سوال: سر ہمارے علاقے میں ایک گروہ ہے جو گیارہ بھائی ہیں انھوں نے مذہبی عبادات کی ادائیگی کے لیے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہیں بھی کوئی معاملہ ہو ان کے چلے جا کر ان کی تبلیغ کرتے ہیں ان مذہبی ٹھیکیداروں سے جنازہ پڑھانے کی ترغیب دینا قران خوانی پہ تقریر اور مختلف تقریبات میں دعاؤں کیلئے بلانا۔
تبصرہ: یہیں سے تو وہ جنازے سے آمدنی ہر اسٹیپ پر لیتے ہیں۔
سوال: اگر کوئی ان کو اپنے جنازے پہ بلائے ان سے جنازہ پڑھانے کی بجائے کسی اپنے امام مسجد یا کسی اور سے پڑھوائے تو وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کا جنازہ پڑھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
تبصرہ: ظاہر ہے کہ انہیں آمدنی نہ ملے تو پھر توہین سمجھ کر لڑتے ہیں۔
سوال: سر ہمارے ہاں برادری میں رواج سب نے مذہبی لبادہ اوڑھا ہوا ہے مگر ان میں انسان ہونے کی بھی خوشبو نہیں اتی مطلب انسانیت سے نفرت انسانیت کے لیے بغض حسد کینہ۔ اپنے اپ کو مواحد سمجھنا توحید پرست سمجھنا باقی لوگوں کو ناکارہ مشرک پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں ان لوگوں کا مزاج دوسرے لوگوں کی تنقید کرنا تنقید برائے تنقید کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف مذہبی تاثرات پھیلانا مگر مذہب کی ایک جھلک بھی اپنے اندر نظر نہیں آتی۔
تبصرہ: روایتی لوگوں میں یہی معاملہ ایسا ہی ہے خواہ وہ کسی بھی فرقے میں ہوں۔
سوال: جنازے والے دن قریبی رشتہ دار قبر تیار کرتے ہیں جنازہ پڑھاتے ہوئے دو کام ہوتے ہیں ۔ پہلا کام یہ ہوتا ہے پورا مجمع بیٹھ کر دعا مانگتا ہے۔
جواب: یہ بالکل درست اور جائز ہے۔ اکیلے بھی دعا کر سکتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی دعا کر سکتے ہیں۔
سوال: دوسرا طبقہ یہ کرتا ہے جنازہ پڑھنے کے فورا بعد اٹھ کے چلا جاتا ہے بس ان کو یہی کہتے ہیں کہ اپ بدعت کر رہے ہیں اپ مشرک ہیں مگر ان کو بدعتی کہے کر چکے جاتے ہیں ان میں بھی کوئی عملی جھلک نظر نہیں اتی بس باتوں کی حد تک دین اور اپنے فرقے کی باتیں نظر اتی ہیں۔ اس میں جو تقریر کرتے ہیں تو وہ اپنے فرقے ہی کی اہم پوائنٹس ہوتے ہیں۔
پہلے دن برادری کے اوپر دو یا تین دیگیں کا خرچ ڈالیں گے اس میں جتنے لوگ ہوں گے برادری کے ان سب کے اوپر ڈیوائڈ کیا جائے گا بیٹھنے کے لیے نیچے جو دری شامیہ اس کے پیسے بھی برادری کے اوپر ڈیوائڈ کیے جائیں گے
جواب: یہ سب کے ہاں ہی کلچر ہے جو دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کام اچھا ہے کہ جو اخراجات کرنا چاہتے ہیں تو پھر رقم کو برادری سے رقم لے لیں اور پھر اخراجات ادا کریں۔ یہ سب ہندوستانی رسم ہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔
سوال: قبرستان میں سپردِ خاک کرنے کے بعد دیوبندی ہوں بریلوی ہوں دو کام کرتے ہیں مردے کو قبر میں رکھنے سے پہلے سورۃ بقرہ کا پہلا رکوع اور سورۃ بقرہ کا اخری رکوع اور سورۃ ملک قبر کے اندر پڑھتے ہیں پھر جا کر مردے کو سپرد خاک کرتے ہیں۔
جواب: اس میں سب دعائیں ہی ہیں جو بالکل درست ہے۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے آخر میں دعائیں ہیں اور اس میں دعائے مغفرت کا حصہ ہے۔ پھر سورۃ ملک میں آخرت سے متعلق باتیں ہیں۔ یہ مشورہ دوں گا کہ آپ انہیں آیات اور دعاؤں کا ترجمہ ضرور پڑھ لیجیے۔
سوال: روایتی حضرات قبر کے سر والی سائیڈ پر کھڑے ہو کر اذان دیتے ہیں جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ قبر میں فرشتے جب اتے ہیں ایز ہم تلقین کے لیے اذان دیتے ہیں تاکہ وہ ایمان کی حالت میں ہی رہے۔
مگر جن لوگوں نے اپنے اپ کو دوسرے فرقے سے تصور کیا ہوتا ہے وہ قبر پر باقی پہلے ےفرقے والوں کی ایکٹیوٹیز کرتے ہیں مگر اذان نہیں دیتے۔ دوسرے حضرات بدعت سے بچتے ہیں۔ اس لیے پہلے والی دعائیں وہ کر لیتے ہیں۔
اس کے بعد بعض حضرات یا قبر میں قران پڑھنا مردے کو سپرد خاک کرنا اور چھوٹا ختم پڑھنا یہ دونوں حضرات پڑھتے ہیں اس کے بعد برادری کی طرف سے کھجوریں یا کوئی شے وغیرہ میٹھی وہ تقسیم کی جاتی ہے۔ صرف دوسرے فرقے والے حضرات سارے ایکٹیوٹیز کرتے ہیں بریلویوں والی مگر اذان نہیں دیتے۔ سر میرا یہ سوال ہے کہ کیا اذان دینا جائز ہے ناجائز ہے کیا اس کا بھی کہیں ثبوت ہے کہ نہیں ہے۔
جواب: یہ رسم انہوں نے خود ایجاد کر دی ہے جو بدعت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم آذان دیتے ہیں تو پھر فرشتے سمجھ لیتے ہیں کہ مردہ ایمان لا چکا ہے۔ یعنی جو عمل وفات شدہ حضرات نے کرنا تھا تو وہ خود ہی زندہ لوگ کر کے ان کی ہیلپ کر رہے ہوتے ہیں۔
اس میں آپ احادیث سرچ کیجیے کہ اگر آذان کا جنازے سے کوئی تعلق ہے تو پھر ٹھیک ہے ورنہ بدعت ہے۔ قبر پر آذان سے متعلق میں نے حدیث ڈھونڈی تو معلوم ہوا کہ ان حضرات نے اس حدیث سے سمجھا ۔ حدیث یہ ہے۔
صحیح مسلم میں جابررضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ’’شیطان جب اذان سنتا ہے اتنی دور بھاگتا ہے جیسے روحا کی طرف جا رہا ہے ۔‘‘ روحا مدینہ منورہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
اس سے انہوں نے شیطان سے لڑائی کے طور پر قبر میں فکس کر دیا کہ چلو اس طرح شیطان کو افسوس ہو۔ دوسرے فرقے والے حضرات نے اسے بدعت سمجھا کہ دین میں قبر سے آذا ن کی کوئی سنت نہیں ہے۔ اب دونوں کا مطالعہ کر کے خود فیصلہ کر لیجیے۔ میرے حساب سے تو دین میں آذان کا تعلق نماز سے ہے اور اس سے شیطان کو دکھ ہوتا ہے۔ اس کا قبر سے کیا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ قبر کے پاس آذان سے شیطان کو کیا غصہ آنا ہے؟
سوال: دوسرا سر سوال جنازے کے بعد اگر کوئی دعا مانگنا جائز ہے یا ناجائز ہے یا اس طرح کا عمل کرنا گناہ تو نہیں ہوگا۔
جواب: دعائیں ضرور کرنی چاہئیں کہ ہم اپنے وفات شدہ بزرگوں کے لیے مغفرت کی دعا کر رہے ہیں اور اس میں کوئی بدعت نہیں ہے۔ یہ تو ساری عمر تک کرنا چاہیے۔ ہمارے بھائیوں نے جنازے کے بعد کچھ خاص دن فکس کر دیے ہیں حالانکہ اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا تو ساری عمر تک کرنی چاہیے۔ یہ ضرور عرض کروں گا کہ آپ مغفرت کی ان دعاؤں کا ترجمہ ضرور پڑھ لیجیے۔
اصل میں مغفرت کی دعاؤں کا مقصد یہ لگتا ہے کہ اپنی وفات کے بعد والدین کو جب معلوم ہو کہ میرے بچے میرے لیے دعا کر رہے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہوں گے۔ اسی طرح ہم جب مغفرت کی دعا کرتے ہیں تو ہمیں اپنے لیے ریمائنڈر ہوتا ہے کہ ہم نے بھی آخرت تک پہنچنا ہے اور ابھی زندگی ہے کہ ہم آخرت کے لیے نیک عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو روکیں۔
سوال: جنازہ پڑھانے کے لیے سب سے بیسٹ کون ہوتا ہے فیملی میں اگر فیملی میں کوئی ممبر نہیں پڑھا لکھا کیا محلے کی مسجد کا امام زیادہ بیسٹ نہیں ہے یا وہ جس نے علاقے میں جنازہ پڑھانے کا ٹھیکہ لیا ہوا
جواب: اس کے لیے کسی بھی مولوی یا امام کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے قریب ترین رشتے دار آدمی ہی کو نماز جنازہ پڑھانا چاہیے۔ جتنی عربی میں یاد ہے تو وہ کریں اور مزید دعائیں اپنی زبان میں کر لیں۔ ہمارے بھائیوں نے غلط فہمی یہ کر لی ہے کہ دعائیں صرف عربی میں پڑھیں۔ اس کے لیے دین میں کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ آپ کو جس زبان میں اللہ تعالی سے تعلق مضبوط ہوتا ہے تو آپ اس زبان میں اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیے۔
سوال: غسل دینے کے لیے مسجد کا امام ائے جنازے کے لیے پیر صاحب آئے۔ غسل دینے والے کو تیسرے دن ایک روٹی رکھنے والا برتن گلاس منگری استاوا یعنی لوٹا ایک سوٹ کپڑوں کا اور تقریبا ہزار یا ، 500
جواب: یہ سب بدعت ہے۔ غسل دینے والا جو بھی قریب رشتے دار ہے تو اسی کو کرنا چاہیے اور مزید جو لوگ بھی خدمت کرنا چاہیں تو کریں۔ اس میں رقم کی ڈیمانڈ صرف بزنس ہی ہے ورنہ دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کفن کے طور پر کوئی بھی کپڑے لگا سکتے ہیں۔ زیادہ اچھا ہے کہ وہ وفات شدہ صاحب کے اپنے کپڑے ہی لگا دینے چاہئیں کہ زندہ آدمیوں نے استعمال نہیں کرنا ہے اور اسے بیکار ہی کرنا ہے۔
سوال: پیر صاحب جو جنازہ پڑھانے ائے گا اس کو ہزار یا 500اگر وہ قریب سے ائے اگر دور سے ائے گا تو اس کی رقم بڑھ جائے گی پیر سے جنازہ پڑھانے کا نظریہ یہ ہوتا ہے یہ بزرگ ہستی ہے یہ دعا مانگے گی اللہ تعالی اس کو معاف کر دے گا ساری زندگی اللہ کی نافرمانیوں میں گزارنے سے پیر کی ایک دعا سے وہ بخشش کے طلبگار بن جاتے ہیں۔
جواب: یہ سب بزنس ہی کر دیا ہے۔ یہ کلچر انڈیا میں ہندو حضرات میں بھی کر دیا ہے کہ جنازہ پنڈت حضرات ہی کرتے ہیں۔ وہی عادت مسلمانوں میں بھی آ گئی ہے۔
ایک بار میرا ذاتی تجربہ ہوا ہے۔ کسی کے ایک جنازے میں دیکھا کہ انہیں کوئی مولوی نہیں ملا تھا۔ انہوں نے مجھے مولوی سمجھ لیا اور کہا کہ نماز جنازہ پڑھا دیں۔ میں نے نماز جنازہ ادا کر دیا تو انہوں نے بڑی رقم دے دی۔ میں نے یہ رقم نہیں لی تو وہ زیادہ دینے لگے۔ میں نے بتایا کہ یہ ہمارے مسلمان بھائی تھے جن کا جنازہ ہے اور میرے لیے کوئی رقم بھی جائز نہیں ہے کہ جنازے کی رقم وصول کروں تو وہ لوگ بہت حیران ہوئے تھے۔ لیکن محض نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے رقم لینا تو یہ بالکل ہی بدتمیزی ہے۔
سوال: تین دن بیٹھیں گے شام کو قریبی رشتہ دار ا کر کھانا دیں گے دوپہر کو بھی کھانا دیں گے صبح بھی کھانا دیں گے شام کو بھی کھانا دیں گے اگر مالی طور پر کوئی مضبوط ہے تو اس کے لیے خصوصی کھانوں کا انتظام کیا جائے گا یعنی بریانی یا سالن وغیرہ بنا کر ان کو کھلائے جائیں گے وہ ایسے نظر ائے گا جیسے کس اپنے گھر میں لوگوں کو انویٹیشن کیا ہوا ہو کھانے کے اوپر آؤ۔
تین دن قریبی رشتہ دار یا دوست مختلف کھانے بنا کر ان کو ا کر دیں گے وہ ان کے اور تو اور نلکے سے پانی بھی نکالنا گوارا نہیں کرتے یہ سوگوار کا گھر ہے وہاں پر لوگ تین دن ایسے ڈیرے لگائیں گے جیسے یہ کھانے کے لیے بہت بڑی انویٹیشن ائی ہوئی ہو اور وہاں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت کرنا ایک دوسرے کے اوپر تن تنقید کرنا یہ بہترین ان کا کام ہوتا ہے۔
یہ تین دن جب بیٹھے ہوتے ہیں جب کوئی نیا بندہ آتا ہے تو کہتا ہے ایک بار سورہ فاتحہ پڑھ لیں تین بار سورۃ اخلاص پڑھ لیں اور جو کوئی مولوی وہاں بیٹھا ہوا ہو اس کو کہتے ہیں دعا مانگو پھر وہ دعا مانگتے ہیں۔
جواب: جو رشتے دار دوسرے شہروں سے آئے ہیں تو پھر معقول ہے کہ کھانا تو انہیں کھلانا ہی ہو گا۔ لیکن باقی سب لوگوں کو کھلانا بیوقوفی ہی ہے۔ ہاں اگر اپنی مرضی اور اپنی معاشی لمٹ کے لحاظ سے کھلائیں تو جائز ہے لیکن مطالبہ کسی کو نہیں کرنا چاہیے۔ میت کے رشتے دار تو پہلے ہی دکھ اور غم میں ہوتے ہیں تو اب ان پر زبردستی پابندی لگا دیں کہ وہ سب کو کھانا کھلائیں تو یہ کتنی ہی نامعقول حرکت ہے۔ دوسرے شہر کے رشتے داروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی رقم سے ہی کسی ریسٹورنٹ وغیرہ میں کھا لیں تاکہ میت کے گھر والوں کو تکلیف نہ ہو۔
یہ سب رسمیں آمدنی کمانے کے لیے ایجاد کی گئی ہیں۔ عادت یہی ہے کہ ہندوؤں کے ہاں بھی پنڈت حضرات نے جو طریقے ایجاد کر کے رقم کماتے ہیں، وہی عادت مسلمانوں کے ہاں بھی ہو گئی ہے۔ دعائے مغفرت اور تلاوت سب ہی فری میں کرنی چاہیے۔
سوال: دوسرے فرقے والے حضرات جب تین دن بیٹھتے ہیں تو کھانے پینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے وہ ایسے بیٹھے رہتے ہیں اگر کوئی وہاں ان کو غلطی سے کہہ دے کوئی نیا بندہ جب ان کا دوست کوئی بنا ہو اس کے سامنے ان کی فوت کی وغیرہ ہو جائے وہ کہے اس اپنے بزرگ کے لیے دعا کریں اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کرے وہ سب چیز بھول کر مہمان کے گلے پڑ جاتے ہیں یا اپ بدعت مشرکین والا کام کر رہے ہیں ہم نہیں دعا مانگتے یہ ناجائز اور بدعت ہے یا اپ حرام کام بتا رہے ہیں دعا مانگنا نہ مانگنا اللہ کام مگر وہاں پر ان کو بیٹھے بیٹھے مشرک اور بدعت بھی فتوے بھی لگا دیتے ہیں۔
جواب: یہ حرکتیں لوگ اپنے موڈ سے جو چاہیں کر لیتے ہیں۔ حدیث میں صرف یہی ہے کہ دعائے مغفرت ہی کرتے رہنا چاہیے اور فیملی کی خدمت کرنی چاہیے کہ ان کا دکھ کم ہو جائے۔
سوال: اگر کوئی بندہ سر تین دن فوتگی والے بیٹھا ہوا ہے اگر ان کے رشتہ دار دوست احباب دور دراز سے ا رہے ہیں اگر وہ اس مرحوم کے لیے دعا کریں یہ ناجائز عمل ہوگا یا جائز ہوگا۔
جواب: جائز ہے لیکن فیملی کو اخراجات کی مصیبت نہ بنائیں بلکہ ان کے دل کو سکون دلانے کی کوشش کریں تاکہ ان کا دکھ کم ہو اور ساتھ ان پر اخراجات کا بوجھ نہ ڈالیں۔
سوال: میت کے تیسرے دن فوت ہو جائیں گے عصر کے وقت اتے ہیں اور وہاں پر بیٹھ کر چھوٹا ختم پڑھتے ہیں میت والے گھر والوں کی استاد کے مطابق کوئی خراب بھی کرتے ہیں مثلا کھجور بانٹنا یا چاول بریانی پھر وہ لوگ یہ چیز بانٹنے کے بعد فوت کی والی حالت سے ازاد ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے مردوں کے لیے چار جمعراتیں بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے مردے کے لیے صبح نو بجے والی قران خوانی کرتے ہیں۔ دوسرے فرقے والے لوگ اپنے مردے کے لیے شام عصر کے ٹائم قران خوانی کرتے ہیں۔
جواب: قرآن خوانی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ دعائے مغفرت ہی اصل میں دین کا حکم ہے۔ باقی لوگوں نے جو جو رسمیں قرآن خوانی کی بنائی ہیں تو یہ ان کی محض رسمیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن خوانی سے میت کے گناہ معاف ہوں گے حالانکہ یہ سب کچھ تو ان کے اپنے عمل کے لحاظ سے ہی ہونا ہے۔ میت کے گناہ تو ان کی اپنی توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔ ہاں انہوں نے اپنی اولاد کو قرآن مجید پڑھایا اور سمجھایا تو پھر والدین کا اپنی نیکی کا اجر ملنا ہے اور گناہ بھی معاف ہوں گے انشاء اللہ۔
سوال: ان دونوں حضرات کا موقف یہ ہوتا ہے یہ صبح کا ٹائم خیرات کرنا بدعت ہے ہم خیرات کے انکاری نہیں ہیں مگر اس ٹائم کے انکاری ہوتے ہیں ۔
جواب: اگر انہوں نے بدعت اس بنیاد پر کی ہے کہ کسی نے خاص صبح کا ٹائم فرض سمجھ لیا ہے تو پھر واقعی بدعت ہے ورنہ کوئی بدعت نہیں ہے۔ خیرات کے لیے دین میں کوئی خاص ٹائم فکس نہیں ہے۔ جب چاہیں اور جس منٹ پر چاہیں تو آپ خدمت کے طور پر لوگوں کو رقم دے سکتے ہیں۔ اس میں یہ ضروری ہے کہ کسی بھکاری کو رقم نہ دیں بلکہ اپنے جاننے والے بندوں کو رقم دیں جنہیں معاشی مشکلات ہوں۔ بھکاری مافیہ تو غریب لوگوں کی رقم کو فراڈ میں چھین لیتے ہیں۔
سوال: کچھ بھائیوں کا یہ موقف ہوتا ہے اللہ ہر ٹائم سننے والا ہے صبح کا ٹائم سب سے زیادہ بیسٹ ہوتا ہے۔
جواب: یہ ان کا خیال ہے جو غالباً احادیث میں تہجد اور فجر کی فضیلت بیان ہے ۔ باقی اللہ تعالی تو ہر منی سیکنڈ سے بھی سننے والا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دعائیں تہجد اور فجر میں ضرور کریں لیکن پورے دن میں جب یاد آئے تو اسی وقت دعا کرنی چاہیے۔
سوال: یہ رسم ہے کہ اگر ان کی لیڈیز فوت ہو جائیں لیڈیز کے سر کے اوپر مہندی لگاتی ہیں چاہے مذہبی گھرانہ ہو یا نہ ہو اور ان کی میت کے نیچے گندم کے دانے رکھتے ہیں تقریبا تین کلو ہوتے ہیں وہ کمی میراثی پولیوں کو دیتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ ہے میت کا کرایہ۔
جواب: میراثیوں کو رقم تو اس لیے دیتے ہوں گے کہ وہ اچھے طریقے سے بین کریں۔ میراثی حضرات رقم لے کر بین یا میوزک یا جگت سب میں ماہر ہوتے ہیں۔ احادیث میں واضح ہے کہ بین بہرحال حرام ہے کیونکہ یہ صبر کے خلاف ہے۔
باقی مہندی معلوم نہیں کہ انہوں نے اسے جنازے میں کہاں سے فٹ کر دیا ہے کیونکہ دین میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ باقی گندم کے دانے کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف ایک حدیث میں اتنا ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہیں کوئی پودا لگا دیا تھا جس میں مغفرت کی دعا ہی تھی۔ لوگوں نے احادیث سے رسمیں ایجاد کر دی ہیں جبکہ حدیث میں اصل مقصد نہیں سمجھا۔ اگر کوئی آدمی گندم یا دال وغیرہ اس لیے لگاتا ہے کہ پرندے کھا لیں تو یہ اچھا کام ہے لیکن دین میں کوئی ایسی پابندی نہیں ہے۔ پرندوں اور دیگر جانوروں کے لیے کھانا کھلانا ایک نیک عمل ہے جو جب موقع ملے کرنا چاہیے لیکن اس کا قبر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: سرمیت کو غسل نہیں دیا کسی نے اس کو ہاتھ لگایا اس کے لیے کیا حکم ہے کیا اس کے اوپر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے کیونکہ میت کا باڈی تو ناپاک ہوتا ہے۔ میت کو غسل دینے والوں پر کیا غسل فرض ہوتا ہے؟ کیا سر روح نکلنے سے باڈی ناپاک ہو جاتی ہے؟
جواب: میت کو غسل دینا تو فرض ہے اور اسے نہ کرنا تو گناہ ہوا۔ یہ سنت نبوی کا حکم ہے کہ میت کو غسل کروانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ میت میں جو کیمیکلز اور گندگی ہو تو اسے صاف کر سکیں۔ یہ لوگوں نے خود ہی آئیڈیا ایجاد کر دیا ہے۔ روح کی گندگی تو اپنے عمل سے ہے۔ غسل کا مقصد صرف یہ ہے کہ پولوشن ختم ہو۔ ظاہر ہے کہ انسانوں نے ہاتھ لگایا اور پھر قبر کے اندر جن جانوروں میں کوئی انفیکشن نہ آئے یہ مقصد ہے۔ اس کا میت کی روح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: کیا سر میت کو غسل دینے سے باڑی پاک ہو جاتی ہے؟ جب میت کو غسل دے دیا جاتا ہے لیڈیز اکٹھی ہو کر میت کے سامنے قران پڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔
جواب: قرآن پڑھنا تو نیک عمل ہے۔ لیکن اسے سمجھتے نہیں ہیں کہ وہاں سے اپنی مغفرت کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ بس مقصد یہی ہے کہ میت کے لیے دعائے مغفرت اور ساتھ ہی اپنے لیے کرنی چاہیے۔ ان حضرات نے قرآن مجید کا معنی سمجھنا چھوڑ دیا اور اسے میت کی مغفرت کا ٹول سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کے اندر ٹاپک ہی آخرت میں مغفرت کی کاوش ہے جس میں ہم برائیوں سے بچیں۔
سوال: لوگ باڈی کا بوسہ لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے نا جائز ہے؟
جواب: دین میں نہ حکم ہے اور نہ حرام۔ جیسے دل چاہیں تو اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں کہ اپنی محبت جن میں ہو تو وہ کر سکتے ہیں۔ گناہ اسی کو ہو گا کہ اگر کوئی اس باڈی سے شہوت رکھتے ہوں جیسے بعض احمق لوگ کسی لڑکی کی میت پر اپنا سیکس استعمال کرتے ہیں۔
سوال: غسل دینے کے لیے مٹی کے ڈھیلوں کا استعمال کیا جاتا ہے کیا اج کے دور میں ان کی ضرورت ہے
جواب: وہ ایک حدیث سے سمجھتے ہیں۔ حدیث میں یہی حکم ہے کہ مٹی ڈالتے جائیں تاکہ میت اس میں دفن ہو۔ اس کا غسل سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ قبر میں دفن کرنے کی کاوش ایک نیک عمل ہے اور جو لوگ بھی دفن کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالی انہیں اجر عنایت فرماتا ہے۔
سوال: غسل دینے کے لیے پانی میں بیری کے پتوں کو چھڑکاؤ کیا جاتا ہے کیا یہ اب اس کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟
جواب: دین میں حرام نہیں ہے۔ ان بھائیوں نے حدیث میں سے پڑھ لیا ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیری کے پتوں سے غسل کروایا ہے۔ ان بھائیوں نے غور نہیں فرمایا کہ اس قدیم زمانے میں صفائی کے لیے پتے استعمال ہوتے تھے اور آج کل صابن ہے۔ آپ چاہیں تو پتوں سے صاف کر لیں یا صابن یا شیمپو کسی سے بھی صاف کر سکتے ہیں۔
سوال: جنازے کے بعد مولوی حضرات میت کو جہاں پہ رکھا ہوا ہوتا ہے جنازے کے دوران وہاں سے اٹھا کر تھوڑا سا ایک دو قدم کے فاصلے پر رکھ کر سورۃ ملک پڑھاتے ہیں اس کو وہ کہتے ہیں ہم نے یہ قدمی کرائی ہے جو مولوی یہ کرتا ہے پھر لوگ اسے اس کو پیسے دیتے ہیں۔
جواب: انہوں نے اپنی آمدنی ایجاد کر دی حالانکہ حدیث میں یہ ملا ہے کہ پیچھے جاتے ہوئے دعائے مغفرت کرنی چاہیے۔ سورۃ ملک میں اپنی وفات اور آخرت کا ذکر ہے۔ اسے ضرور پڑھنا چاہیے لیکن اس کا ترجمہ ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی کے ارشادات کیا ہیں تاکہ ہم اس پر عمل کر سکیں۔
سوال: اگر کسی کی فجر کی دو سنتیں رہ گئی ہیں اس نے جماعت کے ساتھ فرض مل کر پڑھ لیے اب وہ سنتے پڑھنا چاہتا ہے وہ سنتے ہیں جماعت کے فورا بعد پڑھے یا سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھے۔
جواب: فجر کی سنت نبوی میں تاکید ہے۔ جماعت بہرحال پہلے زیادہ اہم ہے اور ادا کر دیں لیکن فرض کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز روک دی گئی ہے۔ اس لیے طلوع کے 15-20 منٹ بعد ہی اس سنت فجر کو ادا کر لینا چاہیے۔ اگر بھول گئے تو پھر کسی وقت کر لیجیے کیونکہ اس تاکید میں اجر زیادہ ہے۔ لیکن اگر نہیں ادا کی تو گناہ بھی نہیں ہے۔ سنت ایک نفل عمل ہے جس میں اجر بہت زیادہ ہے لیکن اگر ادا نہ کر سکیں تو گناہ بھی نہیں ہے۔
Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP)
Learn Islam to make your career in the afterlife
Send your questions in email mubashirnazir100@admin
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com