سوال: غیبت کن صورتوں میں جائز ہے؟
سوال: غیبت حرام ہے۔ اس میں صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ آپ کو کسی انسان سے بڑا معاملہ ہونے لگا ہے تو آپ چیک کرتے ہیں کہ وہ انسان قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ مثلاً آپ کسی لڑکی سے شادی کرتے ہیں تو آپ چیک کرتے ہیں کہ اس لڑکی اور اس کے والدین میں کوئی ایسا مزاج تو نہیں ہے جس سے آپ کو مشکلات پیدا ہوں۔ یہ جائز ہے۔ آپ کسی کو بڑی رقم میں قرض دے رہے ہیں تو آپ چیک ضرور کرتے ہیں کہ وہ آدمی کیا ہمیں رقم واپس کرے گا یا نہیں؟ یہ بالکل جائز ہے۔
کل آپ نے حدیث ریسرچ میں پڑھا ہو گا کہ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے طریقہ کار کو بیان کیا ہے۔ اس میں انہوں نے فرمایا کہ مسجد میں نیک عمل کرنے والے لوگ صالحین ہمیں کہتے ہیں کہ تم غیبت کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ بھائی، ضرورت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو چیک کر سکیں کہ قابل اعتماد لوگوں کے ذریعے ہی ہم تک احادیث پہنچی ہیں یا نہیں؟ اس لیے ہمیں مجبوراً چیک کرنا پڑتا ہے۔
جس سے آپ کا کوئی معاملہ ہی نہ ہو تو اس پر کبھی غیبت نہیں کرنی چاہیے۔ جب اہم معاملہ جیسے شادی، یا قرض کے طور پر رقم دینا یا کسی کو استاذ بنا کر شاگرد بننا یہ سب اہم معاملات ہیں۔ ان میں جو ہم چیک کرتے ہیں، وہ ان کی کوئی ذاتی غیبت نہیں ہوتی بلکہ صرف اپنے عمل کا احتیاط کرنا جائز ہے۔ اسی معاملے میں اللہ تعالی نے اجازت بھی دے دی ہے جو سورۃ الحجرات 49 میں ہے جہاں غیبت کو حرام فرمایا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ. (12)
اہل ایمان! بہت سے بد گمانوں سے بچیں، اِس لیے کہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ (دوسروں کی) ٹوہ میں نہ لگیں اور نہ آپ میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا آپ کے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ سو اِسے تو آپ گوارا نہیں کرتے، (پھر غیبت کیوں پسند ہو؟) آپ اللہ تعالی سے خبردار رہیے۔ یقینا ،اللہ تعالی بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ہمیشہ کے لیے ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ. (6)
اہل ایمان! اگر (اِن پکارنے والوں میں سے) کوئی فاسق (غلط حرکتیں کرنے والا) آپ کے پاس کوئی اہم خبر لائے تو اُس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ جذبات سے مغلوب ہو کر کسی قوم پر جا چڑھیں، پھر آپ کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات)
اسی بنیاد پر عمر رضی اللہ عنہ کسی کو حکومت کا ملازم رکھتے تھے تو وہ اسی آیت کی بنیاد پر چیک کر کے انہیں گورنر یا کوئی اور انسان بناتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی وجہ سے قابل اعتماد آدمی کو زکوۃ کی رقم حاصل کرنے کو حکومتی ملازم بناتے تھے ۔ اس لیے آپ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو امین الامت کا ٹائٹل دے دیا تھا کہ وہ بہت احتیاط کرتے تھے۔
یہ حدیث دیکھیے اور پھر سیرت میں ملتا ہے کہ ایک بار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیریا کے شہر کو فتح کرنے پر عیسائیوں سے ٹیکس لے لیا تھا۔ اس ٹیکس کی ذمہ داری تھی کہ حکومت ان کی سکیورٹی کرے گی۔ کچھ دن بعد انہیں شہر سے نکلنا پڑا تو آپ نے عیسائیوں کو ٹیکس واپس دے دیا اور کہا کہ معذرت کہ ہمیں ملٹری کو دوسری طرف لیجانا ہے۔ عیسائیوں کو ٹیکس واپس ملا تو وہ اتنا روئے کہ ہمارے عیسائی رومن بادشاہ تو ہر وقت ٹیکس ہم سے چھینتا تھا اور یہ مسلمان ہمیں واپس دے رہے ہیں۔ پھر وہ روتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے کہ یہی لوگ ہمارے پاس واپس آ جائیں تاکہ وہی ہماری سیکورٹی کریں۔ حدیث دیکھیے:
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن صلة، عن حذيفة رضي الله عنه قال النبي صلى الله عليه وسلم لاهل نجران۔ لابعثن يعني عليكم يعني امينا حق امين فاشرف اصحابه فبعث ابا عبيدة رضي الله عنه۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے صلہ نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا کہ میں تمہارے یہاں ایک امین کو بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہو گا۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شوق ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ (بخاری 3745)
حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن خالد، عن ابي قلابة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قاللكل امة امين، وامين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح۔
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر امت میں امین (امانتدار) ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں۔“ (بخاری 4382)
https://islamicurdubooks.com/hadith/mukarrat-.php?hadith_number=3745&bookid=1
سوال: جانچ پڑتال سے دشمنی ہی پیدا ہوتی ہے۔ آپ نے ٹی وی اور اخبارات میں سنا ہو گا کہ فلاں مولانا صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔
جواب: اس لیے اپنے دوست یا بھائی کو صرف اتنا ہی بتا دینا چاہیے کہ آپ فلاں آدمی سے احتیاط کریں اور تعلق نہ ہی رکھیں۔ زیادہ اچھا ہے کہ فلاں آدمی کا نام لینے کی بجائے صرف ایسی نشانی دے دیں تاکہ اگلے کو اندازہ ہو جائے کہ کس سے بچنا ہے۔ اس طرح آپ اپنے دوست کو بچا بھی سکیں گے اور برے آدمی سے آپ بچ بھی جائیں گے۔
اسی کی مثال آپ کو عرض کی کہ میں نے کسی بھی عالم یا غیر عالم کا نام استعمال نہیں کرتا ہوں۔ اس لیے سب بھائیوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ کسی بھی فرقہ کے کوئی بھی عالم یا کسی بھی تقریر کرنے والے کے ہاں سخت الفاظ، نفرت ، غصہ اور آگ لگانے والے جملہ کرنے والا شخص خواہ وہ کسی بھی فرقہ کے ہو، اسے سننا ہی چھوڑ دیں اور ان کی تحریر بھی نہ پڑھیں۔
اس کے برعکس کسی بھی فرقہ کا ایسا عالم جو محبت سے اختلاف کرتا ہو تو اس کی تعلیم پڑھ سکتے ہیں اور تقریر بھی سن سکتے ہیں۔ منفی مزاج والے لوگوں کا نام بیان کبھی نہیں کرتا ہوں لیکن مثبت شخصیت والوں کا نام استعمال کرتا ہوں۔ جیسے قرآن مجید کی تفاسیر کے لیے میں ان علماء کا نام بھی استعمال کرتا ہوں کیونکہ میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے تو وہ کبھی بھی نفرت نہیں کرتے بلکہ اختلاف بھی کرتے ہیں تو دوسروں کی عزت کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں۔ یہ حضرات مختلف گروہوں کے ہیں۔
بہت سے علماء کا مطالعہ میں نے کیا ہے اور وہ کسی بھی فرقہ پر منفی تنقید نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اختلاف بھی ہوتا تو بڑی عاجزی کے ساتھ ہی اختلاف کرتے تھے اور پھر بھی دوسروں کی عزت و محبت سے بات کرتے تھے۔ سب سے شاندار تنقید میں نے وحید الدین خان صاحب کی کتاب تعبیر کی غلطی جس میں انہوں نے اپنے استاذ مودودی صاحب کی تنقید کی ہے لیکن محبت اور عاجزی کے ساتھ ہی بات کی ہے۔
عزیر شمس صاحب سے میری ملاقات مکہ مکرمہ میں ہوتی تھی اور ان سے علم الحدیث اور قدیم عربی پر ان سے سیکھتا تھا۔ ان کا گھر منی کے پاس ہی تھا اور میں ان کے گھر چلا جاتا تھا۔ ان کے گھر میں انڈیا اور پاکستان کے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ سب سے ملاقات ہوتی تھی۔ سب کے ساتھ پوری عزت کے ساتھ وہ گفتگو کرتے تھے بلکہ علمی طور پر ان کی مدد بھی کرتے تھے۔ خاص طور پر حج کے لیے جو لوگ آتے تو عزیر صاحب انہیں قریب ہی مکہ مکرمہ کی قدیم ترین لائبریری میں لے جاتے جس میں کئی صدیوں کے علماء کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔
اس لیے ایسے علماء سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔ اس طرح کی کوئی بھی شخصیت جہاں سے بھی ملے، ان سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔ لیکن جس میں بھی نفرت اور تعصب نظر آئے، ان سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے خواہ وہ کسی بھی فرقہ کے ہوں یا کسی بھی فرقہ کے نہ ہوں۔
سوال: اگر کوئی دوست یا انسان ہمارے سامنے کسی کی غیبت کر رہا ہو تو اسے کس طرح بات کریں کہ اسے برا بھی نہ لگے اور اور وہ غیبت بھی نہ کرے۔
جواب: اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ انہیں غیبت کے بارے میں سورۃ الحجرات والی آیت پڑھ کر سنا دیں۔ اگر وہ دوست مخلص ہوئے تو ٹھیک ہو جائیں گے ورنہ پھر آپ سے دور ہو جائیں گے، اس طرح آپ کا جان چھوٹ جائے گی۔ باقی دوسرے انسان تو وہ غیبت کرتے رہتے ہیں اور آپ کا ان سے کوئی معاملہ نہیں ہوتا ہے۔ اس صورت میں آپ ان سے دور ہی رہیں۔ اگر مجبوراً آپ بس یا ٹرین یا کینٹین میں بیٹھے ہیں اور لوگ غیبت کر رہے ہیں تو آپ اس پر غور ہی نہ کیا کریں۔ وہ جانے اور اللہ تعالی کا معاملہ ہو جائے۔ عام طور پر میں اس طرح استعمال کرتا رہا ہوں کہ بس یا ٹرین یا آفس میں اس دوران میں کوئی کتاب پڑھ لیتا ہوں۔ اس طرح ان کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com