ایک نوجوان کھلاڑی کو فٹ بال ٹیم میں شامل ہو کر میچ کھیلنا پڑا۔ اتفاق سے اس کی ٹیم ہارگئی۔ ہارنے کے بعد نوجوان نے اپنے باپ کو خط لکھا۔
ہمارے مخالفوں کو ہماری دفاعی لائن میں ایک زبردست شگاف مل گیا تھا۔ اوروہ شگاف میں ہی تھا۔
امام شافعی کی کتاب الرسالہ کا آسان اردو ترجمہ۔ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کو سمجھنے کا طریق کار کیا ہے؟ عام اور خاص سے کیا مراد ہے؟ حدیث کے صحیح ہونے کو پرکھنے کا طریق کار کیا ہے؟ علماء کے اختلاف رائے کی صورت میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ |
یہ اعتراف کسی آدمی کے لیے سب سے بڑی بہادری ہے اور یہی تمام اجتماعی ترقیوں کی جان بھی ہے۔ ہر شکست دفاعی لائن میں کسی شگاف ہی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔ اور اس کا بہترین علاج اس کا اعتراف ہے۔ اعتراف کے ذریعے اصل مسئلہ بغیر کسی مزید خرابی کے حل ہو جاتا ہے۔ اعتراف کرنے والا یا تو اپنی کمی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو میدان سے ہٹا دیتا ہے۔ اور اس طرح دوسرے بہتر لوگوں کو کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یا وہ اپنی ہار کو وقتی معاملہ سمجھ کر مزید تیاریوں میں لگ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بالآخر کامیاب ہو جاتا ہے۔
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اعتراف ہے۔ ایمان ایک اعتراف ہے۔ کیونکہ ایمان لا کر آدمی اپنے مقابلہ میں خدا کی بڑائی کا اقرار کرتا ہے۔ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی اعتراف ہے۔ کیونکہ ان پر عمل کر کے ایک شخص بین انسانی ذمہ داریوں کا اقرار کرتا ہے۔ توبہ ایک اعتراف ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے آدمی اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ صحیح وہ ہے جو خدا کے نزدیک صحیح ہے اور غلط وہ ہے جو خدا کے نزدیک غلط ہے۔ زندگی کی ہر قسم کی اصلاح کا راز اعتراف میں چھپا ہوا ہے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ غلط کرتا ہے۔ اگر وہ اعتراف نہ کرے تو اس کی غلطیوں کی اصلاح کی دوسری کوئی صورت نہیں ۔
سات چیزوں سے اللہ تعالی کو سخت نفرت ہے: مغرور آنکھیں، جھوٹی زبان، بے گناہ کا خون بہانے والے ہاتھ، برے منصوبے بنانے والا دل، برائی کے لئے تیز چلنے والے پاؤں، جھوٹا گواہ جو دروغ گوئی سے کام لیتا ہے اور وہ شخص جو ایک ہی خاندان کے افراد میں ناچاقی پیدا کرتا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام |
اعتراف تمام ترقیوں کا دروازہ ہے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اعتراف کے لیے آمادہ کرسکے۔ جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے تو آدمی اس کو اپنی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔ وہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ جس غلطی کا صرف زبانی اقرار کر لینے سے کام بن رہاتھا اس غلطی کا اسے اپنی بربادی کی قیمت پر اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ (مصنف: وحید الدین خان)
اگر یہ تحریر آّپ کو اچھی لگی ہو تو اسے دوسروں تک بھی منتقل کیجیے۔ آپ کے سوالات اور تاثرات اس پروگرام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ای میل بھیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ آپ کے خیال میں لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں جھجک کیوں محسوس کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کا کوئی واقعہ یاد کیجیے جب آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف نہ کیا ہو اور اس کے نتیجے میں آپ کو بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہو۔