اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنْ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ۔
یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی، اے میرے رب! اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔ جواب میں اس کے رب نے فرمایا کہ جو نہ مانے گا، میں اسے بھی (دنیا کی چند روزہ زندگی کا) تھوڑا سامان دوں گا، مگر آخر کار اسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔ (البقرۃ 2: 126)
جس نے کسی کی ضرورت سے زیادہ تعریف کی، اس نے اسے ہلاک کر دیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم |
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا عرب کے شہر مکۃ المکرمۃ کے بارے میں کی۔ یہ شہر آپ نے اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آباد فرمایا۔ ساڑھے چار ہزار سال سے یہ شہر اسی طرح آباد ہے اور اس طویل تاریخ میں دو تین واقعات کے استثنا کے ساتھ یہ شہر امن کا شہر رہا ہے۔ اس امن نے اس شہر کو اقتصادی اعتبار سے خوشحال ترین بنا دیا۔ بے آب و گیاہ وادیوں پر مشتمل اس شہر میں ہر طرح کا رزق اس کثرت سے دستیاب ہے جو شاید ہی دنیا میں کسی شہر میں میسر آ سکے۔ ایسا صرف آج کل ہی نہیں ہے بلکہ ساڑھے چار ہزار سال سے یہ شہر اسی خوشحالی سے متمتع ہو رہا ہے۔
اس دعا سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام امن کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ دنیا کے کسی بھی ملک یا شہر کی معاشی اور تمدنی ترقی کا انحصار امن پر ہے۔ آج بھی اگر دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ دنیا میں وہی ملک ترقی یافتہ کہلائے جاتے ہیں جہاں طویل عرصے سے امن قائم ہے۔ اس کے برعکس ایسے ممالک جہاں بدامنی، قتل و غارت، دہشت گردی، منشیات فروشی، خانہ جنگی اور اسٹریٹ کرائم زیادہ ہیں وہ اقتصادی اور تمدنی اعتبار سے پس ماندہ کہلاتے ہیں۔
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟ اس تحریر میں مصنف نے 40 سے زائد شخصی اوصاف کا جائزہ لے کر شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تعمیر کا لائحہ عمل بیان کیا ہے۔ ان خواتین و حضرات کے لئے مفید ہے جو اپنی شخصیت کی تعمیر سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ |
امن ایسی چیز ہے جس کے لئے ہزاروں مفادات اور مسائل کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز ہمارے نزدیک اہم ہے لیکن جس چیز کی اہمیت سے ہم ناآشنا ہیں وہ امن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک اور شہر دنیا میں پس ماندہ اور طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ اگر ہم دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ممالک کے لئے امن کی نہ صرف دعا کرنا ہو گی بلکہ دعا کے ساتھ ساتھ دوا یعنی عملی اقدام بھی کرنا پڑے گا۔
ہمیں ہر قیمت پر اپنے لئے امن خریدنا ہو گا خواہ اس کے لئے ہمیں اپنے کتنے ہی انفرادی و اجتماعی مفادات کو قربان کرنا پڑے۔ اس کے بغیر کبھی بھی دنیا میں ترقی کا ہمارا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اپنی انفرادی زندگی کی مثال کو سامنے رکھیے، جو لوگ لڑائی جھگڑوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں وہ مالی اعتبار سے کبھی آسودہ حال نہیں ہو پاتے۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے لئے امن کا انتخاب کرتے ہیں وہ مالی اعتبار سے چند سال ہی میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔
اس آیت میں ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالی نے آزمائش کے اصول پر بنائی ہے اس وجہ سے یہاں ان لوگوں کو بھی اس دنیا کی قلیل متاع میں بھرپور حصہ دیا جاتا ہے جو خدا کے دین کے نظریاتی یا عملی اعتبار سے منکر ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اس چھوٹی سی محدود دنیا میں اپنی اصل دنیا یعنی جنت کے باشندوں کا میرٹ پر انتخاب کر رہا ہے۔ اس میرٹ ٹسٹ میں جو کامیاب ہوئے انہیں اصل دنیا میں آباد کیا جائے گا جہاں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو گا اور نہ مستقبل کا اندیشہ۔ جو اس ٹسٹ میں فیل ہوئے انہیں بدترین ٹھکانہ نصیب ہو گا جہاں پچھتاووں اور اندیشوں کے سوا کچھ اور میسر نہ ہو سکے گا۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ امن اور اقتصادی ترقی کا تعلق کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ انارکی اور لاقانونیت کے کیا نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز