ایڈیٹ باکس

آج کل یہ بات عام طور پر کہی جارہی ہے کہ ٹیلیوژن کے آنے کے بعد کتاب اور قلم کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عصرِحاضر میں الیکٹرونک میڈیا کے عام ہونے کے بعد مطالعے کا رواج بہت کم ہوگیا ہے۔یہ بات ہماری سوسائٹی کے اعتبار سے ٹھیک ہے مگر اہل مغرب کے ہاں آج بھی کتاب علم سیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ان کے ہاں الیکٹرونک میڈیا خبر،کھیل اور تفریح کے معاملے میں تو یقیناً بہت زیادہ موثر ہوگیا ہے مگر علم کی دنیا میں آج بھی کتاب و قلم کی حکمرانی ہے۔ ان کے ہاں ٹیلیوژن کو ایڈیٹ باکس کہا جاتا ہے۔اس یقین کی بنا پر کہ بہت زیادہ ٹیلیوژن دیکھناانسان کی ذہنی سطح کو کم تر کردیتا ہے۔

Watching too much television causes stupidity.

یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔کیونکہ ٹیلیوژن دیکھنے کے عمل میں انسان اپنی عقل کو ،جو اس کا اصل شرف ہے، بہت کم استعمال کرتا ہے۔جبکہ مطالعہ کرنا ایک بھرپور ذہنی ورزش ہے جس میں انسان کی علمی و عقلی صلاحیتیں بے پناہ بڑھ جاتی ہیں۔

مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

ٹیلیوژن دیکھنے والے شخص کے مقابلے میں کتاب پڑھنے والا شخص اپنے ذہن کا بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ جب وہ الفاظ پڑھتا ہے تو ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بات سمجھ میں نہ آئے تو دو تین دفعہ رک کر دیکھتا ہے۔اپنے تخیل کو استعمال کرکے وہ ان کو تصورات میں تبدیل کرتا ہے۔ان کا تجزیہ کرتا ہے۔الفاظ نئے ہوں تو ڈکشنری سے ان کے معنی دریافت کرتا ہے۔اس طرح نہ صرف اس کا علم بڑھتا ہے بلکہ اس کی امیگریشن طاقت اس عمل سے مضبوط ہوتی ہے۔ اس کی تجزیہ کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔چیزوں کو سمجھنے اور اخذ کرنے کی استعداد میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    جبکہ مطالعہ نہ کرنے اور صرف ٹیلیوژن پر انحصار کرنے والا کبھی اس عمل سے نہیں گزرتا۔ وہ اس ایڈیٹ باکس پر ہر چیز اپنے سامنے مجسم دیکھتا ہے۔ہر پیغام اور ہر واقعہ آواز، تصویر ،رنگ اور روشنی کی مدد سے اس طرح اس کے سامنے برہنہ ہوکر آجاتی ہے کہ عقل کا استعمال کرنے کی ضرورت بہت کم ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی ذہنی صلاحیت کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور آخرکار وہ اتنی کم زور ہوجاتی ہے کہ اور وہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی کھوبیٹھتا ہے۔ اس کی زندگی بس سنی سنائی باتوں میں گزرنے لگتی ہے۔

دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار
 یہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کی روایت جو پہلے ہی بہت کمزور تھی اب کم و بیش ختم ہوتی جارہی ہے۔لوگ اول تو اپنی معاشی اور معاشرتی مصروفیات ہی سے وقت نہیں نکال پاتے۔ اور جو وقت انہیں ملتا بھی ہے وہ ٹیلیوژن کے چینل بدلتے ہوئے گزرجاتا ہے۔ لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ہے یا پھر مطالعہ کرنا انہیں بہت مشکل لگتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص بڑے فخر سے بتائے کہ وہ ورزش نہیں کرتا ۔ ایسے شخص کا جسم بے ڈول اور دل کمزور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مطالعہ نہ کرنے والے اور کیبل کے چینل بدلتے رہنے والے افراد ذہنی طور پر اسمارٹ نہیں رہتے ۔ذہنی طور پر پسماندہ ہوجاتے ہیں۔ذہنی پسماندگی کی اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ لوگ خود اپنی جہالت کو فخریہ طور پر بیان کرنے لگیں۔

    اجتماعی طور پر جس قوم کے افراد میں مطالعہ کی عادت ختم ہوجائے وہاں علم کی روایت کمزورہوجاتی ہے۔ علم کی مضبوط روایت کے بغیر دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باجود دنیا میں بہت پیچھے ہے۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ٹیلیوژن کے سامنے کتاب کوشکست ہورہی ہے۔یہ شکست زندگی کے ہر میدان میںہماری شکست کا سبب بن سکتی ہے۔یہ نوشتہ دیوار ہے ۔ مگر کیا کیجیے اسے پڑھنے کے لیے بھی مطالعے کی عادت ہونی چاہیے جو بدقسمتی سے ہم میں نہیں۔ ایسے میں ہر باشعور شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرے۔آج اس سے بڑی کوئی قومی خدمت ممکن نہیں۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

 اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مطالعے اور ٹیلی وژن کے ذریعے علم کے حصول میں بنیادی فرق کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ کے مطالعے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ تبصرہ کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

ایڈیٹ باکس
Scroll to top