سوال:غزوہ بدر کے موقع پر جنگی قیدیوں کے لیے فدیہ مقرر کیا گیا، مگر جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے انکے لیے رعایت تھی کہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں اور آزادی حاصل کریں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو کافر تھے،انھیں تو قرآن نہیں آتا تھا اور وہ علوم جو مولوی صاحب پڑھاتے ہیں ان سے بھی ناواقف تھے، تو نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے کونسا علم سکھانے کا کہا تھا اور وہ کیا تھا جس کے عوض انھیں رہائی ملی؟ یہ بات تو طے ہے کہ وہ دینی علوم نہیں تھے۔
جواب:اس میں صرف اتنی بات ہے کہ عرب لوگوں کی اکثریت لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم جاہلی ہیں۔ اس میں ایک مشہور شاعر نے ایسی شاعری کہی کہ سارے قبائل کے لوگوں نے اسے سب سے بڑا شاعر کہا۔ اس شعر کا معنی یہ ہے: ہمارے خلاف کوئی جاہلیت نہ کرنا ورنہ ہم تم سے بڑھ کر زیادہ بڑے جاہل ہیں۔
عربوں کو لکھنا اس لیے مشکل تھا کہ اس زمانے میں عربوں کو چائنہ سے کاغذ خریدنے پڑتے جو بہت مہنگے تھے۔ پورے عرب میں صرف مکہ مکرمہ کے لوگ تھے جو لکھنا جانتے تھے کیونکہ وہ بزنس کے لیے عراق، فلسطین، یمن جاتے تھے اور وہاں لکھنا بھی پڑتا تھا تو انہوں نے ان ممالک میں رہ کر لکھنا سیکھ لیا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھے لکھے قیدیوں کو یہ فرمایا کہ وہ ہمارے بچوں کو لکھنا سکھا دیں تو پھر فری میں انہیں آزادی مل جائے گی۔
یہ قیدی اگرچہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، لیکن لکھنا تو انہیں آتا تھا جیسا کہ آج کل غیر مسلم ٹیچر بھی ہمارے بچوں کو لکھنا سکھا دیتے ہیں۔ انہوں نے انصار کے بچوں کو کوئی دینی علم نہیں پڑھانا تھا بلکہ لکھنے کا طریقہ ہی سمجھانا تھا جس میں ا، ب، ت، ث، ط وغیرہ لکھ سکیں۔ آپ کو اپنا تجربہ یاد ہو گا کہ نرسری میں ہی آپ کو ٹیچر نے شروع میں ا، ب، ت، A, B, C وغیرہ سکھائی تھی۔ پھر ایک دو سال میں آپ کو لکھنا آ گیا تھا تو پھر آپ اگلی کلاس میں لکھنے لگے تھے۔ اس کے بعد بچے کو جتنا یاد آتا تو وہ جملہ اور شاعری لکھ سکتے تھے۔ اس کا فائدہ یہی ہوا کہ انصار کے بچوں کو چند دنوں میں لکھنا آ گیا۔
پھر ان میں جو نوجوان ہوئے تو انہوں نے قرآن مجید بھی لکھنا شروع کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے ہی پورا قرآن مجید لکھوا دیا تاکہ بعد میں کوئی غلطی نہ ہو۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی طرح قرآن مجید کی ہزاروں کاپیاں لکھوا لیں اور تمام ممالک کے شہروں تک پہنچا دیا تاکہ قرآن مجید کی غلطی نہ رہے۔ اس زمانے کے قرآن مجید کی کاپیاں آج بھی موجود ہیں۔ اس میں غیر مسلم سائنسدانوں نے کاربن ٹسٹ کے ذریعے کیمیکل کو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ یہ لکھا ہوا قرآن تو عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت والے زمانے میں لکھا ہوا ہے۔ اس سے یہی فائدہ ہوا کہ آج تک قرآن مجید میں کوئی غلطی نہیں ہے۔
آپ یہ تصویر دیکھ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں کتابت ایسے ہوتی تھی۔ بعد میں مسلمانوں نے زبر، پیش، پیش وغیرہ کو لکھنا شروع کیا تاکہ لہجے کی غلطی بھی نہ رہے۔ آپ اس تصویر میں چیک کریں کہ موجودہ قرآن بھی بالکل ایسا ہی ہے اور یہ معجزہ ہے کہ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک قرآن مجید بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com