نہیں ہوئی ہے۔ ان میں بہت سے فلسطینی اور افغانی لوگ امریکہ، کینیڈا ، یورپ اور آسٹریلیا تک رہ کر امن اور سکون کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ جبکہ مسلم ممالک میں بیٹھے احتجاج اور عسکری جدوجہد جو بھی کرتے آئے ہیں، وہ بیچارے انہی لیڈرز کے قربانی کے بکرے ہی بنتے رہے ہیں۔ اس طرح آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی جدوجہد زیادہ بہتر ہے۔
ہم لوگ یہ خدمت کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی تحریر یا تقریر کے لیے انگلش میں فلسطینی، عراقی، افغانستانی اور دیگر ممالک کے ان بھائیوں بہنوں کے لیے شعور پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر ہم میں سے جن بھائیوں کو عربی زبان یا کسی اور زبان میں گفتگو کر سکتے ہیں تو وہ یو ٹیوب کے ذریعے ان بھائی بہنوں کے اندر شعور پیدا کر سکتے ہیں تاکہ وہ قربانی کے بکرے نہ بن سکیں۔
اس میں ہمارے لیے یہ اسکوپ بھی ہے کہ جو بھائی بہن امریکہ ، کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں، وہ اپنے دین میں بھی آزاد ہیں اور اس کے ساتھ وہ دعوت کے سلسلے کو بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ آپ ابھی دیکھ سکتے ہیں کہ ان تمام ممالک میں دینی دعوت اور دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے کو کس طرح کر رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ خود سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ ابو یحیی بھائی کے آسٹریلیا کے سفرنامے کو پڑھ یا سن سکتے ہیں کہ کس طرح مسلمان بھائی وہاں پر دینی خدمت کیا اور کیسے کر رہے ہیں۔
اس میں احتجاج ہی کرنا ہے تو پھر بہترین طریقہ یہ ہے کہ یو ٹیوب، فیس بک اور دیگر ویب سائٹ کے ذریعے انگلش میں احتجاج کر کے ای میل اور وڈس اپ کے ذریعے امریکہ اوراسرائیل کی حکومت تک پہنچائیں۔ احتجاج کے لیے مسلمان یا یہودی کا نام کسی کا نہیں کہیں بلکہ یہ کہیں کہ عوام کو بچانے کی کوشش کریں۔ شاید اس طرح کوئی ایک ہی انسانیت کو قبول کرنے والا تو وہ پھر امریکی اسٹیبلش منٹ میں اپنا زور کرے گا۔ اسی طرح عسکری تحریکوں کو بھی مشورہ دیں کہ وہ عوام کو کبھی ٹارگٹ نہ کریں بلکہ ملٹری ہی کو ٹارگٹ کریں۔
اس کے ساتھ امریکی اور اسرائیلی حکومت کو مشورہ دیں کہ عوام کو اچھے ہاسپٹلز میں صحت کی کوشش کریں۔ یہی عسکری تحریکوں کو مشورہ دیں کہ عوام کو ہاسپٹلز کی خدمت کریں۔
ہمارے ہاں بھائی ٹائر آ گ لگا کر اپنے شہر اور اپنے ملک میں صرف پولوشن ہی پیدا کرتے ہیں اور اپنے ہی عوام بھائی بہنوں کو الرجی بیمار کرتے ہیں۔ اس سے کوئی بھی مثبت رزلٹ کبھی نہیں ہوا ہے کہ ان کے احتجاج سے فلسطینی بھائیوں بہنوں کا کوئی فائدہ ہو۔ ان کے لیے صرف اور صرف علم و حکمت اور شعور کی حقیر کاوش کر سکتے ہیں اور یہ ہمیں کرنا چاہیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com