اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے ۔ ( الذاریات56:51 )اس بندگی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ خدا ہی کی بات مانی جائے۔ اسی کے احکامات پر اپنے ظاہر و باطن کو جھکا دیا جائے اور طا غوت کی بات ماننے سے گریز کیا جائے ( النحل 36:16 )۔ اسی بندگی اور تسلیم و رضا کو جا نچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زندگی و موت کا نظام پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے ( الملک 2:67 ) لیکن اس نے انسان کو اس آزمائشی میدان میں تنہا نہیں چھوڑ ا بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجے تاکہ وہ ان ہدایت کے متلاشی نفوس کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں اور انھیں آلودگی سے پاک کریں ( الجمعہ2:62 ) اس پاکی کا نتیجہ آخرت کی فلاح اور آلودگی کا انجام آخرت کی نا کامی ہے (الشمس 109:91)۔ چنا نچہ نفس کو پاک کرنے کا طریقہ کار انسانوں کے اجتہاد، قیاس اور خواہشات پر نہیں چھوڑ ا بلکہ وحی کے ذریعے انسانیت کو بتا دیا کہ خدائی رضا کا حصول محض ا سلام کو دین کی حیثیت سے ماننا اور اس پر عمل کرنا ہے ( آل عمران 85:3 ) اسی طرح دین کو چند مخصوص عقائد، فلسفوں اور نظریاتی مباحث تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے ایک واضح شریعت عطا کی ( الجاثیہ 95:45 ) ۔اس شریعت میں انسانی زندگی سے متعلق ہر پہلو کی جز ئیات تک بیان کر دیں تاکہ تمام انسانوں پر اتمامِ حجت ہو جائے اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں خبر نہ تھی ( الملک 11-9:97 )۔
خدا کی شریعت قرآن کے اوراق اور پیغمبر ﷺ کے افعال و اقوال میں موتیوں کی طرح بکھری ہوئی ہے ۔ اس کے ہر موتی پر خدا کی رضا کی مہر ثبت ہے ۔ اگر کسی نے خدا کو راضی کرنا ہے تو اسے رہتی دنیا تک انہی تعلیمات کی روشنی میں عمل کرنا ہے اور اپنی ذہنی اختراع، فلسفہ، رجحان، خواہش اور میلان کو قرآن و سنت کی بیان کردہ حدود کے تابع رکھنا ہے ۔(آل عمران 85:3(
اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ یہ احکامات قرآن کی مختلف سورتوں میں اور پیغمبر کی احادیث میں بالکل واضح طور پر موجود ہیں ۔ ان ہد ایات کا تعلق ایمان ، عبادت، اخلاق، معاشرت، معیشت ، خوردو نوش اور زندگی کے دیگر پہلوؤں سے ہے ۔ چونکہ ایک فرد کو زندگی کے ان تمام ہی شعبوں سے واسطہ پڑ تا ہے ۔ لہٰذا اسے ان اصول و ضوابط کو جاننا اور ماننا انتہائی ضروری ہے ۔ خداکی بندگی کے یہ اصول کسی ایک مقام یا ایک أیت یا حدیث میں موجود نہیں بلکہ یہ ہدایات قرأن اور نبی کریمﷺکی سنت میں مختلف پیرأئے میں موجود ہیں ۔ اسی لئے ایک عام فرداکثر فراموش کر بیٹھتا ہے کہ دین نے اس سے کیا تقاضے کئے ہیں ۔چنانچہ وہ لا علمی میں صراط مستقیم سے روگردانی کر بیٹھتا ہے ۔
سوالنامے کے مقاصد
اس سوالنامے کا بنیادی مقصد ایک ایسی فہرست مرتب کرنا ہے ۔ جس میں تمام مطلوب عقائد ، اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ ( برے اعمال ) بیان کر دئیے جائیں جو قرآن اور سنت میں بیان ہوئے ہیں ۔ تاکہ کوئی بھی شخص ایک نظر میں یہ جان لے کہ اس کا خالق کس چیز کا حکم دیتا اور کس سے منع فرماتا ہے ۔ اس سوالنامے میں جو امور بیان ہوئے ہیں ۔ وہ بہت حد تک ایک شخص کی زندگی سے متعلق ان تمام عقائد و اعمال کا احاطہ کرتے ہیں جو دین اسلام میں مطلوب یا ممنوع ہیں ۔
اس سوالنامے کا دوسرا مقصد ایک عام مسلمان کو اس انداز میں دینی احکامات کی جانب توجہ دلانا ہے کہ اس کی دلچسپی بھی بر قرار رہے اور بات اس کی سمجھ میں بھی آ جائے ۔ اسی لیے تمام اوامرو نواہی اور عقائد و عبادات کو سوالات کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ۔
اس سوالنامے کا تیسرا مقصد احکامات کی شدت میں فرق کو واضح کرنا ہے مثال کے طور پر زنا کرنا اور چغلی کرنا دونوں گناہ ہیں لیکن زنا ایک قبیح تر گناہ ہے ۔ اسی لیے اسے الگ زمرے میں رکھا گیا ہے ۔
اس کا ایک اور مقصد ایک عام فرد کو یہ حسابی طریقے سے یہ علم دینا ہے کہ وہ کتنا فیصد یا کس حدتک دین کے احکامات کو مانتا اور عمل کرتا ہے ؟ وہ کون سے امور ہیں جہاں اسے اصلاح کی ضرورت ہے ؟ مزید یہ کہ بحیثیت مجموعی اس کی کیا کار کر دگی ہے ؟ در حقیقت یہ مختصر کتابچہ قرآن کی اس ہدایت کی تکمیل کی کاوش ہے کہ تم میں ہر شخص یہ جان لے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا۔ الحشر18:59
سوالنامہ اور اعمال نامہ
آخرت میں ہر فرد کو اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔ جسے یہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ کامیاب اور جس کو بائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ نا کام ۔ ( الحاقہ 25,19:69 ) ۔ یہ اعمال نامہ خدا کے حکم سے اس کے فرشتے تیار کرتے ہیں جو انسان کی ہر چھوٹی اور بڑ ی اچھائی یا برائی کو نوٹ کر لیتے ہیں اور یہ اعمال نامہ ہر شخص کیلئے حجت ہے جسے پڑ ھ کر وہ خود فیصلہ کر لے گا کہ اس کا مستقر کہاں ہے۔ ( بنی اسرائیل 114-113:17 ) یہ اعمال نامہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص علم سے ترتیب دیں گے اور اس علم تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ایک شخص نے نماز پڑ ھی تو کس نیت سے پڑ ھی اور کیا یہ نماز قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں۔
دوسری جانب جب ہم اپنے اعمال و عقائد کا جائزہ لیتے ہیں ۔ تو ہم صرف یہ ہی جان سکتے ہیں کہ ہم نماز پڑ ھتے ہیں یا نہیں یا روزہ رکھتے ہیں یا نہیں ، یا توحید کو مانتے ہیں یا نہیں ۔ لیکن ہمارے پاس علم کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ نماز، روزے اور عقیدے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہیں یا نہیں ۔
لہٰذا اعمال نامہ اللہ کے کامل ترین علم پر مشتمل ہے اور یہ ہمارے معاملات کی خدا کی بارگاہ میں قبولیت ورَد کا فیصلہ کرتا ہے جبکہ یہ سوالنامہ ناقص انسانی علم پر مبنی ہے جو محض ایک تخمینہ اور انداز ہ ہے کہ ہم کس حد تک دین کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس سوالنامے کا کسی بھی طرح اعمال نامے سے موازنہ کرنا مرتب اور قاری کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
سوالنامے کی خصوصیات
· یہ سوالنامہ عقائد۔، عبادات، اوامر ، نواہی، اخلاقیات ، معیشت، معاشرت اور دیگر امور سے متعلق اسلامی ہدایات کی ایک لسٹ فراہم کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔ یہ تمام ہدایا ت کی نوعیت اور شدت میں فرق واضح کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔ یہ ایک فرد کو پوائنٹس کی صورت میں یہ معلومات مہیا کرتا ہے کہ وہ کتنے فیصد دینی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔ یہ ایک مسلمان کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کر کے اصلاح کی جانب راغب کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔ اس سوالنامے کے اجزاء براہ راست قرآن کی آیات یا احادیث صحیحہ سے اخذ کیے گئے ہیں جن کا حوالہ موجود ہے۔
۔۔۔۔۔ اس سوالنامے کا تعلق کسی مخصوص فرقے ، تنظیم یا مسلک سے نہیں بلکہ اس کے مخاطب ہر مسلک کے مسلمان ہیں۔
سوالنامے کا استعمال
یہ دستاویز آپ نے کسی شخص کے پاس جمع نہیں کرانی بلکہ یہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے ۔ جب آپ اسے ایک مرتبہ پُر کر لیں تو اپنا اسکور نوٹ کر لیں ۔ ایک مہینے کے بعدد وبارہ اسے پُر کریں اور دیکھیں کہ کیا ترقی یا تنزلی ہوئی ۔ ہر مہینہ اس سوالنامے کو پُر کر کے اپنی کارکردگی معلوم کرتے رہیں ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ایک فائل بنا لیں جس میں اس دستاویز کی پُر کی ہوئی کاپیاں لگا دیں ۔ تاکہ آپ ماضی اور حال کی کیفیات کا موازنہ کر سکیں ۔ اور اسی کے مطابق اپنی اصلاح کرتے رہیں ۔ اس طرح آپ کو وہ تمام احکامات ازبر ہوجائیں گے جو آپ کا رب آپ سے منواناچاہتا ہے اور جس کے بارے میں قیامت کے دن وہ آپ سے سوال کرے گا۔
سوالنامہ پر کرنے کا طریقہ
اس سوالنامے میں ہر سوال کے سامنے پانچ خانے ہیں ۔ پہلا خانہ ’ کبھی نہیں ‘، دوسرا’ کبھی کبھی ‘ تیسرا ’ اکثر‘، چوتھا’ ہمیشہ ‘ اور پانچواں خانہ ’ نا قابل اطلاق ‘ کے زمرے کا ہے ہر سوال کا جواب ان پانچ میں سے کسی ایک باکس میں موجود ہے ۔ چنانچہ آپ اپنے مطلوبہ خانے میں 1 لکھیے۔ اگر وہ سوال آپ سے متعلق نہیں تو ’نا قابل اطلاق‘کے خانے میں 1 لکھیے ۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ میں اشیاء میں ملاوٹ یا انکی ذخیرہ اندوز ی کرتا ہوں ایک اشیاء کے تاجر کے لیے تو موزوں ہے لیکن ایک پروفیسر سے غیر متعلق ہے ۔ لہٰذا پروفیسر نا قابل اطلاق کے خانے پر نشان لگائے ۔ اسی طرح حجاب سے متعلق سوال مردوں کے لیے نا قابل اطلاق ہے ۔ چند مخصوص سوالات کے علاوہ ہر سوال مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے البتہ آسانی کے لئے مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ باقی تمام خانوں کو خالی چھوڑ دیجیے۔
اسکور جانچنے کا طریقہ
سوالنامہ پُر کرنے کے بعد آ پ اپنا ا سکو ر فیصد کی صورت میں معلوم کر سکتے ہیں ۔ جب آپ متعلقہ خانے میں 1 لکھیں گے تو کمپیوٹر خود بخود آپ کا اسکور کیلکولیٹ کرے گا۔
اسکور سے اخذ شدہ نتائج
۔۔۔۔۔ اس سوالنامے میں بیان کردہ اجزاء کا تقریبا 94%حصہ ان احکامات پر مبنی ہے جن کو ماننا لازمی ہے اور رُوگردانی گناہ ہے ۔ لہٰذا ایک فرد کو کم از کم 94%ا سکور تو ضرور حاصل کرنا چاہئے ۔ اگر ا سکور 94%سے کم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اپنی ہی نظروں میں آخرت میں کامیابی سے دور ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔ اگر ا سکور94% سے کم ہو تو مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ اگر ا سکور -71% 93%کے درمیان ہے تو اصلاح کی ضرورت ہے اور یہ اصلاح اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لے کر کی جا سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔ اگر ا سکور 51% – 70% کے درمیان ہے تو معاملہ خاصا بگڑ ا ہوا ہے ۔ اب اصلاح محض شب و روز کے جائزہ سے نہیں ہو گی بلکہ کسی نیک صالح اور دانشمند ساتھی یا رہنما کی ضرورت ہے ۔ اور پھر مضبوط قوت ارادی بھی درکار ہے ۔
۔۔۔۔۔ اگر ا سکور 31% – 50% کے درمیان ہے تو آپ خطرے کے دائرے ریڈ زون میں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دین کے ایک بہت بڑ ے حصے پر عمل نہیں کر رہے ۔ اس سلسلے میں آپ کو اپنے عقائد ایمان اور نظریہ حیات کو نئے سرے سے دیکھنا ہو گا ۔کیونکہ اتنے کم ا سکور کا مطلب علم کی کمی نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے کی کمزوری ہے جو انسان کو انکار آخرت اور انکار خداتک لے جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔ اگر ا سکور 11% – 30% کے درمیان ہے تو معاملہ بے حد خطرناک ہے اور آپ کو اس ضمن میں خاصی محنت درکار ہے ۔ تاخیر یا لا پرواہی تباہ کن نتائج کو جنم دے سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔ اگر ا سکور 10% سے کم یا منفی ہے تو مندرجہ بالا پوائنٹ نمبر4 میں بیان کردہ تمام ہدایات کو غور سے پڑ ھ لیں ۔ مزید یہ کہ منفی زون کا مطلب یہ ہے کہ آپ دین کے احکامات پرعمل کے مقابلے میں خلاف ورزی کے زیادہ مر تکب ہو رہے ہیں ۔ آپ دیکھ لیں کہ آپ کا ایمان صرف زبانی اقرار تک محدود تونہیں اور اگر ایسا ہے تو آپ خسارے میں ہیں جیسا کہ سورہ عصر میں بیان ہوتا ہے ۔
بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ( العصر 3-2:103 (
اسکور کا اشاریہ
۔۔۔۔۔ 94% سے زیادہ ا سکور: قابل قبول
۔۔۔۔۔ 71% – 94% : قابلِ اصلاح
۔۔۔۔۔ 51% – 70% : خراب (Poor)
۔۔۔۔۔ 31% – 50% : خطرہ (Red Zone)
۔۔۔۔۔ 11% – 30% : اسلام سے رُوگرادانی
۔۔۔۔۔ 10% سے کم یا منفی ا سکور : سرکشی
(مصنف: پروفیسر محمد عقیل)