یہ بات واضح ہے کہ ہمیں قرآن اور سنت سے محبت ہے ۔ اور یہ بات بھی مخفی نہیں ہے کہ ہماری اس بحث کا سبب قرآن و سنت سے لگن ہی ہے۔ اور ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں سنت سے قریب تر بات اپنانی چاہیے۔ اور اس کی بنیاد بھی رضاء الہی کا حصول ہو۔ اللہ تعالی ہمیں اخلاص عطا فرمائیں۔ اگر آپ مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق کرتے ہیں، اور یقینا کرتے ہوں گے، تو آگے پڑھیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اختلاف رائے کا وجود فطری امر ہے۔ اور اختلاف عموما جہاں نصوص (قرآن و حدیث کی عبارت) کے فہم میں فرق ہونے کی وجہ سے ممکن ہے تو وہاں اس کا سبب علم میں کمی و بیشی بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات چیزوں کو پرکھنے کا معیار (Criteria) اور اصول و ضوابط میں فرق اختلاف کا باعث ہوتا ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک اور وجہ ،جو عموما ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے، ضد، تعصب اور ’’انا‘‘ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھیں۔ میں اس بحث میں پڑنا چاہتا کہ دوسرے شخص کے ضد اور تعصب میں آنے کی وجہ بھی بعض اوقات ہمارا اپنا رویہ ہوتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف رائے کوئی اجنبی معاملہ نہ تھا، کئی ایک موقعوں پر وہ دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے۔ اور اس کا سبب فہمِ نصوص میں اختلاف کے ساتھ بسا اوقات علم نصوص میں کمی بیشی بھی تھا۔ مگر جب غلط فہمی سے صحیح فہمی کی طرف سفر کیا یا عدم علم سے علم کے زینے پر چڑھے تو اپنے رائے تو بے دھڑک بدل ڈالا۔
کیا ہم اتنی جرات رکھتے ہیں کہ اپنی بات کے کا ضعف واضح ہونے کے بعد کھلے عام اعتراف کر لیں؟اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو آگے بڑھیے ابھی تک ہم متفق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے ، اور متبع سنت ہونے کے علاوہ دین کے ساتھ مخلص بھی ہے تو اس کا آپ سے مختلف الرائے ہونا ، اس سے نفرت کا سبب قرار نہیں پا سکتا ہے۔ اگرچہ آپ کو ہزار بار ہی یقین ہو کہ آپ درست رائے پر ہیں۔ قابل نفرت ہونا تو درکنار، اللہ تعالی تو مخلص مجتہد کو اجر سے نواز رہے ہیں۔اب یقینا آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اسے بتانا تو آپ کا فریضہ ہے۔ آپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں۔ اسے وہ کچھ ضرور بالضرور جسے آپ درست سمجھ رہے ہیں مگر اس طریقے سے التي هي احسن۔ شريعت اسلامیہ آپ کو اپنے رائے کے اظہار کے لیے صرف ایک راستہ فراہم کرتی ہے اور وہ صرف احسن انداز اور طریقہ ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے ترین طریقہ سے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہم پر فرض ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود بھی احترام کا دامن نہیں چھوڑا۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔اب ذرا دوسرے رخ کی طرف بھی التفات کیجئے۔ جس طرح آپ اپنے آپ کو درست سمجھ رہے ہیں، بعینہ مخاطب و فریق ثانی بھی اسی نفسیات میں جی رہا ہے۔ اور جس طرح آپ درست بات کو (جو آپ کے نزدیک درست ہے) پہنچانا اپنا فریضہ خیال کرتے ہیں اسی طرح مسلمان ہونے کے ناطے وہ بھی اس عقیدہ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جس طرح آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کی بات دھیان اور توجہ سے سنی جائے، بعینہ دوسرا شخص بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی بات بھی دھیان اور توجہ سے سنی جائے۔ اس وجہ سے اخلاقیات او رتہذیب آپ دونوں کے لیے یہ دائرہ کھینچتی ہے کہ مخاطب کی بات کوپورے انہماک سے سنیے، ایسے کہ جیسے آپ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہ کہ آپ کی باڈی لینگویج چیخ چیخ کر بتلا رہی ہو کہ آپ تو محض بات ختم ہونے کے منتظر ہیں (ویسے ہمارے یہاں یہ بھی غنیمت ہے) اور بات ختم ہوتے ہی اپنی رائے تو تھوپنے کی کوشش کریں گے۔ انہماک اور لگن دوسرے کی بات سننے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہوجاتی ہے جب ہم انسان ہونے ناطے ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ غلطی کا امکان مجھ سے بھی ہے۔
اگر آپ کا جواب اثبات اور ’’ہاں‘‘ میں ہے تو آپ کا مزید ساتھ نصیب ہورہا ہے۔آپ کی یہ ’’ہاں‘‘ بہت اہم ثابت سبق دے رہی ہے کہ ’’ہمیں اپنی رائے کے درست ہونے کا یقین ہے اس امکان کے ساتھ کہ یہ غلط بھی ہوسکتی ہے۔ اور مخاطب کی رائے کو ہم غلط سمجھتے ہیں اس امکان کے ساتھ کہ وہ درست بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو سب سے پہلے رب تعالی کے سامنے سر بسجود ہو کر حق تک رسائی کے طلب گارہونا چاہیے، اور پھر اپنی تئیں جتنی جستجو و سعی ممکن ہو کی جائے۔
(محمد شکیل عاصم)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اختلاف رائے کی صورت میں ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں لوگ جب اختلا ف کرتے ہیں تو وہ اخلاقیات کی کن حدود کو پامال کرتے نظر آتے ہیں؟
علوم القرآن اور تعمیر شخصیت لیکچرز