مثبت طرز عمل ہی زندگی کی ضمانت ہے

یہ کسی شخص کا رویہ ہی ہوا کرتا ہے جو اس کا لائف اسٹائل متعین کرتا ہے۔ انسان کسی چیز کے بارے میں اندازہ لگانے سے پہلے اس کی ایک تصویر اپنے دماغ میں بنا لیتا ہے جو اس چیز کے بارے میں اس انسان کے رویے کو جنم دیتی ہے۔ ایک شخص وقت کے ساتھ ساتھ مثبت یا منفی رویے سیکھ سکتا ہے۔ اس ضمن میں انسانوں کی تین اقسام ہیں۔

۔۔۔۔۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ہی اس کی مشکلات کے بارے میں پریشان ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ یہ لوگ اس کار کی طرح ہوتے ہیں جو صرف دھکے ہی سے اسٹارٹ ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کام کی ابتدا میں تو پرجوش اور متحرک ہوتے ہیں مگر اس پر استقامت سے قائم نہیں رہ پاتے۔

۔۔۔۔۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کام کو سرانجام دینے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پسند کرتے ہیں۔

دور حاضر میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو کس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے؟ یہ تبدیلیاں ہمارے لئے خطرہ ہیں یا چیلنج؟ دور جدید کو سمجھنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ مفید رہے گا۔  پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

اگرچہ آپ کامیاب بھی ہوں، پھر بھی منفی ذہنیت کسی بھی وقت آپ کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یاد رکھیے۔

۔۔۔۔۔۔ یہ صرف آپ ہی ہیں جو اپنے رویے اور طرز عمل کے ذمے دار ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ آپ کے ذہن میں کسی چیز کی جو تصویر تشکیل پا جاتی ہے، اس کے پیچھے آپ کے رویے ہی کا ہاتھ ہوا کرتا ہے۔ [یعنی اگر آپ کا رویہ مثبت ہوگا تو تصویر بھی مثبت بنے گی ورنہ منفی رویے سے ہر چیز کی منفی تصویر ہی ذہن میں تشکیل پائے گی۔]

۔۔۔۔۔۔ آپ کے ذہن میں کسی چیز کی جو [مثبت یا منفی] تصویر بنے گی، آپ دنیا سے اسی تصویر کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔ آپ دنیا سے جیسے معاملات کریں گے، اس کے مطابق ہی آپ کو اچھا یا برا تجربہ حاصل ہوگا۔ [یعنی اگر آپ مثبت ذہنیت کے ساتھ میدان عمل میں اتریں گے تو آپ کو اچھا تجربہ حاصل ہوگا، کامیابی نصیب ہوگی اور اچھے لوگ ملیں گے۔ اس کے برعکس منفی ذہنیت کے ساتھ کام کرنے والے کو ویسے ہی لوگ ملیں گے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔]

۔۔۔۔۔۔ جیسا تجربہ آپ کو حاصل ہوگا، اس کا براہ راست اثر آپ کے معیار زندگی پر ہوگا۔

منفی ذہنیت کے لوگ دوسروں سے صرف اور صرف منفی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ [وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہر شخص انہیں دھوکہ دینے کے لئے کمربستہ ہے۔] یہ منفی ذہنیت بسا اوقات اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ایک اچھا خاصا مثبت طرز فکر رکھنے والا شخص بھی ان کا شکار ہو جاتا ہے۔ منفی ذہنیت والے افراد نہ تو خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ منفی ذہنیت کے پیچھے جسمانی، جذباتی اور عقلی اعتبار سے ایک کمزور شخصیت ہوتی ہے۔

ایک شخص کے گناہوں کو اللہ تعالی نے اس لئے معاف کر دیا تھا کہ اس نے پیاس سے مرتے ہوئے ایک کتے کو کنویں سے پانی نکال کر پلایا تھا۔ ہر جاندار چیز کے ساتھ ہمدردی کرنے کا اجر اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم۔ (بخاری، کتاب الادب)

    جہاں تک جسمانی قوت کا تعلق ہے تو مناسب خوراک اور باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے سے اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ اپنے جسمانی فگر کے بارے میں شکار ہو کر اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ بسا اوقات خود اذیتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کے والدین [یا دیگر افراد] اگر کچھ کہیں تو وہ اسے غلط معنی پہنا کر پھٹ پڑتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ مناسب خوراک سے محروم ہوتے ہیں۔ خوراک سے محرومی کے باعث ان کے دماغ میں ہر وقت اچھے کھانے کی خواہش موجود رہتی ہے۔ اچھی جسمانی صحت ہمیں منفی ذہنیت سے نجات عطا کر دیتی ہے۔

    جذباتی اسٹیمنا، مثبت طرز فکر کے لئے ایک لازمی امر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی اعلی مقصد دریافت کر لے تو اس سے بے پناہ جذباتی قوت اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ یہ اعلی مقصد اللہ تعالی کو راضی کرنا ہو سکتا ہے۔۔۔۔ مکمل وابستگی اور ایمان کے ساتھ خود کو اس اعلی مقصد کے سامنے جھکا دیجیے۔۔۔۔

    جب ہم اپنی عقل اور تلاش کرنے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے کوئی کام کامیابی سے سر انجام دے دیتے ہیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہوتا بلکہ تمام اتفاقات کی موجودگی میں ایسا ہو رہا ہوتا ہے۔ اس بات کی تحقیق کرتے رہیے کہ یہ کام ممکن کس طریقے سے ہو سکتا ہے۔

    یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ زندگی ہمیشہ کامیاب رہنے کا نام نہیں ہے۔ یہ اس صلاحیت کا نام ہے جس کی مدد سے کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں کا سامنا عزت، وقار اور شان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ کامیابی سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں مگر ناکامی سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ جب ہم ناکامیوں سے سیکھنے کے آرٹ میں مہارت حاصل کر لیں تو یہ بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

    ناکامی سے متعلق یہ رویہ، ایک مثبت رویہ ہے۔ جب ہماری شخصیت کے ان تین پہلوؤں [یعنی جسمانی، جذباتی اور عقلی] کی تعمیر ہو جائے تو ہم آتما بل یعنی اندرونی قوت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس اندرونی قوت کی مدد سے ہم مثبت طرز عمل کو اپنے ہر کام کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اپنشد کے مطابق، سچائی کو بزدلوں پر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ جسمانی و روحانی اعتبار سے کمزور افراد کامیابی کے مستحق نہیں ہوتے۔

    جب آپ اپنی شخصیت کے تین پہلوؤں یعنی جسمانی صحت، جذباتی حسن اور عقل و دانش کی تعمیر کر لیتے ہیں تو آپ کا رویہ مثبت ہو جاتا ہے۔ اس مثبت طرز عمل کےساتھ آپ زندگی کی جنگ میں کود پڑتے ہیں جس میں کامیابی آپ کی منتظر ہوا کرتی ہے۔

(مصنف: انوراگ چندرا، ترجمہ: محمد مبشر نذیر، بشکریہ: www.123oye.com)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ فاضل مصنف نے تعمیر شخصیت کے جو تین پہلو بیان کیے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے حکمت عملی وضع کیجیے۔ آپ اپنی شخصیت کے جسمانی، جذباتی اور عقلی پہلو کی تعمیر کس طرح کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔ تعمیر شخصیت کے ان تینوں پہلوؤں کا ہماری اصل زندگی یعنی آخرت میں کیا فائدہ ہوگا؟

قرآن مجید اور تعمیر شخصیت لیکچرز

مثبت طرز عمل ہی زندگی کی ضمانت ہے
Scroll to top