انڈیا کے ایک اخبار کے مطابق ایک طالبہ نے خودکشی کرلی ۔ اس کے گھر والوں نے بتایا کہ وہ اپنے فیل ہونے کے اندیشے سے بہت زیادہ خوف زدہ تھی اور اس وسوسے میں مبتلا رہتی کہ اگر وہ پاس نہ ہوئی تو اس کے ماں باپ اس کی سرزنش کریں گے، دوست مذاق اڑائیں گے اور خاندان میں بدنامی ہوگی۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جب امتحان کا نتیجہ شایع ہو ا تو وہ طالبہ پاس تھی ۔
ہم میں اکثر لوگوں کی زندگی بھی مستقبل کے فرضی اندیشوں سے لرزاں رہتی ہے ۔جبکہ تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے اکثر اندیشے محض مفروضے ثابت ہوتے اور کبھی حقیقت نہیں بن پاتے ہیں۔ ماضی کے پچھتاووں اور ناخوشگوار یادوں میں جینے والا شخص ایک قنوطی، مایوس اور نفسیاتی مریض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح مستقبل کی حد سے زیادہ فکر کرنے والا فرد ایک وہمی اور خوف زدہ اور مخبوط الحواس شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔
ہماری زندگی میں بے شمار معاملات کے ساتھ کئی اندیشے جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک حساس شخص کو یہ خیال تنگ کرتا ہے کہ اگر اس کی بیٹی بن بیاہی رہ گئی تو کیا ہوگا؟، اگر نوکری نہ ملی تو گذارا کیسے ہوگا؟، بچے نافرمان نکل گئے تو کیا کریں گے ، بڑھاپا آگیا تو صحت کیونکر برقرا ر رہے گی وغیرہ وغیرہ ۔ ان اندیشوں سے نبٹنے کے لئے عام طور پر لوگ یا تو لا پرواہی کا رویہ اختیار کرتے یا پھر نیند کی گولیوں سے احساس کو فنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن یہ اس کا حل نہیں ۔
اس کا حل جاننے کے لئے پہلی اصولی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ کل کی فکر کرنا کوئی بری بات نہیں۔ یہی کل کا احساس انسان کی بقا اور ارتقا کا ضامن ہے۔ لیکن جب یہ فکر فردا اندیشوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلے میں تبدیل ہوجائے اور زندگی ایک مشکل معلوم ہونے لگے تو رک کر ایک لمحے کے لئے جائزہ لیں کہ مستقبل کے اس اندیشے کو دور کرنے کے لئے آپ آج کیا کرسکتے ہیں۔ آپ کے بس میں اگر کچھ ہے تو کر ڈالئے اور جو بس سے باہر ہے اس پر سوچنا چھوڑ دیں اور اللہ پر بھروسہ کریں کیونکہ آپ سب کچھ نہیں کر سکتے لیکن وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ پریشان ہیں کہ آپ کی پندرہ سالہ بیٹی کی شادی کے لئے رشتے اور اخراجات کا بندوبست کس طرح ہوگا۔ اس مسئلے کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ رشتے کی فراہمی کا معاملہ آپ کے اختیار سے فی الحال باہر ہے چنانچہ اس پر ابتداء ہی سے اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ جو ہوگا تو بہتر ہی ہوگا۔ البتہ شادی کے اخراجات کے لئے ابھی سے کچھ رقم اگر بچا سکتے ہیں تو بچالیں اور باقی اخراجات کو اللہ پر چھوڑ دیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اکثراندیشے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ہماری زندگی گواہ ہے کہ توہمات کے ساتھ ایک دن بھی زندہ نہیں رہاجاسکتا۔ مثال کے طورایک دفتر جانے والا شخص باہر نکلتا ہے تو اسے سڑک پر ایکسیڈنٹ ، اندھی گولی ، ڈاکو، زلزلہ ،ہارٹ اٹیک غرض کسی بھی برے حادثے کا سامنا ہو سکتاہے ۔لیکن وہ شخص اس یقین سے باہر نکلتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔چنانچہ وہ اطمینان سے نوکری پر جاتا رہتا ہے۔
آخری اصول یہ سمجھ لیں کہ آج کی زندگی حقیقت ہے اور کل کی زندگی ایک مفروضہ ۔ چنانچہ کل کے فرضی خوف کے لئے آج کی حقیقی سکون کو برباد کرنا بے وقوفی ہے۔کل کی فرضی خوشی کے حصول کے لئے آج کی زندگی کو غم زدہ کرنا مناسب نہیں ۔چنانچہ آنے والے کل کے لئے آج جو کرسکتے ہیں کرلیں اور پھر کل کو بھول جائیں کیونکہ آج کا دن یقین ہے اور کل کی شام ایک گمان۔
(پروفیسر محمد عقیل، aqilkhans.wordpress.com )
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ جو ہمارے بس میں ہے، اس کی بجائے ہم اس کی فکر کیوں کرتے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔ مستقبل کے اندیشوں کے بارے میں صحیح رویہ کیا ہے؟