سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛ سورۃ آل عمران میں جو مباہلے کی دعوت کا بیان ہے، کیا اس موقع پر نبی ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا تھا؟ اور کیا انہوں نے مسجد میں اپنے طریقے سے عبادت بھی کی تھی؟ اس واقعے کی کیا تفصیلات ہیں؟ ماسٹر ابو حارث۔ جڑانوالا
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائی بڑے علماء حاضر ہوئے اور اس وقت ان کو دعوت کی ضرورت تھی۔ اس دوران ان سے گفتگو کے لیے اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں دعوت کی آیات نازل فرمادیں۔ اس زمانے میں عیسائیوں کے دو فرقے تھے۔ ایک فرقہ سینٹ پال کے پیروکار تھے، جنہوں نے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیا تھا اور تورات کی شریعت کو چھوڑ دیا تھا۔ یہی لوگ آج کل بھی کیتھولک فرقہ کےموجود ہیں۔
جس زمانے میں عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے حواری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیروکار زندہ تھے۔ انہی کے مشہور صحابی برناباس رضی اللہ عنہ نے سینٹ پال سے شدید اختلاف کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ تورات کی شریعت پر عمل ضروری ہے اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالی کے نبی اور رسول ہیں ضرور ہیں مگر اللہ کے بیٹے نہیں ہیں۔ آپ خود حضرت برناباس رضی اللہ عنہ کی تحریر انجیل برناباس کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اسی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی موجود ہے۔ اس کی تفصیل آپ سورۃ الصف 61 میں پڑھ سکتے ہیں۔
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ. 6
ترجمہ: یاد کیجیے جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں آپ کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تورات کی اُن پیشین گوئیوں کو کنفرم واضح کرنے کے لیے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے ہدایت موجود ہے۔ ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئیں گے اور ان کا نام احمد ہو گا۔ مگر اُن کے پاس جب وہ کھلے کھلے ثبوت لے کر آ گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (سورۃ الصف 61:6)
رسول اللہ ﷺ کے دور تک 600 سال گزر گئے تھے اس وقت تک حضرت برناباس اور دیگر حواری رضی اللہ عنہم کے پیروکار موجود تھے۔ تاریخ میں آپ ان کی مشہور شخصیات کا مطالعہ کر سکتے ہیں جیسے نجاشی بادشاہ رضی اللہ عنہ جو ایمان لائے۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنے عیسائی اساتذہ کا ذکر کیا جو اسی طرح اصل حواری رضی اللہ عنہم کے پیروکار تھے۔ تاریخ کے لیے آپ میری پہلی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
نجران کے عیسائی علماء جو پہنچے تھے، وہ سب اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے۔ اس میں دعوت دین کا کتنا خوبصورت طریقہ تھا کہ انہیں مسجد نبوی ہی میں رکھا گیا اور وہ اس وقت تورات کے مطابق ہی نماز پڑھتے تھے۔ تورات کی نماز کا طریقہ بالکل وہی ہے جو کہ ہمارا طریقہ کار ہے۔ اس کے لیے آپ یو ٹیوب میں کسی بھی یہودیوں کی نماز کو دیکھ سکتے ہیں۔
مباحلہ ایک آخری اسٹیپ تھا کہ اللہ تعالی نے طریقہ کار بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی فیملی نکل کر سامنے آ جائیں۔ اسی طرح عیسائی علماء بھی اپنی فیملی کے ساتھ آ جائیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ جو بھی جھوٹا ہے، اس پر لعنت کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی فیملی کے ساتھ تشریف لائے لیکن عیسائی علماء نے ایسا نہیں کیا کیونکہ انہیں واضح ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی آخری رسول ہیں جن کی پیش گوئی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کر چکے تھے۔
اس موقع پر تو ان عیسائی علماء نے ایمان کا اعلان نہیں کیا لیکن انہوں نے سرنڈر کر دیا اور کچھ عرصے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ ہی کو نجران کا گورنر بنا دیا تھا۔ اس کے بعد نجران کے عیسائیوں کی اکثریت ایمان لائی۔ باقی جو عیسائی رہے، ان پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ کافی عرصے بعد جب رومن امپائر کے ساتھ جنگ ہوئی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پورے عرب کے تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو یہاں سے نکال کر فلسطین میں بہت عمدہ زرخیز زمینیں دے دیں۔ انہی کی نسل آج کل وہیں موجود ہیں۔ میں انہ کی نسل کو اردن میں دیکھ چکا ہوں۔ نجران میں یہ بھی دیکھا ہے کہ وہاں اب تمام مسلمان ہی رہتے ہیں۔ اسی علاقے میں مکی سورۃ البروج 85 میں ذکر ہے جہاں عیسائی اہل ایمان کو بادشاہ نے آگ لگایا تھا تو اللہ تعالی نے اسی بادشاہ اور فوج کو آگ میں پھینک دیا او راہل ایمان کو بچا دیا تھا۔
یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں کئی علماء نے یہ سوچا کہ ہم بھی یہی مباہلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی فرقہ واریت میں ایک دوسرے کے خلاف مناظرہ کر کے مباہلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ضروری نہیں کہ موجودہ زندگی میں جھوٹے کو سزا ملے اور سامنے آئے لیکن آخرت میں تو سب کا رزلٹ آنا ہی ہے۔ اس لیے موجودہ زندگی میں ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ موجودہ زندگی ہی میں جزا یا سزا کا سلسلہ ہوتا رہا ہے۔ عرب کے مشرکین پر قتل عام ہوا جبکہ اہل کتاب پر مغلوبیت کی سزا ہوئی۔ دوسری طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو افغانستان سے لے کر مراکش تک فتح مل گئی جو ان کی جزا تھی۔ یہ وہی عمل تھا جو پہلے رسولوں کے زمانے میں اہل ایمان پر جزا اور منکرین پر سزا ہوتا رہا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com