خوبصورت نظرآنا انسان کی ایک فطری خواہش ہے۔ ہر زمانے میں انسان اپنے آپ کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ مگر اکثر لوگ اس معاملے میں افراط و تفریط کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے زیب و زینت کے معاملے میں اس نے انسان کے فطری ذوقِ جمال کو ملحوظ رکھ کر لوگوں کی بالکل صحیح رہنمائی کی ہے۔
ذوق جمال کے اعتبار سے انسانوں کے لیے خوبصورتی کے تین درجات ہیں۔ پہلے درجے میں انسان بدبو، غلاظت اور میل کچیل سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ نجاستیں ذوقِ سلیم پر سخت گراں گزرتی ہیں۔ گندگیوں کو اپنے سے دور کرکے اورصفائی ستھرائی حاصل کر کے انسان نہ صرف پاکیزگی حاصل کرتا ہے بلکہ خدا کی عطا کردہ فطری شکل و صورت میں لوگوں کو بھلا بھی لگتا ہے۔
غیبت لذیذ (اور مرغن) کھانے کی طرح ہے۔ لوگ اسے فوراً ہڑپ کر لیتے ہیں (مگر اس کے روح پر اثرات سے واقف نہیں ہوتے۔) سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام |
خوبصورتی کا یہ وہ درجہ ہے جس کا حصول لازمی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین میں کثرت کے ساتھ ایسے احکام ہیں جو صفائی ستھرائی اور پاکیزگی پر مبنی ہیں۔ جیسے ناخن تراشنا، غیر ضروری بال صاف کرنا اور غسل و وضو کے احکام وغیرہ۔ روایت میں بیان ہو اہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک صاحب کے بکھرے بال دیکھ کر اسے بال سنوارنے اور دوسرے کے میلے کپڑے دیکھ کر انہیں صاف رکھنے کی تلقین کی (ابی یعلیٰ رقم:2026)۔
خوبصورتی کا دوسرا درجہ وہ ہے کہ جس میں انسان باقاعدہ زیب و زینت اختیار کرتا ہے۔ اس درجہ کا اختیار کرنا محمود و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں لباس اور جوتوں کی خوبصورتی کی یہ کہہ کر تحسین کی گئی ہے کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے (مسلم رقم:91) اس قسم کی زینت میں خواتین بہت اہتمام کرتی ہیں۔ لباس کی خوبصورتی ، بالوں کی آرائش، چہرے اور دیگر کھلے رہنے والے اعضاء پر سنگھار اور زیورات وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ صنف نازک ہونے کی بنا پر ان کا ایسا کرناایک فطری عمل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اہتمام پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ ایک خاص قریبی حلقے میں اس کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے (النور24:31)
زندگی کی ناکامیاں، رشتوں کی تلخیاں، انسانوں کے رویے ہمیں مایوس کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ مایوسی انسان کے ذہن پر اس حد تک دباؤ پیدا کر دیتی ہے کہ انسان دنیا کی جدوجہد کے مقابلے میں اس دنیا سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس حد تک پہنچنے سے پہلے اس تحریر کا مطالعہ کر لیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحریر آپ کے کام آ جائے۔ یہاں کلک کیجیے۔ |
تاہم خواتین پر اس حوالے سے کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مردوں کے لیے خواتین میں ایک کشش فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ خواتین کی اضافی زیب و زینت کا عمل اس کشش میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کشش کو اگر آزاد اور بے روک ٹوک چھوڑدیا جائے تو یہ زنا کے اس جرم تک انسان کو پہنچادیتی ہے جو پورے معاشرتی ڈھانچے کو درہم برہم کردیتا ہے۔ چنانچہ سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت میں ،مردو زن کے اختلاط کے موقع پر، اللہ تعالیٰ نے دیگر احکام کے ساتھ خواتین کو دو ہدایتیں اضافی طور پر دی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کے آنچل سے اپنے گریبان اور سینے کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔ دوسرے یہ کہ اس موقع پر وہ اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں۔ ان کو چھپانے کا اہتمام کریں۔
اس معاملے میں خواتین کو دو رعایتیں دی گئی ہیں۔ ایک تو وہی جو ہم نے اوپر بیان کر دی ہے کہ اخفائے زینت کی یہ پابندی قریبی حلقے کے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ دوسری رعایت یہ ہے کہ زینت اگر ان اعضا پر ہو جو عادتاً کھلے رہتے ہیں جیسے ہاتھ کی انگوٹھی ، آنکھوں کا کاجل یا ناک کی کیل وغیرہ تو یہ زینت اِس پابندی کی زد میں نہیں آتی۔
یہ رعایت آسانی کے نقطۂ نظر سے دی گئی ہے مگر اس کے باوجود خواتین پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایسے مواقع پر اصل حکم زینت چھپانے ہی کا ہے اس کی نمائش کا نہیں۔ چنانچہ قرآن نے اس سلسلۂ احکام کے آخر میں، مثال کے طور پر، صرف ایک چیز کو بیان کردیا کہ خواتین اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ وہاں موجود لوگ ان کی مخفی زینت کے بارے میں جان لیں۔ چنانچہ کوئی بھی ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے خواتین مردوں کے لیے صنفی کشش پیدا کرنے کا سبب بن جائیں ان احکام کی روح کے قطعاً خلاف ہوگا۔
خوبصورتی اختیار کرنے کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں لوگ فطری اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ مثال کے طور پرزیب و زینت میں اسراف کرنا، متکبرانہ انداز اختیار کرنا یا ہر کام سے ہٹ کر ہمہ وقت خود کو جاذب نظر بنانے میں لگ جانا یا پھر انسان کی فطری خلقت میں تبدیلی کرکے خوبصورت بننے کی کوشش کرنا وغیرہ۔ چنانچہ اسی پس منظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں مردوں کو سونا اور ریشم کے استعمال سے منع کیا (احمد:رقم16972) اور صنف مخالف کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد و عورت پر لعنت کی ہے (احمد:رقم3151)۔ اس پس منظر میں آج بھی اخلاق اور فطرت کے خلاف خوبصورتی کا کوئی طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ خوبصورت نظر آنے کی خواہش میں افراط و تفریط کے کیا رویے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں؟
۔۔۔۔۔ خوبصورت نظر آنے کی خواہش میں اعتدال کا رویہ کیا ہے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز