حضرات حسن، حسین اور معاویہ رضی اللہ عنہم کا آپس میں کیسا تعلق تھا؟

حضرات حسنین اور حضرت معاویہ

الحمد للہ، اس معاملے میں باغی راویوں  نے کوئی ایسی روایت وضع نہیں کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کبھی برا سلوک کیا ہو۔  اس کے برعکس تاریخی روایات حضرت حسن، حسین اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات کے روشن رخ سے پر ہیں۔  ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ  جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت حسین ، اپنے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے۔[1] ابو مخنف لکھتے ہیں: معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے۔ [2]

یہ یاد رکھیے کہ ابو مخنف ہی وہ صاحب تھے جنہوں نے سب سے زیادہ جعلی کہانیاں ایجاد کی تھیں تاکہ جھوٹ پروپیگنڈا کرتے ہوئے بغاوتوں کی مدد کر سکیں۔ یہ انہی کی جعلی کہانیاں ہیں جو تاریخی کتابوں میں لکھی گئی ہیں اور لوگوں نے ان پر تنقید نہیں کی اور بغیر سوچے سمجھے ہی جعلی کہانیوں کو اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ انہی کی جعلی کہانیوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں منفی تبصرہ موجود ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم بطور عطیہ کیوں دی جاتی تھی؟ بعض ناقدین اسے سیاسی رشوت قرار دیتے ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے اس بات کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت معاویہ پر سیاسی رشوت دینے اور حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم پر سیاسی رشوت لینے کی تہمت لگائی جائے۔

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عرب معاشرے میں خاندان کے سائز کی اہمیت غیر معمولی تھی اور اسی سے سماجی رتبے کا تعین ہوتا تھا۔ بچوں کی شادیاں جلد ہو جاتیں جس کی وجہ سے ایک ایک شخص کے پندرہ بیس بچے ہونا معمولی بات ہوتی تھی۔ 30-35 برس کی عمر میں انسان دادا اور نانا بن جاتا تھا۔  عربوں کی جوانی کی عمر بھی طویل ہوتی تھی۔ یہ صورتحال عام تھی کہ 70-75 برس کی عمر کے لوگ جسمانی اعتبار سے اتنے فٹ ہوتے تھے کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر دور دراز سفر کر کے جنگوں میں قیادت کرتے۔ ان کے بیٹے پچاس کے پیٹے میں ہوتے، پوتے تیس کے اور پڑپوتے ٹین ایجر ہونے کے دوران ہی صاحب اولاد ہوتے تھے۔ اس طرح سے ایک شخص ہی کی فیملی میں دو اڑھائی سو افراد معمول کی بات تھی۔خاندان صرف انہی افراد  تک محدود نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ ڈھیروں کی تعداد میں غلام اور لونڈیاں بھی ہوتے جن کے ساتھ غلاموں والا نہیں بلکہ فیملی ممبر کا سا سلوک ہوتا۔ انہی غلاموں کو جب آزاد کر دیا جاتا تو ان کا سماجی رتبہ بلند کرنے کے لیے انہیں  خاندان کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا جاتا۔ یہ لوگ موالی (واحد مولی) کہلاتے تھے۔  اس خاندان کے علاوہ معاشرے کے غرباء کی کفالت بھی انہی خاندانی سربراہوں کے ذمہ ہوتی تھی۔  طبقات ابن سعد میں ہر ہر خاندان کے مشہور لوگوں اور ان کے موالی کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔

اتنے بڑے خاندان  اور دیگر غرباء کی کفالت کے لیے ظاہر ہے کہ بہت بڑی رقم کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ سب لوگ  فارغ بیٹھ کر اپنے خاندان کے سربراہ پر بوجھ بنتے تھے بلکہ یہ سب اپنی خاندانی جائیداد پر کام کرنے کے علاوہ تجارت کیا کرتے تھے۔  قومی ضروریات جیسے جنگ وغیرہ کی صورت میں خاندان کے سربراہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے خاندان کے تندرست لوگوں کو لے کر سرکاری فوج کا حصہ بنے۔  خلفاء راشدین نے دولت کی تقسیم کا طریقہ یہ نکالا تھا کہ سرکاری آمدنی کو  خاندان کے سربراہ کو دے دیا جاتا اور وہ پھر اسے اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کرتا۔ اس تقسیم میں اگر کسی کو شکایت ہوتی تو  وہ براہ راست گورنر یا خلیفہ کو شکایت کر سکتا تھا۔  اس کے لیے ہر خاندان کے سربراہ کے پاس رجسٹر ہوتے تھے جن میں اہل خاندان کا اندراج ہوتا تھا۔ انہی رجسٹروں کی مدد سے علم الانساب کی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  نے بھی تقسیم دولت کے اس نظام کو جاری رکھا۔  آپ کے دور میں چونکہ مسلمانوں کی حکومت اس وقت کی معلوم دنیا کے ساٹھ فیصد رقبے پر پھیل گئی تھی، اس وجہ سے یہ دولت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دولت کو اکٹھا کرنے میں کسی پر ظلم کیا جاتا تھا۔ اس آمدنی کے بڑے ذرائع دو تھے: جب مسلم افواج نے قیصر و کسری اور دیگر بادشاہوں کے علاقے فتح کیے تو ان لوگوں نے جو دولت کے انبار لگا رکھے تھے، وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ یہ ان ممالک کے سرکاری خزانے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان ممالک کی سرکاری زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔ مسلمانوں نے ان ممالک کے باشندوں سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ زمینوں پر کام کریں اور پیداوار کا نصف یا تہائی حصہ بطور  خراج سرکاری خزانے میں داخل کریں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر مراکش تک کی زمینوں کی آمدنی کتنی ہو گی۔  ہر علاقے کی آمدنی کو اسی علاقے کے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور اس کا ایک حصہ مرکز کو بھیجا جاتا۔ پھر یہی آمدنی مرکز کے مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔

حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کے بارے میں تو یہ بات معلوم و معروف  ہے کہ انہیں جو عطیات ملتے، اس میں سے بہت کم وہ اپنی ذات پر خرچ کرتے اور زیادہ تر رقم عام لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے۔  ان حضرات نے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کر کے خود کو لوگوں کی دینی تربیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان علمی خدمات کے انجام دینے کے ساتھ ساتھ جب ضرورت پڑتی تو یہ سیاسی میدان میں بھی اتر آتے۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک بڑی مہم تیار کی جس کا مقصد قیصر روم کے دار الحکومت “قسطنطنیہ” کو فتح کرنا تھا۔  اس مہم کے سربراہ یزید بن معاویہ تھے اور اس لشکر میں حضرت حسین، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر کے ساتھ ساتھ بزرگ صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔  اگرچہ قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن اس مہم سے قیصر روم پر مسلمانوں کا زبردست رعب بیٹھ گیا۔ دوران محاصرہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور یزید نے ان کا جنازہ پڑھا کر انہیں ان کی وصیت کے مطابق قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر دفن کر دیا۔  بعد میں عیسائیوں نے آپ کا مزار تعمیر کر لیا  اور اس پر مرادیں مانگنے لگے۔ یہ مزار آج تک استنبول میں موجود ہے۔

اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ تمام صحابہ یک جان کئی قالب تھے۔ ان میں کوئی بغض نہیں پایا جاتا تھا  اور سب أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل) کی تصویر تھے۔ غالی راویوں نے بعد میں اپنے سیاسی مقاصد  کے لیے داستانیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیں جس سے یہ لگتا ہے کہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما نے بس مجبوراً حضرت معاویہ کی بیعت کر لی  ورنہ معاذ اللہ ان کے دل ایک دوسرے کے لیے بغض اور کینہ سے بھرے پڑے تھے۔  یہ تصویر ہرگز حسنین کریمین کے شایان شان نہیں ہے۔


[1]  ابن عساکر۔ 59/193

[2] ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر۔ www.al-mostafa.com (ac. 16 Feb 2012)

حضرات حسن، حسین اور معاویہ رضی اللہ عنہم کا آپس میں کیسا تعلق تھا؟
Scroll to top