سوال: نماز مدت العمر کیا ہے؟ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: مدت العمر نماز میں آپ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ میں سمجھ نہیں سکا ہوں۔ اس لیے وضاحت کر دیں تو جواب عرض کروں۔ دین میں حکم یہی ہے کہ ساری عمر تک آپ نے نماز پڑھنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا دیا ہے کہ پانچ نمازیں آپ پر فرض ہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام نمازیں نفل کے طور پر موجود ہیں۔ اس میں اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ آپ مزید جتنی نمازیں پڑھیں گے تو آپ کو اللہ تعالی قبول کرے گا اور اس پر اجر دے گا۔ اگر نہ پڑھ سکیں تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہاں فرض نماز کو چھوڑ دیں تو گناہ ہوتا ہے، اگر ہو گیا تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے اور اس فرض نماز کو قضا ادا کر لیں۔
فرض نمازوں میں روزانہ صرف 17 رکعتیں ہی بنتی ہیں۔ دو رکعت فجر، چار رکعت ظہر، چار رکعت عصر، تین رکعت مغرب اور چار رکعت عشاء۔ اس کے علاوہ باقی سب فرض نہیں ہیں لیکن نفل ہے جس کا اجر آپ لے سکتے ہیں۔
سوال: وہ کسی جگہ پڑھا تھا کہ نماز مدت العمر کا پتہ نہیں لیکن عاشقِ نبی بنے بیٹھے ہیں۔ اس لیے آپ سے پوچھا تھا۔ نماز میں اگر سنتیں نا پڑھیں تو گناہ کیا نہیں ہوگا؟ علماء تو کہتے ہیں کہ سنت موٌكدہ ادا نا کرنے پے پکڑ ہوگی۔
جواب: مدت العمر سے ان کی مراد غالباً یہ ہو گی کہ ایک آدمی نے بچپن میں نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر عادت نہیں ہوئی۔ اب جا کر 62 سال کی عمر میں شعور آیا اور نمازیں پڑھنی شروع کی ہیں ۔ اب اسے جوان ہونے سے لے کر آج تک کی نمازیں پڑھنی چاہییں۔ عام طور پر انسان 12 سال کی عمر میں ہی جوانی شروع ہو جاتی ہے اور شادی کے قابل ہو جاتا ہے، اس لیے انہوں نے 50 سال کی نمازوں کا کہا ہو گا۔ یہ ایک بڑا مشکل کام ہے کہ صرف فرض نمازوں میں آپ کیلکولیٹ کر لیں تو تقریباً یہ حساب بنے گا۔
50 x 365 x 17 = 310,250
اب اتنی تین لاکھ دس ہزار دو سو پچاس رکعتیں ادا کرنی ہوں گی جو بڑا مشکل کام ہے۔ ایسے صورتحال میں معقول فقہاء نے یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ نفل بلکہ سنت جتنا پڑھ سکتے ہیں، اس کی جگہ صرف پرانی فرض کی نیت کر لیں۔ اس طرح چند سالوں میں ان کی فرض ادا ہو جائیں ۔ میں بھی اسی کا قائل ہوں کہ یہی ممکن ہے۔ جب مجھے ایکسڈنٹ ہوا تو قومے میں دو ماہ تک بیہوش رہا۔ جب شعور آیا تو میں نے بھی اسی طرح دو ماہ کی پانچ نمازوں کی فرض کے حساب سے 1,020 رکعتیں ادا کرتا رہا۔
اب جن بھائیوں کا خیال آیا کہ وہ اس میں سنتیں بھی پوری کریں تو اس آدمی کو 62 سے شروع کرے تو پھر 100 سال کی عمر تک ہی مکمل ہو گا اور کوئی معلوم نہیں کہ بیچ میں کسی وقت فوت جائے۔ اس میں شدت پسندی زیادہ ہے جس سے انسان دین کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہ مرتد یا ملحدین بنا دیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث میں سمجھ سکتے ہیں کہ دین میں کیا احکامات ہیں اور قرآن مجید میں کیا حکم ہے؟
لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ
یہ حقیقت ہے کہ اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (اُس کا قانون ہے کہ) اُسی کو ملے گا جو (نیکی) اُس نے خریدی ہے اور وہی (گناہ) بھرے گا جو اُس نے خریدی ہے۔ (سورۃ البقرۃ 286)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (میں گورنر بنا کر) بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا: آپ ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہیں جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب آپ وہاں پہنچیں تو پہلے انہیں دعوت پہنچا دیجیے گا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتا دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ آپ کی اس بات پر بھی مان لیں تو انہیں بتا دیجیے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے۔ یہ زکوۃ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہی کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ آپ کی اس بات کو بھی مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے نہ لیجیے بلکہ مظلوم کی آہ سے ڈرتے رہیے کیونکہ اس مظلوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوۃ، 76:1496)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
یقیناً دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (یعنی اس کی سختی ناکام ہو جائے گی۔) اس لیے اپنے عمل میں پختگی اختیار کر لیجیے اور جہاں تک ممکن ہو تو میانہ روی اختیار کر لیجیے۔ خوش ہو جائیے (کہ دین آسان ہے) جبکہ صبح، دوپہر، شام اور رات میں نماز سے مدد حاصل کر لیجیے۔ (بخاری، کتاب الایمان، 2:39)
جہاں تک سنت مؤکدہ کا تعلق ہے تو اس میں حنفی فقہاء جیسے پاکستان میں دیوبندی بریلوی علماء یہ نہیں کہتے ہیں کہ اس میں گناہ ہو گا۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ ہی سنت مؤکدہ چھوڑ دیں تو یہ پکڑ ہو گی کہ اتنی لمبی عمر میں یہ نیکیاں کیوں نہیں کی ہیں؟ اس میں حنفی فقہاء نے اصل میں نفل کی تقسیم اس طرح کی ہے جس میں مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاء اس تقسیم کو قائل نہیں ہیں۔ حنفی فقہاء کی تقسیم یہ ہے جو مثلاً نماز سے متعلق ہے:
فرض: یہ تو لازمی حکم ہے جسے چھوڑ دیں تو گناہ ہو گا اور آخرت میں سزا ہو گی۔
واجب: وہ فرض تو نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید ضرور کی ہے جیسے وتر کی تین رکعت نماز جو اصل میں تہجد ہی کا حصہ ہے لیکن جنہیں مشکل ہو تو انہیں عشاء کے ساتھ ہی پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
سنت مؤکدہ: وہ فرض نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود مسلسل عمل کرتے رہے جیسے فجر فرض سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی، ظہر فرض سے پہلے چار رکعت اور فرض کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں، مغرب میں فرض کے بعد دو رکعت نماز پڑھی ہے۔
سنت غیر مؤکدہ: وہ فرض نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی عمل کیا اور کبھی نہیں کیا جیسے عصر فرض سے پہلے چار رکعت نفل نماز، مغرب فرض سے پہلے دو رکعت نماز وغیرہ۔
نفل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمل نہیں کیا لیکن انسانوں نے خود عمل کرنا شروع کیا جس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب شافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں بلکہ فرض کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ سب ہی نفل کا حصہ ہے۔ اس میں تمام حنفی فقہاء بھی قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل پڑھتے رہے تو ہمیں بھی اپنی حد تک کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن اگر کبھی چھوٹ گیا تو گناہ نہیں ہے۔ ہاں ساری عمر ہی اتنی سنت مؤکدہ نہیں پڑھی تو اس نے اپنے اجر کا نقصان ہی کیا ہے۔ یہ بات ان کی معقول ہے کہ ساری عمر ہی سنت مؤکدہ ، سنت غیر مؤکدہ اور نفل نہ پڑھنا تو اپنے اجر کو چھوڑنا ہے۔
اس لیے ہمیں شدت پسندی بالکل اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ صرف فرض ہی ہم لازمی کریں اور باقی تمام نیکی عمل کرتے رہیں جب ممکن ہو۔ جب مشکل ہو جائے تو نہ کریں۔ اس شدت پسندی سے ہی لوگ دین سے بھاگ جاتے ہیں۔ اب بڑھاپے میں دین کا شعور آ جائے تو وہ نفل کی بجائے یہ نیت کر لیں کہ وہ پرانے فرض ہی کو ادا کرنے کی کوشش اتنی کریں جو ممکن ہو۔ ساتھ ہی توبہ کرتے رہیں تاکہ وہ آخرت میں کامیاب ہو جائیں۔
سوال: کیا جنازہ، نکاح، عید،نماز وغیرہ کی اجرت مقرر کرنا جائز ہے۔ اگر اسکا استدلال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے لیا جائے تو کیا وہ جن کا وظیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا تھا، یہی کام کرتے تھے جو آج کے مولانا صاحب کرتے ہیں؟
جواب: یہ بدتمیزی ہے۔ یہ بالکل وہی ہندو کلچر میں پنڈت ہی یہ سب رقم لیتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں میں بھی یہی عادت بن گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں صرف یہ کیا تھا کہ جب کسی عالم کو حکومتی جاب دیتے کہ وہ مسجد میں فل ٹائم پورا دن تک تعلیم پڑھاتے جائیں تو تب انہوں نے تنخواہیں دیتے رہے۔ اس طرح ٹھیک ہے کہ آپ مسجد میں فل ٹائم جاب ہے تو پھر مولوی صاحب کو تنخواہ دینی چاہیے ورنہ وہ معاش پر کیا کریں گے؟ اگر فل ٹائم نہ ہو بلکہ کوئی آدمی بھی نماز پڑھا لے تو کوئی تنخواہ نہیں لینی چاہیے۔
یہ سلسلہ تب ہوا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا تو وہ اگلے دن سامان پکڑ کر بازار گئے۔ راستے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روکا کہ آپ حکومتی کام کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ گھر کا اخراجات کیسے پورے کروں؟ اس پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکومت کے فنڈز میں تنخواہ طے کر لی۔ یہ سلسلہ پھر جاری رہا ورنہ پہلے عرب میں تنخواہیں نہیں ہوتی تھیں۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکومتی تنخواہیں دینے لگے لیکن امیر صحابہ خود ہی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔
کئی بار مولوی صاحب نے مجھے ذمہ داری کہ عید کی نماز اور جمعہ کی نماز پڑھائیں کیونکہ وہ اپنے گاؤں جا رہے تھے۔ میں نے کیا تو اس کی کوئی رقم نہیں لی۔ تب بھی مسجد کے ذمہ دار حضرات نے زبردستی رقم مجھے دے دی۔ میں نے خاموشی سے وہی رقم مسجد کے لاکر میں پھینک دیا۔ اسی طرح جنازہ پر ایک بار ہوا کہ کسی کو کوئی مولوی صاحب نہیں ملے تو راستے میں مجھے کہہ دیا۔ میں نے فوراً جا کر نماز جنازہ پڑھا دی اور دفن کی خدمت بھی کسی حد تک کیا۔ ان صاحب نے مجھے بڑی رقم دی۔ میں نے منع کیا تو انہوں نے ڈبل کر دی۔ میں نے بتایا کہ یہ میرے اپنے بھائی کا جنازہ ہے، اس پر کوئی رقم نہیں لوں گا۔
میرے سسر صاحب مسجد کے امام تھے۔ انہیں شادی کے لیے بلایا جاتا تھا۔ نکاح کے وقت انہیں رقم دی جاتی تو وہ اس رقم کو فرماتے تھے کہ یہ میری بیٹی کی شادی ہے، اس بیٹی کو تحفہ دے دو۔
سوال: دو سال پہلے میرے دوست کے والد کا حادثہ ہوا اور ان کا بازو معذور ہو گیا۔ وہاں سے، وہ حوصلہ شکن، نا امید ہو گئے۔ اور سوچتے ہیں کہ ان کی دنیا ختم ہو گئی ہے۔ وہ مذہبی نہیں ہیں اور نہ قرآن، اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی وہ نماز پڑھتے ہیں۔ وہ سورہ فاتحہ بھی نہیں جانتے۔ پہلے وہ بھٹہ میں مزدوری کرتے تھے، اب گھر ہی ہوتے ہیں 24 گھنٹوں مین سے کم سے کم 20 گھنٹے سوتے گزارتے ہیں۔ جس طرح ایک بندہ اللہ پاک کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے انکی بھی یہی صورتحال ہے۔ اب کس طرح ان میں جینے کی رمق پیدا کی جائے اور ان میں یقین پیدا کریں کہ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ان کا وہم بن گیا ہے کہ ہاتھ معزور ہو گیا ہے مطلب اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ہاتھ کٹا نہیں لیکن خون کی روانی نا ہونے کی وجہ سے اس ہاتھ میں ہلچل نہیں ایسے سمجھیں پیرالائز ہو گیا ہے۔ انکی عمر 50 کے قریب ہے۔ انکو ایسے دیکھ کہ ہم خود بھی مایوس ہو جاتے ہیں۔ اب کیا کیا جائے آپ ہی بتائیں؟
سوال: دوست کے والد صاحب کی صورتحال پر بہت دکھ ہوا ہے۔ حادثے کے بعد اس نوعیت کی صورتحال بن جاتی ہے۔ اگر قرآن مجید کو عربی میں نہیں جانتے تو انہیں مشورہ دے دیں کہ اردو یا سرائیکی یا پنجابی میں نماز پڑھ لیا کریں اور وہ کرسی پر بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر ہی نماز پڑھ لیا کریں جو بھی ممکن ہو۔
جیسا کہ آپ نے بتایا کہ والد صاحب 20 گھنٹے تک سوتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے جسم میں موومنٹ نہیں ہو رہی ہے۔ اگر وہ گفتگو بھی نہیں کر سکتے ہیں اور سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں تو پھر نماز ان پر فرض کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ اگر وہ چار گھنٹے تک گفتگو کر لیتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں تو آپ انہیں مشورہ دے دیں کہ وہ جس طرح ممکن ہو، جس زبان ٘میں گفتگو کرتے ہیں، اتنی ہی نماز پڑھ لیں جو اس چار گھنٹوں میں موجود ہو۔ ایسا نہیں ہے تو پھر ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ اب اللہ تعالی ان پر امتحان ختم ہو گیا ہے اور اب کسی وقت بھی انتقال ہو جائے گا۔ جب تک نہ ہو تو تب تک بھی امتحان کچھ نہیں ہے۔
ہاں اگر اس چار گھنٹے تک شعور ذہن میں ہے تو پھر وہ امتحان باقی ہے اور انہیں اسی چار گھنٹے میں دو یا چار رکعت رمیں نماز پڑھ لیں۔ عربی نہیں یاد ہے تو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ وہ اردو، سرائیکی، پنجابی یا جوبھی زبان یاد ہے، اتنی ہی پڑھ لیں۔ شعور اگر ہے یا انہیں غصہ آتا رہتا ہے تو ڈپریشن کے لیے میڈیسن سے علاج ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ انہی کے ڈاکٹر سے پوچھ لیں تو وہ ڈپریشن ختم کرنے والی دوا کا استعمال ہو سکتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب آپ کو میڈیسن یا انجکشن کے ذریعے بتا دیں گے۔
میرے بھی ایکسڈنٹ کے بعد ڈپریشن کے خاتمے کی دوا دی گئی اور اسے فائدہ حاصل ہو گیا الحمد للہ۔ جب بھی ڈپریشن آتا ہے تو وہ میڈیسن بھی لے لیتا ہوں اور پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن سے نکلیں گے تو انشاء اللہ وہ اپنی زبان میں نماز پڑھ لیں گے انشاء اللہ۔
میرے سر کا ایکسڈنٹ جب ہوا تھا اور قومہ سے نکلا تو سورۃ الفاتحہ یاد آ گئی۔ کچھ دن بعد سورۃ الاخلاص یاد آئی اور لیٹ کر ہی نماز پڑھتا رہا۔ پھر باقی جتنی سورتیں پہلے یاد تھیں، انہیں یاد کرنے کے لیے یہ کیا کہ لکھی ہوئی سامنے کو رکھ لینا اور نماز پڑھتا رہا۔ اس کے بعد کئی مہینوں میں وہ سورتیں یاد آ گئیں کہ جب پیدل چلنے لگا تو اس وقت لکھی ہوئی سورتیں اور آیات کو یاد کرتا رہا اور پھر نماز میں بولنے لگا۔ الحمد للہ۔
سوال: میری جب کلاس ہو رہی ہوتی ہے اسی وقت عشاء کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ نماز کے لیے جاتا ہوں تو کلاس رہ جاتی ہے۔ اگر کلاس لوں تو نماز رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں کیا کروں؟
جواب: عشاء میں اتنا ٹائم تو ہوتا ہے کہ کئی گھنٹوں میں کسی وقت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ کلاس میں آپ کو چاہیے کہ سن لیں۔ پھر کلاس کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی مل کر جماعت پڑھا کر نماز پڑھ لیں۔ میں بھی سعودی عرب میں کلاس پڑھاتا تھا تو ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہمیں آدھا گھنٹہ کھانے کا ملتا تھا۔ اس دوران ہم بھی وضو کر لیتے اور سارے شاگرد کالج کے اندر ہی اکٹھے ہو کر جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دوسری کلاس شروع کرتے تھے۔ لاہو رمیں بھی ہیلے کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں میں پڑھاتا تھا تو کلاس کے اندر ہی ظہر کا ٹائم آ جاتا تھا۔ پھر کلاس کے بعد ہم وہیں یونیورسٹی میں جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کر لیتے تھے۔
سوال: لیکن مسجد کے عالم کا کہنا ہے کہ جس کی داڑھی نہیں ہے تو وہ امام نہیں ہو سکتا اور نہ لوگوں کی امامت کر سکتا ہے۔
جواب: مسجد کے علماء سے گفتگو نہ ہی کریں تو اچھا ہے ورنہ وہ غصے میں آپ سے بدتمیزی کر سکتے ہیں۔ ان میں جو بھی معقول آدمی ہو یعنی وہ عزت سے اختلاف کر سکتا ہو یعنی جس سے اختلاف ہو تو اس سے تب بھی عزت کے ساتھ بات کرتا ہو تو اس سے بات کر لیجیے گا۔ ان سے صرف یہ پوچھ لیجیے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جس کی داڑھی نہیں تو وہ امام نہیں بن سکتا ہے؟ اگر حدیث ہے تو اس کتاب کا نام اور باب بتا دیں۔
اگر ایک قابل اعتماد حدیث بھی مل گئی تو آپ کو ان کا جواب مل جائے گا کہ ان عالم کی بات درست ہے۔ اگر ایک بھی حدیث نہ ملی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں ہے بلکہ کسی انسان کا خیال ہے اور بس اتنی سی بات ہے یعنی اس انسان کا خیال درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دینی احکامات کو اتنا تفصیل سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتا دیا اور عمل بھی کرواتے رہے تو اس میں کسی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً جیسے نماز، زکوۃ، روزہ، حج ، تعمیر شخصیت میں کوئی اختلاف تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نہیں ہے۔ پھر کسی بھی صدی کے عالم کی کتاب پڑھ لیں تو اس میں بھی اختلا ف نہیں ہے۔ آج کل کے زمانے میں کسی بھی ملک کے کسی بھی عالم کی کتاب پڑھ لیں تو وہاں بھی اختلا ف نہیں ہے۔ ابھی آپ یو ٹیوب میں حرم شریف کی ویڈیو دیکھ لیں جس طرح نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ کو کوئی اختلاف نظر نہیں آئے گا۔ یہ سنت نبوی ہے۔
اختلاف تب ہوا ہے جب ایک عالم نے کسی طرح سوچا اور یہ سمجھا کہ دین کا یہ حکم ہونا چاہیے؟ انہوں نے فتوی دے دیا لیکن دوسرے عالم نے اختلاف کیا کہ نہیں بلکہ دین کا یہ حکم ہے۔
اب داڑھی میں آپ دیکھ لیجیے کہ اس میں علماء میں اختلاف ہے۔ آپ ابھی یو ٹیوب میں مصر کی کسی مسجد کی ویڈیو دیکھ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہاں امام صاحب میں داڑھی نظر نہیں آئے گی۔ سعودی عرب، اردن، عمان، عراق میں ویڈیو دیکھ لیں تو کسی عالم اور امام مسجد میں داڑھی ہو گی، کسی میں نہیں اور داڑھی بھی بہت لمبی نہیں ہو گی۔ اکا دکا کسی میں لمبی داڑھی بھی ہو گی لیکن ہر امام میں ایسا نہیں ہو گا۔ اگر فقہاء کا اختلاف ہے تو کس کا مطلب ہے کہ یہ فقہاء نے اس طرح سوچا اور اختلاف ہوا۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہوتا تو کسی عالم میں اختلاف نہ ہوتا۔
سوال: بہت بہت شکریہ سر جی آپ نے یہ واضح کر دیا۔ اصل میں ایک دن مسجد کے امام کو بخار تھا تو وہ نماز نہیں پڑھا سکتے تھے تو انھوں نے کہا کہ نماز صرف وہی پڑھائے جس کی داڑھی ہو۔ اور اس وقت 3 4 لوگ تھے مگر داڑھی کسی کی نہیں تھی۔ اس لیے یہ پوچھا۔
جواب: بس ان امام صاحب کو غلط فہمی تھی، اس لیے انہوں نے کر دیا۔ ورنہ میں نے سعودی عرب میں یہی دیکھا ہے کہ کسی وقت جماعت کا ٹائم ہو گیا اور امام صاحب کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکے تو لوگ کسی بھی انسان کو امام بنا دیتے ہیں تاکہ وہ اس نماز کو پورا کر دیں۔ اس کے لیے جسے امام کہہ رہے ہیں، اس کے لیے بالکل چیک نہیں کرتے کہ اس کی داڑھی ہے اور کتنی لمبی ہے، کونسا لباس ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار طائف میں مجھے بھی امام بنا دیا کہ امام صاحب تشریف نہیں لائے تھے۔ حالانکہ اس وقت میں پینٹ میں تھا اور داڑھی چھوٹے سائز کی تھی۔
سوال: نماز پڑھنے سے اللہ پاک خوش ہوتے ہیں کیا نماز پڑھ کے اگر ہمیں خوشی نا ہو تو پھر بھی اللہ پاک خوش ہوتے ہیں؟
جواب: جی ہاں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی نماز کو قبول کرتا ہے جس کا معنی ہے کہ وہ خوش ہوتا ہے۔ اس کے لیے آپ خود اپنے ذہن میں سوچ سکتے ہیں کہ جیسے ہی ذہن میں خوشی پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو پسند کر رہا ہے۔ اس کی مزید مثال آپ دیکھیے کہ آپ کسی بھائی کی مدد کرتے ہیں تو اپنے دل میں خوشی آتی ہے۔ اسی طرح جب بھی آپ زکوۃ، صدقات دیں گے، روزہ مکمل کریں گے، عمرہ اور حج کریں گے تو سب میں خوشی پیدا ہو گی۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP)
Learn Islam to make your career in the afterlife
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com