سوال: میری چچا جان کی وفات ہو گئی ہے۔ میرے رشتے دار ان پڑھ ہیں اور تہمتیں دیتے ہیں۔ انہوں نے میت کے نیچے گندم راکھ دی۔ میں نے پوچھا کہ کس لیے یہ کیا ہے؟ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ اس کا رزق ہے اور جب فرشتے سوال جواب کریں گے تو چچا جان ان فرشتوں کو گندم دیں گے۔ یہ بتا دیں کہ یہ ٹھیک ہے کیونکہ مجھے درست نہیں لگ رہا ہے؟
جواب: اللہ تعالی ان انکل کو اعلی جنت عنایت فرمائے۔ ان کے لیے اس موقع پر صرف دعا ہی کرنی چاہیے۔ رشتے داروں سے آپ ابھی کوئی بات چیت نہ کیجیے گا کیونکہ انہیں دکھ ہو گا۔ بعد میں وہ شعور میں کئی سالوں بعد آئیں گے تو اس وقت انہیں غلطی بتا دیجیے، ابھی بالکل کچھ نہ کہیے گا۔ اب میں جواب عرض کرتا ہوں۔
دین سے اس معاملے میں کوئی جواب نہیں ہے۔ نہ تو دین کا کوئی حکم ہے اور نہ ہی دین میں کوئی پابندی ہے۔ نہ تو روکا گیا اور نہ ہی حکم دیا گیا۔ بس اس میں غلطی یہی ہے کہ انہوں نے کسی فلسفے سے کہانی بنا دی کہ یہ رزق فرشتوں کو ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس میں قرآن مجید یا احادیث میں کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے فرشتے ایک سافٹ وئیر ٹائپ کی مخلوق ہے۔ اب ان کا رزق جو بھی ہو گا، آخرت میں ملاقات میں فرشتوں سے پوچھ لیں گے کہ بھائی کیسے کھاتے ہیں؟
اگر تو ان بھائیوں نے فلسفہ ہی سمجھا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں کہ محض علمی غلطی ہی ہے تو کوئی ایشو نہیں ہے۔ ہاں اگر انہوں نے دین اور شریعت کا کوئی حکم سمجھ لیا ہے تو پھر دینی غلطی ہے کہ دین میں جو اضافہ کریں تو وہی بدعت ہوتی ہے۔ ان بھائیوں نے محض فلسفہ ہی سمجھا ہے تو چھوڑ دیں۔ دین کا حکم سمجھا ہے تو ابھی چھوڑ دیں اور کئی سال بعد ہی جب آپ پر اعتماد کریں گے تو اس وقت اس غلطی کو سمجھا دیجیے گا کہ قرآن و حدیث میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسے دین نہ سمجھیں۔
سوال: انہوں نے میت کے کفن پر کلمہ طیبہ لکھ رکھا تھا۔ میں انہیں اس کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس لیے لکھا؟ پھر وہ کہہ رہے تھے کہ یہ کلمہ کفن پر اس لیے لکھا ہے تاکہ قبر میں انکل کو کلمہ یاد نہ آئے تو وہ فرشتوں کے سوال میں کفن سے ہی دیکھ لیں۔ اس کے بارے میں وضاحت کر دیں؟
جواب: اس کا جواب بھی وہی اوپر والا ہے۔ دین میں کوئی حکم نہیں ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ قرآن مجید اور قابل اعتماد احادیث میں پڑھ لیجیے کہ کچھ نہیں ہے۔ اگر انکل نے یہی درخواست کی تھی تو دین میں کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ کفن پر کلمہ لکھ لیا تو کوئی بدتمیزی بھی نہیں ہے۔ بعض لوگ اسے بدتمیزی بھی سمجھتے ہیں کہ انسان کے جسم میں خون اور دیگر چیزیں نکلیں گی تو کفن پر کلمہ پر بدتمیزی ہو جائے گی۔
لیکن اگر دین کا حصہ سمجھ لیا تو وہی بدعت بن جائے گی۔ ظاہر ہے کہ انکل کی روح سے فرشتوں کی جو گفتگو ہو گی، اس پر کلمہ یا قبر کے کیا اثرات ہوں گے، اس میں قرآن و حدیث میں کوئی جواب نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ فرشتے ان کے ایمان کو پوچھیں گے اور انکل اہل ایمان ہی تھے تو وہی جواب دے دیں گے۔ ان کی میمری ضائع تو نہیں ہو چکی ہو گی۔ ان کے بیٹوں نے اپنی ذہن پر مطمئن کرنے کے لیے کر دیا ہے تو چلیں کوئی حرج نہیں ہے۔ دین نہ سمجھیں تو جو مرضی کر لیں۔
سوال: کئی فرقوں کے مطابق کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنی چاہیے یا نہیں؟ اس میں کونسی بات درست ہے؟
جواب: نماز جنازہ بھی اصل میں دعا ہی ہے۔ مغفرت کی دعا ہم انکل کے نام سے کر لیں تو زیادہ اچھا ہے۔ نماز جنازہ کے بعد بھی کسی وقت یہی دعا کرنا چاہتے ہیں تو جس زبان میں چاہیں کر لیں۔ بعض علماء نے صرف اتنا ہی کہا ہے کہ نماز جنازہ ہی دعا ہے تو دوبارہ کرنے کو دین کا حصہ نہ بنائیں۔ دوسرے حضرات بس یہ کرتے ہیں کہ اردو میں دعا نماز جنازہ میں نہیں کرتے، اس لیے اس کے بعد وہ اردو میں دعا کر دیتے ہیں۔
اس لیے اصل ایشو کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین میں کوئی پابندی نہیں ہے کہ خاص الفاظ ہی میں دعا کریں۔ وہ ٹھیک ہے کہ احادیث میں جو دعائیں ہیں، وہ لوگ کر لیتے ہیں۔ اس میں مزید اضافہ کرنا چاہیں تو کریں۔ آپ ابھی حرم شریف میں نماز جنازہ کو یوٹیوب میں سن لیں تو وہ وہاں آپ کو اگر سمجھ سکیں تو انہی دعاؤں میں وہ اس بندے کا نام بھی کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی بدعت بھی نہیں ہے۔
سوال: سورۃ یونس 10 میں اللہ تعالی نے غور و فکر کرنے کا فرمایا ہے کہ دن اور رات کے بدلنے، سورج کی اینرجی دینا، کائنات کے چھ دن میں بنانا۔ مہارے پاس قرآن مجید پڑھنے والے طلباء ان میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید تو خود فرمایا گیا ہے کہ غور و فکر کریں۔ پھر ہمارے علماء سائنس کو مذہب کے خلاف کیوں کہتے ہیں؟
جواب: یہ دلچسپ سوال ہے۔ یہ وہی تقلید کی بیماری ہے جو ان بھائیوں میں ملوث ہو چکی ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے جس میں امت مسلمہ میں زوال آیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہی حکم دیا ہے کہ غور و فکر کریں۔ کائنات اور زمین کی سائنسی ٹیکنالوجی پر غور کر لیں تو اللہ تعالی پر اتنا ایمان کنفرم ہو جاتا ہے کہ جس میں کوئی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس پر آپ میری تحریر اور لیکچر سن سکتے ہیں جس میں سورۃ البقرۃ کی آیت 2:164 پر سائنسی ثبوت عرض کیے ہیں۔
سائنس کو آپ شروع سے آخر تک تمام کائناتی قانون کو پڑھ لیں تو ایک جملہ بھی نہیں ہے جو دین کے ایمان کے خلاف ہے۔ ہاں، کچھ سائنسدانوں نے کئی محض تھیوریز ایجاد کی ہیں جن میں انہوں نے بھی بتایا ہے کہ اس میں کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ سائنسدان کا محض اندازہ ہی ہے۔ اب جو اندازہ ہے، اس میں انہوں نے ایمان کے خلاف ملحدین نے اس کی تبلیغ شروع کر دی تو پھر یہ دین کے خلاف چلا معاملہ۔
ورنہ سائنس میں تو کوئی کائناتی قانون دین کے خلاف نہیں ہے بلکہ الٹا یہ ہے کہ کائناتی قانون تو اللہ تعالی کے وجود کو کنفرم کر دیتا ہے۔ پلیز آپ میری تحریر اور لیکچرز میں پڑھ اور سن سکتے ہیں جو اردو انگلش دونوں میں کاوش کی ہے۔
سائنس کا اصول یہی ہے کہ ہم صرف اور صرف ان اشیاء کا مطالعہ کرتے ہیں جو ہماری آنکھ، ہاتھ، ناک میں سمجھ سکتے ہوں۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، سائنس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اسے آپ دیکھیے کہ سائنس نے عاجزی اختیار کی ہے ورنہ اس سے پہلے فلسفی اللہ تعالی کے بارے میں بہت سے احمقانہ تھیوریز بولتے رہے ہیں۔ سائنٹسٹ ریسرچ نے عاجزی کے ساتھ اللہ تعالی کے معاملے کو چھوڑ دیا ہے۔
اب آپ کا اگلا سوال ہے کہ چھ دن۔ عربی میں لفظ یوم کا اردو میں ترجمہ دن بنا دیا ہے لیکن عربی زبان میں یہ لفظ دن بھی معنی ہے اور پیریڈ بھی۔ قرآن مجید میں جہاں ستہ ایام کا ذکر ہے تو وہ چھ پیریڈز کا ذکر ہے۔ اب سائنسدانوں نے کائنات کی پرانی تاریخ پر جو تھیوریز بیان کی ہیں، اس میں طویل عرصہ لگتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کا پیریڈ کتنا لمبا ہو تا ہے، ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس لیے اس تھیوریز میں جتنے لاکھوں سال گزرے ہوں تو تب بھی ہمیں کنفرم ہے کہ دین کے خلاف نہیں ہے۔
ہاں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالی کا دن اتنا طویل ہوتا ہے کہ ہمارے ہزار سال جیسا ہوتا ہے اور ایک آیت میں ہمارے 50,000 سال جیسا بھی ایک دن ہوتا ہے۔ اس میں پیریڈز کو آپ جتنے عرصوں میں سوچ لیں تو وہ ہمارے ٹائم کے لحاظ سے لاکھوں سال ہی بنتے ہیں۔
سوال: آپ کی بات درست محسوس ہوئی ہے۔ ہمارے رشتے دار انکل کی وفات کے بعد گھر میں کھانا بنانے کے لیے وہ بڑی رقم قرض پر مانگ رہے ہیں تاکہ قل خوانی، ہفتے اور چالسویں میں کھانا کھلائیں۔ کیا یہ دین کا حکم ہے؟
جواب: یہ کلچر کا پریشر ہے جو یہ بھائی غلطی سے کر بیٹھے ہیں۔ دین میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں احادیث بلکہ قرآن مجید میں یہ نیکی بتائی گئی ہے کہ غریب لوگوں کو کھانا کھلانا نیکی کا عمل ہے۔ اب لوگوں نے اسے زبردستی پکڑ کر وفات کے بعد لوگوں کو لازمی کھلانا سمجھ بیٹھے ہیں جو بدعت بن گئی ہے۔ ورنہ نارمل حالات میں یا انکل نے خود مشورہ دیا ہو کہ آپ غریب لوگوں کو کھانا کھلائیں تو اس پر جتنی طاقت ہو، اتنا کر لینا چاہیے کہ یہ نیکی کا عمل ہے۔ اس میں جو پابندی بنا لی ہے تو یہ وہی ہندو مت کلچر کے اثرات ہمارے ہاں بدعت کی شکل بن گئے ہیں۔
یہ بھی وہی ہندومت کلچر کے اثرات ہیں جو نارمل رہیں تو یہ محض دنیاوی کلچر ہی ہے۔ لیکن دین کا حصہ بنا لیا تو پھر یہ بدعت ہے۔ اس کلچر میں دین میں کوئی پابندی نہیں ہے لیکن کلچر نے پریشر خوامخواہ بنا دیا ہے۔ دین میں تو یہی چاہیے تھا کہ انکل کے تمام رشتے دار اور دوستوں کو روزانہ ہی بلکہ ہر نماز میں مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور بس۔ ہاں انکل نے جو مشورہ دیا کہ یہ نیکی کریں تو ان کی اولاد کو یہ نیکی کرنی چاہیے جتنی انہیں طاقت ہو۔ اس سے زیادہ اخراجات انہیں نہیں کرنی چاہئیں۔
سوال: اب میں نے انہیں بتایا کہ ایسا دین کا حصہ نہیں ہے تو وہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ ہماری ناک کٹ جائے گی کہ والد کے قل خوانی نہ کریں تو۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس میں کیا کیا جائے؟
جواب: آپ کی بات سے یہ واضح ہوا ہے کہ ان بھائیوں میں بدعت نہیں ہے۔ بس کلچر کا پریشر ہے جو ہندو کلچر سے اب تک آیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ صدیوں سے جو عادت بنی بیٹھی ہے تو اس سے جان چھڑانا بڑا مشکل کام ہے۔ یہ بھائیوں کا آپ پر اعتماد ہے تو پھر آپ پیار محبت سے انہیں سمجھا دیں کہ دین میں جب کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر اتنا خرچ نہ کریں۔ بس کلچر کے طور پر اتنا ہی کر لیں کہ گھر والے بیٹھ کر جو دعائیں کرنی ہیں تو کر لیں۔ اب کوئی پوچھے گا تو کہہ دیجیے گا کہ ہم نے قل میں دعائیں کرتے رہے ہیں۔ اس طرح ان کی ناک نہیں کٹے کی انشاءاللہ۔
سوال: میرے رشتے دار کی وفات کے وقت رسومات دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے بلکل شادی کی طرح جیسے سب کے لیے کپڑے لیتے ہیں، وہ بھی خریدے ہیں۔ جو میرے انکل کے بارے بیٹے نے مٹھائی کھلائی ہے۔ قل خوانی میں 80000 روپے قرض لیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں ابھی آٹا بھی نہیں تھا۔
جواب: اس میں آپ مایوس نہ ہوا کریں۔ یہ سب رسمیں جو ہندوؤں کے ہاں تھیں، مسلمان ہونے پر بھی وہی رسمیں کسی اور شکل میں جاری رہی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ جب جو مسلمان بھی قرآن مجید کا مطالعہ کرے گا تو پھر وہ ان رسموں اور عادتوں سے بچ جائیں گے انشاء اللہ۔ اس کی مثال یہی ہے کہ آپ مطالعہ کر رہے ہیں تو یہ رسمیں بری لگ رہی ہیں۔ اب آپ اور آپ کی اولاد میں یہ نہیں ہو گا انشاء اللہ۔ کزن بھی جب قرآن مجید کا مطالعہ کریں گے تو وہ بھی چھوڑ دیں گے انشاء اللہ۔
سوال: جیسے قرآن مجید میں ہے کہ زمین کے چلنے والے ہر جاندار کا رزق لکھا ہوا ہے۔ یعنی کہ تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ تو کیا تقدیر میں تبدیلی ہو سکتی ہے؟
جواب: تقدیر تو بس اللہ تعالی کا پلان ہے۔ پلان میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس شخص نے یہ کرنے گا تو اس میں یہ رزلٹ دیں گے اور اس شخص نے دوسرا کام کیا تو یہ رزلٹ دیں گے۔ اللہ تعالی کو تو پہلے ہی معلوم ہوتا ہے لیکن فرشتوں کو سمجھانے کے لیے یہ آپشنز بھی سنا دیتے ہیں۔ اس لیے فرشتے اس کے مطابق ہی اس شخص پر عمل کرتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر تقدیر میں یہ ہے کہ اس شخص نے اس ٹائم اور اس علاقے میں ایکسڈنٹ ہوا تو وہ مر جائے گا اور ایکسڈنٹ نہیں ہوا تو پھر نہیں مرے گا۔ اب وفات کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
سوال: قرآن مجید میں جو عرش ہے، اس کا ترجمہ ہیڈ آفس کیوں ہے؟
جواب: یہاں ہیڈ آفس کا ترجمہ میں نے عرش کا ہے۔ اللہ تعالی کا عرش یہ ہوتا ہے جس میں سے فرشتوں اور دیگر مخلوقات پر احکامات جاری ہوتے ہیں۔ اب وہ عرش یا ہیڈ آفس کو ہم نہیں جانتے ہیں کہ کیسا ہے کیونکہ ہمارا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ آخرت میں ہم اللہ تعالی کے مرکز کو دیکھیں گے۔ پرانی تاریخ میں الفاظ میں لوگوں کو سمجھایا ہے اور محض متشابہات ہیں کہ ہم اسے ٹچ کر کے تجربہ نہیں کر سکتے ہیں۔
اب پانی میں جو ہیڈ آفس تھا تو وہ زمین کی پیداوار کا عمل تھا۔ اس میں یہی ہوا کہ پہلے ہر طرف زمین پر پانی تھا اور اس میں پہلی زندہ مخلوق پانی سے پیدا ہوئی۔ سائنسدان بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلی مخلوق مچھلی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ پانی کم ہوا اور سخت زمین بھی آ گئی تو اس میں خشکی کے جانور پیدا ہوتے رہے۔ ان سب کے فوسلز سائنسدانوں کو مل گئے ہیں جس میں ہر جانور کی ہڈیاں ملی ہیں۔
باقی جانور اور پودوں میں جزا و سزا کا سلسلہ کچھ نہیں ہے بلکہ وہ نیکی اور برائی کا انتخاب نہیں کر سکتے ہیں۔ اس وہ تو اپنی عمر پوری کر کے یا حادثے میں مر جاتے ہیں۔ صرف انسان ہی ایک مخلوق ہے جو نیکی یا برائی کا انتخاب کر سکت ہیں، اس لیے انہیں جزا یا سزا کا سلسلہ آخرت میں ہونا ہے۔ اس آیت میں انسانوں کی بات ہی ہے کہ جب انہیں کوئی بڑا فنڈ مل جائے تو بڑا خوش ہوتا ہے لیکن پھر نقصان ہو کر ختم ہو جائے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ اصل میں انسان پر کبھی شکر کا امتحان آتا ہےا ور کبھی صبر کا۔ یہی اس زندگی میں امتحان جاری رہتا ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com