سوال: میرا مسئلہ کچھ یوں ہوا کہ میری اپنی بیگم کے ساتھ تھوڑی لڑائی ہوئی اور اس کے والدین آکر اسے لئے گئے اور بہت بد تمیزی کی اور طلاق کا مطالبہ کیا ۔ پھر ایک مدرسے کے علماءِ کرام کی موجودگی میں جرگہ ہوا، وہاں نہ تو میری وائف کو بلایا گیا اور نہ میری بات سنی گئی ۔ میرے اور میری بیوی کے والدین اس جرگے میں موجود تھے۔ انہوں نے جھوٹا مار پیٹ کا الزام لگاکر طلاق کا مطالبہ کیا، جس پر جرگے والوں نے طلاق کا فیصلہ کردیا۔
مجھے تھانے بھیجنے کی دھمکیاں دی گئیں، شدید ذہنی دباؤ ڈالا گیا او رمیں بے بس ہوگیا۔ جب طلاق کے پیپر بنوائے گئے تو اسٹام پیپر والے نے اس پر تین طلاق لکھ دیا۔جب کہ اس وقت مجھے طلاق دینے کا طریقہ نہیں آتا تھا اور نہ ہی میں نے وہ وہ پیپر پڑھا، کیونکہ اس کے رائیٹنگ ہی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پھر شاپ والے نے مجھے کہا کہ تین دفعہ زبان سے بھی طلاق دو۔ میں نے زبان سے بھی طلاق دے دی، میں نے زبان سے بھی طلاق کا اقرار کردیا جب کہ میرا دل سے طلاق کا رادہ نہیں تھا، بس ذہنی دباؤ اور اپنی اور اس کی فیملی کے پریشر میں آکر یہ فیصلہ کردیا۔
اب میرا وائف سے رابطہ ہوا ہے تو وہ واپس آنا چاہتی ہے۔ جب کہ اس کی عدت ختم ہوچکی ہے۔ جب کہ اس کے گھر والے ہمیں دوبارہ ایک نہیں ہونے دیں گے۔ کیا اس صورت میں ہمارا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟ کیا اس کے ماں باپ کی اجازت کے بغیر ہم نکاح کرسکتے ہیں۔ جب طلاق کا یہ فیصلہ ہوا ہم دونوں میاں بیوی اس فیصلے سے ناواقف تھے۔ جب میں نے پیپر سائن کردئے تو اس وقت میری بیوی کو بتایا گیا، ہم اس وقت رابطے میں نہیں تھے۔
جب بعد میں مجھے بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ علماء فرماتے ہیں کہ اب حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد آپ کی شادی دوبارہ ہوسکے گی۔ جب کہ میں حلالہ نہیں چاہتا۔ اس موجودہ صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہئے میں شدید پریشان ہوں؟
جواب: جرگہ کے لوگوں نے جاہلیت کا عمل کیا ہے۔ جب تک انسان اپنی آزادی سے سوچ سمجھ کر طلاق نہ دے تو وہ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی زبردستی طلاق دلوا کر قانونی ڈاکومنٹ بھی جبراً بنایا جائے تو اس سے کوئی طلاق ہوتی ہی نہیں ہے۔ ان صاحب کو چاہیے کہ وہ فیملی کورٹ میں جا کر ثابت کر دیں کہ انہوں نے طلاق نہیں دی، بلکہ جبراً مجھ سے سائن کروایا ہوا ہے۔ امید ہے کہ عدالت میں بھی ان کی طلاق کو جعلی ہی کہا جائے گا۔
قدیم زمانے میں عہد رسالت اور عہد صحابہ میں لوگ غصے میں اپنی طلاق یا تین طلاق کہہ دیتے۔ پھر بعد میں غصہ ختم ہوا اور عقل کے ساتھ شعور گیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی عدالت میں جاتے تھے۔ غصے میں انہوں نے جو کچھ کہا تو اس کی حیثیت محض بکواس ہی کی ہوتی تھی ورنہ طلاق کچھ نہیں ہوئی۔
جب ایسے کافی مقدمے آئی تو پھر عمر ضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آئندہ کسی نے ایسی حرکت کی تو پھر اس کی تین طلاق کو ہم عدالتی طور پر نافذ کردیں گے۔اس کا مقصد اس لیے تھا لوگ ایسی بکواس نہ کریں۔ انہوں نے اس وجہ سے یہ فیصلہ کیا آئندہ لوگ ایسی حرکتیں نہ کریں۔ اس زمانے میں خواتین کے لیے بڑی آزادی تھی کہ طلاق کی عدت کے بعد انہیں کئی شادی کے پیغام آ چکے ہوتے تھے ، اس لیے خواتین کیلئے کوئی مشکل نہ تھی۔
اب ہمارے علماء جو کچھ فرما رہے ہیں، یہ انڈیا کی جاہلیت ہی کا عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلالہ کو کتنا بڑا گناہ ارشاد فرمایا ہے اور اس پر کیا لعنت فرمائی ہے وہ اس حدیث میں دیکھیں۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی: (جسم پر) ٹیٹو بنانے والیوں اور بنوانے والیوں پر، [دھوکہ دینے کے لیے] نقلی بال لگانے والیوں اور لگوانے والیوں پر، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر، حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر۔ (نسائی، کتاب الطلاق، حدیث 3416)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے میں نہ بتاؤں؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: ’’جی ضرور، یا رسول اللہ۔‘‘ فرمایا: ’’وہ حلالہ کروانے والا ہے۔ اللہ نے حلالہ کرنے والے اور اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔ ‘‘ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، حدیث 1936)
مختلف ٹائم میں فقہاء نے جو قانون سازی کی ہے، وہ ان کا اپنا خیال تھا اور انہوں نے اپنے دلائل پیش کیے ہیں۔ آپ میری پانچویں کتاب میں چھ سات باب میں پڑھ سکتے ہیں مختلف فقہاء کا نقطہ نظر اور دلائل کو دیکھ لیجیے اور آپ خود فیصلہ کریں کہ کونسا نقطہ نظر قرآن وسنت اور عقل کے ساتھ میچ کرتا ہے۔ اسے لیکچرز میں بھی شامل کر دیا ہے۔
FQ05-Modern Questions in Social Sciences in Muslim Jurisprudence
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com