اپنی کمیوں کو جانیے

وہ بڑھاپے کی منزل میں تھا۔ مگراس نے شادی نہیں کی تھی، اس لیے کہ اس کوایک آئیڈیل رفیقہ حیات کی تلاش تھی۔ لوگوں نے پوچھا: کیا آپ کو زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جوآئیڈیل رفیقہ حیات بن سکتی ہو۔ اس نے جواب دیا: ایک خاتون ایسی ملی تھی مگرمشکل یہ تھی کہ وہ بھی اپنے لیے ایک آئیڈیل شوہر تلاش کر رہی تھی۔اور بدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا۔

تباہی سے پہلے تکبر اور زوال سے پہلے خود پسندی ہوتی ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام

لوگ عام طور پر دوسروں کی کمیوں کو جاننے کے ماہر ہوتے ہیں اس لیے ان کا کسی سے نباہ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی اپنی کمیوں کو جان لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اپنی کمیوں کا احساس آدمی کے اندر تواضع اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف دوسروں کی کمیوں کو جانتا ہو تو اس کے اندرگھمنڈ پیدا ہوگا اور کسی سے نباہ کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

    نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔ کسی میں کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت۔ پھر جس شخص میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اورخصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جوگویا اس خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص اگر بہادر ہے تو اس نسبت سے اس کے اندر شدت ہوگی۔ ایک شخص شریف ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی ہوگی۔ ایک شخص حساس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر غصہ ہوگا۔ ایک شخص ذہین ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہوگا۔ ایک شخص عملی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر فکری استعداد کم ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ

بارہ سو سال پہلے لکھی گئی کتاب الرسالہ، جو کہ اصول الفقہ کی پہلی کتاب ہے، کا مطالعہ کیجیے۔ اس کتاب کے مصنف امام شافعی ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اصول الفقہ کے قواعد کو ضوابط کو مرتب کیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اس لنک پر دستیاب ہے۔

ایسی حالت میں قابل عمل بات صرف ایک ہے۔ ہم جس شخص کے روشن پہلو سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اس کے تاریک پہلو کو نظر انداز کریں۔ یہی واحد تدبیر ہے۔ جس سے ہم کسی کی صلاحیتوں کو اپنے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہوں یا مالک اور ملازم  کے تعلقات یا دکان دار اور شراکت دار کے تعلقات ہر جگہ اسی اصول کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو پھول لینا ہے تو ہم کو کانٹے کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔ جس کے اندر کانٹے کی برداشت نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی مقدر نہیں۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی صلاحیتیں ہوں۔ اسی ضرورت نے مشترکہ سرمایہ کمپنیوں کا تصور پیدا کیا ہے۔ لیکن کئی آدمیوں کا مل کر کسی مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعتِ ظرف کا مادہ ہو۔ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے نہ الجھیں۔ وہ ناخوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کی بجائے ناخوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش کریں۔ معیار پسندی بہت اچھی چیز ہے مگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہتر طریقہ عمل ہوتا ہے۔

(مصنف: وحید الدین خان)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ آئیڈیل ازم اور پریکٹیکل ازم میں کیا فرق ہے؟

۔۔۔۔۔۔ بعض لوگ آئیڈیل ازم اختیار کرنے میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے رویے میں کیا غلطی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح دوسری انتہا پر بعض لوگ پریکٹیکل ازم میں انتہا پسند بن جاتے ہیں، ان کے رویے میں غلطی کہاں پر پائی جاتی ہے؟

تعمیر شخصیت لیکچرز اور قرآن مجید کا مطالعہ

اپنی کمیوں کو جانیے
Scroll to top